ہم سب کے حق میں اٹھتی آوازوں سے سوال


بچپن سے ایک واقعہ سنتے آئے ہیں کہ ایک شخص شدید بیمار پڑ گیا، اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا تو ڈاکٹر کے علاج کے دوران ہی وہ بے ہوش ہوگیا۔ ڈاکٹر کی تمام کوششوں کے باوجود اسے ہوش میں نہ لایا جاسکا تو ڈاکٹر نے اس کو مردہ قرار دے دیا۔ عزیز و اقارب روتے پیٹتے لاش کو لے گئے اور کفن دفن کا سارا بندوبست کیا۔ آخری رسومات کے بعد جب وہ قبر میں اتارنے لگتے ہیں تو مردے کے جسم میں حرکت ہوتی ہے اور کچھ دیر بعد وہ آنکھیں کھول دیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا ماجرا ہے تو اسے ساری بات بتائی جاتی ہے جسے سن کے وہ جلدی جلدی اٹھ کے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو زندہ ہوں۔ لیکن وہاں پہ کچھ سوشل میڈیا اخبار کے دانشور بھی ہوتے ہیں اور تقریباً نوے فیصد صاف صاف کہتے ہیں کہ قبر میں لیٹے رہو تم ڈاکٹر سے زیادہ سیانے نہیں ہو اور ڈاکٹر تمہاری موت کا اعلان کر چکا ہے۔ اس لیے اب ہم تم پہ مٹی ڈال کے ہی جائیں گے۔

مبشر زیدی صاحب کو یہ کریڈٹ بہرحال جاتا ہے کہ انہوں نے چونکہ چنانچہ اگر مگر چھوڑ کے بات ہی ختم کر دی کہ چپ کر جاؤ کل کے لونڈو اور لونڈیو! تم جتنا مرضی جان لو، سمجھ لو تم مولوی کو نماز نہیں سکھا سکتے یعنی ڈاکٹر سے زیادہ سیانے ہو ہی نہیں سکتے اور ڈاکٹر کبھی غلطی کر ہی نہیں سکتے۔ باقی سب لوگ تو چلو حمایت بھی کر رہے تھے تو صحافتی حوالے دے کے اور تھوڑی طریقے سے بحث کر رہے تھے لیکن زیدی صاحب نے تو ‘رولا ہی مکا دیا’۔ مکمل میدان مارنے کا زیدی صاحب دعوی نہیں کرسکتے کیونکہ ان کا اعجاز اعوان صاحب کے ساتھ اس وقت سخت مقابلہ ہے کیونکہ ایک صاحب فرما رہے ہیں کہ تم لوگ ڈاکٹر سے زیادہ سیانے نہیں دوسرے اسی بحر میں (حالانکہ یہ بحر دانشوروں اور لکھاریوں کے لیے شروع سے ہی مشکل سمجھی گئی) فرماتے ہیں کہ اعتراض اور تنقید کرنے والوں سے کہیں مثبت طریقے سے بات مولانا لدھیانوی نے کی ہے۔ اللہ اکبر

غالب نے کہا تھا

حیراں ہوں سر کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

کچھ ایسی ہی کیفیت ایسی موشگافیاں سن کے بندہ ناچیز کی ہورہی ہے۔

پہلی اور بنیادی بات تو یہ کہ چاہے وہ روداد تھی یا انٹرویو تھا۔ مسئلہ صرف اس سے ہوا کہ یہ سب بالکل واضح طور پہ نظر آ رہا تھا کہ یہ سب مثبت پروجیکشن کے لیے چھاپا جا رہا ہے جس کی ’ہم سب‘ سے جن دوستوں کو امید نہ تھی وہ ہر طریقے سے اس پہ آواز اٹھا رہے ہیں جو کہ ان کا جائز حق ہے۔ آزاد صحافت اور نقطہ نظر کے اظہار کی رپورٹنگ کے رنگ برنگے جھنڈے اٹھانے والے سن لیں کہ اس کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ آپ مولونا لدھیانوی کے نام سے کوئی بھی بیان چھاپ دیتے کسی کو خاص مسئلہ نہ ہوتا لیکن مکمل زبان و بیان کا زور لگایا جانا اور مخصوص قسم کا عنوان دینا اور متن میں شخصیت کی حلیمی و بردباری کا کے قصیدے پڑھنا

نہ ہم سمجھے نہ آپ آئے کہیں سے

پسینہ پونچھئیے اپنی جبیں سے

اس سب کی ’ہم سب‘ سے امید نہ تھی اس لیے اس پہ احتجاج کیا گیا۔ اب اس معاملے پہ جو اصحاب ردعمل دے رہے ہیں ان میں سے گنتی کے لوگوں نے اپنا واضح مؤقف دیا کہ وہ اس کو صحیح نہیں سمجھتے۔ جب کہ دوسری جانب کبھی ہمیں لبرل طالبان کی اصطلاح سننے کو ملتی ہے، کبھی کوئی لونڈے لپاڑے پکار کے دس ہزار اشعار یاد کرنے کو کہتا ہے، کوئی لتاڑتا ہے کہ آپ مولوی کو نماز نہیں سکھا سکتے اور ڈاکٹر سے سیانا ہونے کا تو سوچیں ہی نہ۔ اور اس پہ ایک اور صاحب لدھیانوی کو اتنا مثبت بتاتے ہیں کہ اعتراض کرنے والے یہ دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہوجاتے ہیں کہ بھان متی کہاں کہاں سے کنبہ جوڑ رہی ہے۔

اب اس سب پہ ایسے اصحاب سے مودبانہ سوال ہے کہ کل کو اگر وجاہت مسعود صاحب ہی مان لیں کہ ان کے ادارے سے ہی غلطی ہوگئی ہے کیونکہ سقراط کی باتیں کرنے والا غلطی کا احساس ہونے پہ صرف انا کے لیے خاموش نہیں رہ سکتا تو آپ کا کیا ہوگا جناب عالی؟ آپ کی انا کا کیا بنے گا؟ آپ لوگوں کی محنت کہاں جائے گی اور میرا خیال ہے ایسے اصحاب صورت حال کو محترم وجاہت مسعود اور ان کے ادارے کے لیے مزید پیچیدہ اور کسی حد تک دیکھنے والوں کے لیے دلچسپ بنا رہے ہیں جس کے لیے ہم ان سب کو جزاک اللہ ہی کہہ سکتے ہیں اور ان کی ذہانت اور دانش پہ ماشا اللہ ہی کہہ سکتے ہیں اور ان کے علمی درجات میں مزید بلندی کی دعا ہی کرسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).