سٹیون ہاکنگ‘ کائنات اور خدا


سٹیون ہاکنگ STEPHEN HAWKING اکیسویں صدی کے قابلِ احترام سائنسدانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی سائنسی پیشین گوئی کہ بلیک ہول BLACK HOLE ایک خاص طرح کی ریڈئیشن خارج کرتے ہیں اب درست ثابت ہو گئی ہے اور ہاکنگ ریڈئیشن HAWKING RADIATION کہلاتی ہے۔ ہاکنگ ایک طویل عرصے کیمبرج کی معتبر یونیورسٹی کے شعبہِ تحقیق کے ڈائرکٹر تھے۔ وہ اپنی جسمانی معذوری اور ویل چیر کی پابندی کے باوجود سماجی‘ سیاسی اور پیشہ ورانہ طور پر فعال زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں دنیا کے بے شمار ایوارڈ مل چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ان کے ذہن میں گلیلیو‘ نیوٹن اور آئن سٹائن یکجا ہو گئے ہیں۔ انہیں ساری دنیا کی یونیورسٹیوں سے دعوت نامے آتے ہیں۔ لوگ ان کی تقاریر بڑے شوق سے سنتے ہیں۔ وہ ان کی سنجیدہ گفتگو سے مسحور بھی ہوتے ہیں اور ان کے طنز و مزاح سے محظوظ بھی ہوتے ہیں۔
ہاکنگ 1942 میں انگلستان کے شہر اکسفورڈ میں ایک پڑھے لکھے دانشور گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کو طب اور ان کی والدہ کو سیاست اور فلسفے سے گہرا لگائو تھا۔ کالج اور یونیورسٹی میں بہت سے مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد ہاکنگ نے فیصلہ کیا کہ وہ تھیوریٹیکل فزکسTHEORETICAL PHYSICS میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے۔
1963 میں جب وہ اکیس برس کے تھے تو ان پر لو گیرگ بیماری LOU GEHRIG’S DISEASE کا حملہ ہوا۔ یہ بیماری MOTOR NEURON DISEASE بھی کہلاتی ہے جس میں انسان کا جسم آہستہ آہستہ مفلوج اور معذور ہو جاتا ہے۔ جب ڈاکٹروں نے اس بیماری کی تشخیص کی اور ہاکنگ کو بتایا گیا کہ وہ صرف دو سال زندہ رہ سکیں گےتو یہ خبر سن کر ہاکنگ بہت اداس ہو گئے۔ لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ ان کی بیماری بہت ہی آہستہ آہستہ آگے بڑھے گی اور وہ ایک طویل عرصے تک زندہ رہ سکیں گے تو ان کی ڈیپریشن میں کمی آئی۔ اگرچہ بیماری کے اثرات نے انہیں آہستہ آہستہ مفلوج و معذور بنا کر جسمانی طور پر ویل چیر تک محدود کر دیا لیکن اس کے باوجود وہ ذہنی طور پر اپنا تحقیقی اور تخلیقی کام کرتے رہے۔ ان کی دو کتابیں
A BRIEF HISTORY OF TIME
A GRAND DESIGN
بہت مقبول ہوئیں۔ ان کتابوں میں انہوں نے پچھلے تین ہزار برس کی سائنس کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے اپنی کتابون میں بتایا کہ یونانی فلاسفروں نے انسانیت کو منطق اور سائنسی فکر سے روشناس کرایا۔THALES OF MELLITUS [624—546BC] وہ پہلا فلاسفر تھا جس نے یہ خیال پیش کیا کہ کائنات خدا کی مرضی سے نہیں بلکہ چند قوانینَ فطرت کی وجہ سے چلتی ہے۔ اگر ہم وہ قوانین جان لیں تو کائنات کے بارے میں صحیح پیش گوئیاں کر سکیں گے۔ وہ پہلا ماہرِ فلکیات تھا جس نے 585 قبل مسیح میں سورج گرہن کی پیش گوئی کی تھی۔ اسی لیے وہ پہلا مغربی سائنسدان مانا جاتا ہے۔ تھیلز ان فلاسفروں اور سائنسدانوں کے گروہ کا ممبر تھا جو ایونا IONA کے شہر میں جمع ہوتے تھے اور IONIANS کہلاتے تھے۔اس دور میں ERATOSTHENES نامی ایک اور فلاسفر بھی تھا جس نے سورج کی روشنی میں مختلف چیزوں کے سائے سے کرہِ ارض کی گولائی اور رقبہ معلوم کر لیا تھا۔
یونانی فلاسفروں میں ایک فیثا غورث PYTHAGORUSبھی تھا جس نے تکونوں کا تجزیہ کر کے ریاضیات کے راز جانے تھے۔ ارسطوARISTOTLE کو بھی افلاکیات میں کافی دلچسپی تھی۔ اسی نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ زمین گول ہے اور کائنات کا محور ہے۔ اس کا خیال تھا کہ سورج چاند ستارے سب زمین کے گرد گھومتے ہیں۔ ارسطو کے نظریے کو کلوڈیس پٹالومی [100—170AD] CLAUDIUS PTOLEMY نے اتنا مقبول بنایا کہ عیسائیوں نے اسے تسلیم کر لیا اور عیسائی پادری بائبل سے ثابت کرنے لگے کہ زمین کائنات کا محور ہے۔
پٹالومی کے چند صدیوں کے بعد نکولس کوپرنیکس NICOLAUS COPERNICUS [1473—1543] نے ارسطو اور پٹولومی کے نظریات کو چیلنج کیا اور ان کو غلط ثابت کیا۔ اس کا نظریہ یہ تھا کہ سورج مرکز ہے اور زمین سورج کے گرد گھومتی ہے نہ کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ کوپرنیکس نے اپنے نظریات چھپائے رکھے کیونکہ وہ عیسائی پادریوں سے ڈرتا تھا۔ اسے خطرہ تھا کہ وہ ان کی زندگی مشکل بنا دیں گے۔ کوپرنیکس کے نظریے کو گلیلیوGALELIO [1564—1642AD] نے اپنی دوربین کی تحقیق سے سچ ثابت کیا اور اسے عوام تک پہنچایا لیکن اس کے ساتھ وہی سلوک ہوا جس کا کوپرنیکس کو خطرہ تھا۔ گلیلیو پر گرجے اور پادریوں نے دائرہِ حیات تنگ کر دیا اور اسے بقیہ زندگی کے لیے اپنے ہی گھر میں نظر بند کر دیا۔[۰یہ علیحدہ بات کہ بیسویں صدی میں کیتھولک چرچ نے گلیلیو سے معافی مانگی]
گلیلیو کی دوربین ایک سادہ اور عام سی دوربین تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ دوربینیں بڑی اور پیچیدہ ہوتی گئیں۔ آخر 1929 میں ایڈون ہوبل EDWIN HUBBLE [1889—1953] نے دو سو انچ لمبی دوربین بنائی اور اسے کیلیفورنیا کی ایک پہاڑی پر نصب کر دیا۔ اس دوربین کے مشاہدات نے افلاکیات کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔
جب سائنسدانوں نے ہوبل کی دوربین سے اپنے ارد گرد پھیلی کائنات کا مشاہدہ کیا تو انہین پتہ چلا کہ کائنات میں وہ افلاکی چیزیں جو NEBULAE کہلاتی تھیں کیونکہ وہ غیر واضح تھیں دراصل ہماری کہکشاں کی طرح اور کہکشائیں اور کائناتیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ کہکشائیں زمین سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ جب انہوں نے دور ہونے کی رفتار کا تعین کر لیا تو انہیں یہ جاننے میں دیر نہ لگی کہ ہماری کائنات کا آغاز 13.7 سال پہلے ایک BIG BANG سے ہوا تھا۔ ہماری کائنات پہلے ایک سیال گرم مادہ تھی وقت کے ساتھ ساتھ وہ ٹھنڈی ہوتی گئی۔ اس کے نتیجے میں 4.5 سال پہلے زمین بنی۔ ہوبل کے اعزاز میں وہ دوربین ہوبل دوربین کے نام سے جانی جاتی ہے۔
ہاکنگ کے نظریات سے بہت پہلے آئزک نیوٹن ISAAC NEWTON [1642—1726 AD] نے کششِ ثقل اور حرکت کے نظریات دریافت کیے تھے۔ بیسویں صدی میں البرٹ آئن ستائنALBERT EINSTEIN [1879…1953 AD] نے نظریہ اضافیت پیش کیا اور یہ ثابت کیا کہ روشنی ایک ذرہ PARTICLE بھی ہے اور ایک لہر WAVE بھی۔”LIGHT BEHAVES AS BOTH PARTICLE AND WAVE” اس کا فارمولا
E= mc 2 بہت مشہور ہوا جس میں اس نے مادہ‘ رفتار اور توانائی کا رشتہ بتایا۔
ہاکنگ کی تحقیق سے پہلے انسان سمجھتے تھے کہ وہ ایک کائنات میں رہتے ہیں۔
ہاکنگ اپنی تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارے ارد گرد صرف ایک کائنات نہیں بہت سی کائناتیں ہیں۔ ہم uni-verse میں نہیں multi-verse میں رہتے ہیں۔ یہ کائناتیں پانی کے بلبلوں کی طرح پیدا ہوتی ہیں ان میں سے بعض کی عمر مختصر اور بعض کی عمر طویل ہوتی ہے۔ وہ کائناتیں جو ہماری کائنات کی طرح بڑھتی اور پھیلتی ہیں ان میں سورج چاند ستارے بنتے ہیں۔ آخر ایک دن وہ کائنات پھیلنا بند کر کے سکڑنا شروع کر دیتی ہے اور سکڑتے سکڑتے کسی بلیک ہول میں مر جاتی ہے۔ پھر اس بلیک ہول سے ایک اور کائنات پیدا ہوتی ہے۔ ہاکنگ اس نتیجے پر پہنچا کہ انسانوں کا وقت اور خالق خدا کا تصور صرف ہماری کائنات سے تعلق رکھتا ہے۔ جب ہماری کائنات ختم ہو جائے گی تب بھی اور کائناتیں موجود ہوں گی۔ ہاکنگ کہتا ہے کہ یہ کائناتیں خود ہی بنتی بگڑتی پیدا ہوتی اور مرتی رہتی ہیں۔ یہ سلسلہ نجانے کب سے چل رہا ہے اور کب تک چلتا رہے گا۔ نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا نہ کوئی ازل ہے نہ ابد۔ اس لیے کائناتوں کے اس دائروں کے سفر کے لیے کسی خدا کے تصور کی ضرورت نہیں۔
2014 سے پہلے ہاکنگ اپنے مذہبی‘ روحانی اور سیکولر نظریات کے بارے میں کھل کو بات نہیں کرتے تھے لیکن ستمبر 2014 کی ایک تقریر میں ہاکنگ نے کھل کر کہہ دیا کہ وہ دہریہ ہیں اور انسانوں کے لیے اپنے ارد گرد پھیلی کائناتوں کے رازوں کو سمجھنے کے لیے کسی خدا کے تصور کی ضرورت نہیں۔
ہاکنگ نے زندگی میں دو شادیاں کیں۔ ان کی پہلی بیوی نے 2007 میں جو سوانح عمری چھاپی اس کا نام TRAVELLING TO INFINITY: MY LIFE WITH STEPHEN ہے۔ اس کتاب پر جو 2014 میں فلم بنی اس کا نام THE THEORY OF EVERYTHING ہے۔ہاکنگ نے سائنس کے علم کو مقبولِ عام بنایا۔ ہاکنگ ان نابغہِ روزگار سائنسدانوں میں سے ہیں جو ہر صدی میں چند ایک ہی پیدا ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments