نواز شریف کے لئے اہم اور تلخ سیاسی فیصلے کرنے کا وقت


‘ڈان لیکس’ کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ حکومت کے سامنے پیش کیے جانے کے بعد سنیچر کو اس وقت ایک غیرمعمولی صورت حال پیدا ہو گئی جب ایک طرف فوج نے وزیر اعظم کے ایک نوٹیفیکشن کو مسترد کر دیا تو دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اصل نوٹیفیکیشن تو ابھی جاری ہوا ہی نہیں۔

مسلم لیگ ن کی حکومت جو پاناما پیپرز کے مقدمے پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد پہلے ہی شدید دباؤ اور سیاسی بحران کا شکار نظر آتی ہے اس کے لیے سنیچر کو وزیر اعظم کی طرف سے ڈان لیکس کی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن سے سیاسی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

وزیر اعظم کےنوٹیفیکیشن، فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا ٹویٹر پر جاری ہونے والا بیان اور پھر وزیر داخلہ کی وضاحتی پریس کانفرنس نے نہ صرف فوج اور حکومت کے درمیان ڈان لیکس کے معاملے پر شدید اختلافات کو طشت از بام کر دیا ہے بلکہ اس تاثر کو بھی تقویت بخشی کہ ڈان لیکس کے پیچھے اصل عناصر وہ نہیں جنہیں حکومت بلی چڑھا رہی ہے۔

اس ساری صورت حال میں یہ بات اور واضح نظر آتی ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ملکی سکیورٹی سے متعلق انتہائی اہم اجلاس کی کارروائی کی خبر ڈان اخبار کے رپورٹ سرل المائڈہ کو لیک کرنے والے عناصر اتنے اہم ہیں جن کو بچانے کے لیے حکومت کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔

موجودہ صورت حال جس میں حکومت پاناما مقدمے کے فیصلے کے بعد شدید دباؤ میں ہے اور وزیر اعظم سے مستفعی ہونے کے مطالبوں کا شور شدت اختیار کرتا جا رہا ہے حکومت ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ پر پوری طرح عملدرآمد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت اپنے پانچ سالہ دور کے آخری سال میں کوئی ایسا کام کرنا چاہتی ہے جسے وہ آئندہ انتخابات میں عوام کے سامنے اپنے آپ کو ایک سیاسی شہید اور مظلوم بن کر پیش کر سکے۔ ڈان لیکس پر اگر صورت حال اتنی خراب ہو جاتی ہے کہ حکومت کی بساط کو لپیٹ دیا جاتا ہے تو آئندہ انتخابات میں اس کا فائدہ مسلم لیگ نواز اٹھا سکتی ہے۔ پاناما مقدمے کا فیصلہ سامنے آتے ہی نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف نے عوام سے رابطوں کا سلسلہ پہلے ہی تیز کر دیا ہے اور لگتا ہے کہ عوامی سکیموں کے لیے خزانے کا منہ کھول دیا ہے۔

اس سلسلہ میں سنیچر کو جنوبی پنجاب میں نواز شریف نے جلسۂ عام سے خطاب کیا اور جس میں ان سب منصوبوں کی فہرست گنوائی جو ان کے بقول آئندہ چند مہینوں میں مکمل ہو جائیں گے۔ جبکہ ان کے ناقدین کے خیال میں یہ منصوبے خاص طور پر بجلی پیدا کرنے کے منصوبے اس مدت میں مکمل ہوتے نظر نہیں آتے اور حکومت اس ناکامی کو اپوزیشن کے کندھوں پر یہ کہہ کر ڈالنا چاہتی ہے کہ انھیں کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

اس سارے سیاسی منظر نامے میں سب کی نظریں اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل پر لگی ہوئی ہیں جس کو بنانے کا حکم سپریم کورٹ نے پاناما مقدمے پر اپنے فیصلے میں دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی کو ایک ہفتے میں تشکیل دیا جانا تھا کہ ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی یہ کمیٹی تشکیل نہیں دی جا سکی ہے۔ سپریم کورٹ نے اسی فیصلے میں تحقیقاتی کمیٹی کو ساٹھ دن میں اپنے تحقیقات مکمل کرنے کا حکم بھی دیا تھا لیکن اس بارے میں عوامی اور سیاسی حلقوں میں شدید خداشات پائے جاتے ہیں۔

حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتیں جو نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہیں ان کو لگتا ہے کہ کامل یقین ہے کہ وزیر اعظم کی موجودگی میں منصافہ اور شفاف تحقیقات ہونا ممکن نہیں ہے۔

نواز شریف تین مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ وہ اپنی تیسری مدتِ اقتدار کے آخری سال میں ہیں اس کے علاوہ ان کے ذاتی اور سیاسی معاملات بھی اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں انہیں اہم سیاسی اور شاید تلخ فیصلے کرنے پڑیں گے۔ ایسے دورس فیصلے جن کا اثر نہ صرف ان کی اپنی ذات بلکہ ان کے بچوں، ان کے خاندان اور ان کی جماعت کے سیاسی مستقبل کا تعین بھی کریں گے۔ ایسے میں نواز شریف کے رفقائے خاص کی سعی یہی ہے کہ اس سیاسی بحران سے نواز شریف کی سیاسی وارث کو بچا لیا جائِے اور ان کا سیاسی دامن صاف رہے۔

(فراز ہاشمی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp