ملبے کا مالک (2)


دو دن چراغ کے گھر کی چھان بین ہوتی رہی تھی۔ جب اس کا سارا سامان لوٹا جا چکا، تو نہ جانے کس نے اس گھر کو آگ لگا دی تھی۔ رکھّے پہلوان نے تب قسم کھائی تھی کہ وہ آگ لگانے والے کو زندہ زمین میں گاڑ دے گا کیونکہ اس مکان پر نظر رکھ کر ہی اس نے چراغ کو مارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نے اس مکان کو پاک کرنے کے لیے ہَوَن کا سامان بھی لا رکھا تھا۔ مگر آگ لگانے والے کا پتا نہیں چل سکا، اسے زندہ گاڑنے کی نوبت تو بعد میں آتی۔ اب ساڑھے سات سال سے رکھّا اس ملبے کو اپنی جائداد سمجھتا آ رہا تھا۔ جہاں نہ وہ کسی کو گائے بھینس باندھنے دیتا تھا اور نہ ہی خوانچہ لگانے دیتا تھا۔ اس ملبے سے بنا اس کی اجازت کے کوئی ایک اینٹ بھی نہیں نکال سکتا تھا۔​

لوگ امید کر رہے تھے کہ یہ ساری کہانی ضرور کسی نہ کسی طرح غنی تک پہنچ جائے گی۔۔ جیسے ملبے کو دیکھ کر ہی اسے سارے واقعے کا پتا چل جائے گا۔ اور غنی ملبے کی مٹی کو ناخنوں سے کھود کھود کر اپنے اوپر ڈال رہا تھا اور دروازے کے چوکھٹ کو بانہہ میں لیے ہوئے رو رہا تھا، ‘بول، چراغ دینا، بول! تو کہاں چلا گیا، اوئے؟ او کشور! او سلطانہ! ہائے، میرے بچے اوئے! غنی کو پیچھے کیوں چھوڑ دیا، اوئے!’​

اور بھربھرے کواڑ سے لکڑی کے ریشے جھڑتے جا رہے تھے۔​

پیپل کے نیچے سوئے ہوئے رکھّے پہلوان کو جانے کسی نے جگا دیا، یا وہ خود ہی جاگ گیا۔ یہ جان کر کہ پاکستان سے عبد الغنی آیا ہے اور اپنے مکان کے ملبے پر بیٹھا ہے، اسے گلے میں تھوڑا جھاگ اٹھ آیا جس سے اسے کھانسی آ گئی اور اس نے کنوئیں کے فرش پر تھوک دیا۔ ملبے کی طرف دیکھ کر اس کی چھاتی سے دھونکنی کی سی آواز نکلی اور اس کا نچلا ہونٹ تھوڑا باہر کو پھیل آیا۔​

Amritsar, India, March 18, 1947.

​’غنی اپنے ملبے پر بیٹھا ہے،’ اس کے شاگرد لچھّے پہلوان نے اس کے پاس آ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔​

‘ملبہ اُس کا کیسے ہے؟ ملبہ ہمارا ہے!’ پہلوان نے جھاگ سے گھرگھرائی آواز میں کہا۔​

​’مگر وہ وہاں بیٹھا ہے،’ لچھے نے آنکھوں میں ایک پراسرار اشارہ لا کر کہا۔​

​بیٹھا ہے، بیٹھا رہے۔ تو چلم لا!’ رکھّے کی ٹانگیں تھوڑی پھیل گئیں اور اس نے اپنی ننگی رانوں پر ہاتھ پھیرا۔​

‘منوری نے اگر اسے کچھ بتا وتا دیا تو۔۔۔؟’ لچھے نے چلم بھرنے کے لیے اٹھتے ہوئے اسی پراسرار ڈھنگ سے کہا۔​

​’منوری کی کیا شامت آئی ہے؟’​

​لچھا چلا گیا۔​

​کنوئیں پر پیپل کی کئی پرانی پتیاں بکھری تھیں۔ رکھّا ان پتیوں کو اٹھا اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں مسلتا رہا۔ جب لچھے نے چلم کے نیچے کپڑا لگا کر چلم اس کے ہاتھ میں دی، تو اس نے کش کھینچتے ہوئے پوچھا، ‘اور تو کسی سے غنی کی بات نہیں ہوئی؟’​

​’نہیں۔’​

​’لے،’ اور اس نے کھانستے ہوئے چلم لچھے کے ہاتھ میں دے دی۔ لچھے نے دیکھا کہ منوری غنی کی بانہہ پکڑے ملبے کی طرف سے آ رہا ہے۔ وہ اکڑوں ہو کر چلم کے لمبے لمبے کش کھینچنے لگا۔ اس کی آنکھیں آدھے پل رکھّے کے چہرے پر ٹکتیں اور آدھے پل غنی کی طرف لگی رہتیں۔​

منوری غنی کی بانہہ تھامے اس سے ایک قدم آگے چل رہا تھا۔ جیسے اس کی کوشش ہو کہ غنی کنوئیں کے پاس سے بنا رکھّے کو دیکھے ہی نکل جائے۔ مگر رکھّا جس طرح بکھر کر بیٹھا تھا، اس سے غنی نے اسے دور سے ہی دیکھ لیا۔ کنوئیں کے پاس پہنچتے نہ پہنچتے اس کی دونوں بانہیں پھیل گئیں اور اس نے کہا، ‘رکھّے پہلوان!’​

​رکھّے نے گردن اٹھا کر اور آنکھیں ذرا چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔ اس کے گلے میں مبہم سی گھرگھراہٹ ہوئی، پر وہ بولا نہیں۔​

​’رکھّے پہلوان، مجھے پہچانا نہیں؟’ غنی نے بانہیں نیچی کر کے کہا، ‘میں غنی ہوں، عبد الغنی، چراغ دین کا باپ!’​

​پہلوان نے مشکوک نظر سے اس کا اوپر سے نیچے تک جائزہ لیا۔ عبد الغنی کی آنکھوں میں اسے دیکھ کر ایک چمک سی آ گئی تھی۔ سفید داڑھی کے نیچے اس کے چہرے کی جھریاں بھی کچھ پھیل گئی تھیں۔ رکھّے کا نچلا ہونٹ پھڑکا۔ پھر اس کی چھاتی سے بھاری سی آواز نکلی، سنا، غنیا!’​

​غنی کی بانہیں پھر پھیلنے کو ہوئیں، پر پہلوان پر کوئی ردِ عمل نہ دیکھ کر اسی طرح رہ گئیں۔ وہ پیپل کے تنے کا سہارا لے کر کنوئیں کی سِل پر بیٹھ گیا۔​

اوپر کھڑکیوں میں چہ مگوئیاں تیز ہو گئیں کہ اب دونوں آمنے سامنے آ گئے ہیں، تو بات ضرور کھلے گی۔۔ پھر ہو سکتا ہے دونوں میں گالی گلوچ بھی ہو۔ ۔۔ اب رکھّا غنی کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ اب وہ دن نہیں رہے۔۔۔ بڑا ملبے کا مالک بنتا تھا!۔۔ اصل میں ملبہ نہ اس کا ہے، نہ غنی کا۔ ملبہ تو سرکار کی ملکیت ہے! مردود کسی کو وہاں گائے کا کھونٹا تک نہیں لگانے دیتا!۔۔۔ منوری بھی ڈرپوک ہے۔ اِس نے غنی کو بتا کیوں نہیں دیا کہ رکھّے نے ہی چراغ اور اس کے بیوی بچوں کو مارا ہے!۔۔ رکھّا آدمی نہیں سانڈ ہے! دن بھر سانڈ کی طرح گلی میں گھومتا ہے!۔۔ غنی بے چارا کتنا دبلا ہو گیا! داڑھی کے سارے بال سفید ہو گئے ہیں!۔۔۔​

​غنی نے کنوئیں کی سِل پر بیٹھ کر کہا، ‘دیکھ رکھّے پہلوان، کیا سے کیا ہو گیا ہے! بھرا پورا گھر چھوڑ کر گیا تھا اور آج یہاں یہ مٹی دیکھنے آیا ہوں! بسے گھر کی آج یہی نشانی رہ گئی ہے! تو سچ پوچھے، تو میرا یہ مٹی بھی چھوڑ کر جانے کو جی نہیں کرتا!’ اور اس کی آنکھیں پھر چھلچھلا آئیں۔​

​پہلوان نے اپنی ٹانگیں سمیٹ لیں اور انگوچھا کنوئیں کی منڈیر سے اٹھا کر کندھے پر ڈال لیا۔ لچھے نے چلم اس کی طرف بڑھا دی۔ وہ کش کھینچنے لگا۔​

​’تُو بتا، رکھّے، یہ سب ہوا کس طرح؟’ غنی کسی طرح اپنے آنسو روک کر بولا، ‘تم لوگ اُس کے پاس تھے۔ سب میں بھائی بھائی کی سی محبت تھی۔ اگر وہ چاہتا، تو تم میں سے کسی کے گھر میں نہیں چھپ سکتا تھا؟ اُس میں اتنی بھی سمجھداری نہیں تھی؟’​

​’ایسا ہی ہے،’ رکھّے کو خود لگا کہ اس کی آواز میں ایک غیر فطری سی گونج ہے۔ اس کے ہونٹ گاڑھی رال سے چپک گئے تھے۔ مونچھوں کے نیچے سے پسینہ اس کے ہونٹ پر آ رہا تھا۔ اسے ماتھے پر کسی چیز کا دباؤ محسوس ہو رہا تھا اور اس کی ریڑھ کی ہڈی سہارا چاہ رہی تھی۔​

​’پاکستان میں تم لوگوں کے کیا حال ہیں؟’ اُس نے پوچھا۔ اُس کے گلے کی نسوں میں ایک تناؤ آ گیا تھا۔ اس نے انگوچھے سے بغلوں کا پسینہ پونچھا اور گلے کا جھاگ منہ میں کھینچ کر گلی میں تھوک دیا۔​

​’میں کیا حال بتاؤں، رکھّے،’ غنی دونوں ہاتھوں سے چھڑی پر بوجھ ڈال کر جھکتا ہوا بولا، ‘میرا حال تو میرا خدا ہی جانتا ہے۔ چراغ وہاں ساتھ ہوتا، تو اور بات تھی۔ ۔۔ میں نے اسے کتنا سمجھایا تھا کہ میرے ساتھ چلا چل۔ پر وہ ضد پر اڑا رہا کہ نیا مکان چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ یہ اپنی گلی ہے، یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بھولے کبوتر نے یہ نہیں سوچا کہ گلی میں خطرہ نہ ہو، پر باہر سے تو خطرہ آ سکتا ہے! مکان کی رکھوالی کے لیے چاروں نے اپنی جان دے دی!۔۔ رکھّے، اُسے تیرا بہت بھروسا تھا! کہتا تھا کہ رکھّے کے رہتے میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ مگر جب جان پر بن آئی، تو رکھّے کے روکے بھی نہ رکی۔’​

​رکھّے نے سیدھا ہونے کی کوشش کی کیونکہ اس کی ریڑھ کی ہڈی بہت درد کر رہی تھی۔ اپنی کمر اور رانوں کے جوڑ پر اسے سخت دباؤ محسوس ہو رہا تھا۔ پیٹ کی انتڑیوں کے پاس سے جیسے کوئی چیز اس کی سانس کو روک رہی تھی۔ اُس کا سارا جسم پسینے سے بھیگ گیا تھا اور اُس کے پیروں کے تلوؤں میں چنچناہٹ ہو رہی تھی۔ بیچ بیچ میں نیلی پھلجھڑیاں سی اوپر سے اترتیں اور تیرتی ہوئی اس کی آنکھوں کے سامنے سے نکل جاتیں۔ اسے اپنی زبان اور ہونٹوں کے بیچ ایک فاصلہ سا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے انگوچھے سے ہونٹوں کے کونوں کو صاف کیا۔ ساتھ ہی اس کے منہ سے نکلا، ‘ہے پربھو سچیا، تو ہی ہے، تو ہی ہے، توہی ہے!’​

​غنی نے دیکھا کہ پہلوان کے ہونٹ سوکھ رہے ہیں اور اس کی آنکھوں کے گرد دائرے گہرے ہو گئے ہیں۔ وہ اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا، ‘جی ہلکا نہ کر، رکھّیا! جو ہونی تھی، سو ہو گئی۔ اُسے اب کوئی لوٹا تھوڑے ہی سکتا ہے! خدا نیک کی نیکی بنائے رکھے اور بد کی بدی معاف کرے! میں نے آ کر تم لوگوں کو دیکھ لیا، سو سمجھوں گا کہ چراغ کو دیکھ لیا۔ اللہ تمہیں صحت مند رکھے! جیتے رہو اور خوشیاں دیکھو!’ اور وہ چھڑی کے سہارے اٹھ کھڑا ہوا۔ چلتے ہوئے اس نے کہا، ‘اچھا رکھّے پہلوان، یاد رکھنا!’​

​رکھّے کے گلے سے مدھم سی آواز نکلی۔ انگوچھا لیے ہوئے اُس کے دونوں ہاتھ جڑ گئے۔ غنی حسرت بھری نظر سے آس پاس دیکھتا ہوا دھیرے دھیرے گلی سے باہر چلا گیا۔​

​اوپر کھڑکیوں میں تھوڑی دیر چہ مگوئیاں چلتی رہیں کہ منوری نے گلی سے باہر نکل کر ضرور غنی کو سب کچھ بتا دیا ہوگا۔۔ غنی کے سامنے رکھّے کا تالو کس طرح خشک ہو گیا تھا!۔۔۔ رکھّا اب کس منہ سے لوگوں کو ملبے پر گائے باندھنے سے روکے گا؟ بے چاری زبیدہ! کتنی اچھی تھی وہ۔ کبھی کسی سے برا بول نہیں بولی۔۔ رکھّے مردود کا گھر، نہ گھاٹ، اِسے کس ماں بہن کا لحاظ تھا؟​

​تھوڑی دیر میں عورتیں گھروں سے گلی میں اتر آئیں۔ بچے گلی میں گلی ڈنڈا کھیلنے لگے اور دو بارہ تیرہ سال کی لڑکیاں کسی بات پر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئیں۔​

​رکھّا گہری شام تک کنوئیں پر بیٹھا کھنکھارتا اور چلم پھونکتا رہا۔ کئی لوگوں نے وہاں گذرتے ہوئے اس سے پوچھا، ‘رکھّے شاہ، سنا ہے آج غنی پاکستان سے آیا تھا؟’​

​’ہاں، آیا تھا،’ رکھّے نے ہر بار ایک ہی جواب دیا۔​

​’پھر؟’​

​’پھر کچھ نہیں۔ چلا گیا۔’​

​رات ہونے پر رکھّا روز کی طرح گلی کے باہر بائیں طرف کی دکان کے تختے پر آ بیٹھا۔ روز وہ راستے سے گذرنے والے متعارف لوگوں کو آواز دے دے کر پاس بلا لیتا تھا اور اُنہیں سٹے کے گر اور صحت کے نسخے بتاتا رہتا تھا۔ مگر اس دن وہ وہاں بیٹھا لچھّے کو اپنی ویشنو دیوی کی اُس یاترا کا احوال سناتا رہا جو اس نے پندرہ سال پہلے کی تھی۔ لچھے کو وداع کر کے وہ گلی میں آیا، تو ملبے کے پاس لَوکُو پنڈت کی بھینس کو دیکھ کر وہ عادت کے مطابق اسے دھکے دے دے کر ہٹانے لگا، ‘تت تت تت۔۔۔ تت تت!!’​

بھینس کو ہٹا کر وہ سستانے کے لیے ملبے کے چوکھٹ پر بیٹھ گیا۔ گلی اس وقت بالکل سنسان تھی۔ کمیٹی کی کوئی بتی نہ ہونے سے وہاں شام سے ہی اندھیرا ہو جاتا تھا۔ ملبے کے نیچے نالی کا پانی ہلکی آواز کرتا بہہ رہا تھا۔ رات کی خاموشی کو کاٹتی ہوئی کئی طرح کی ہلکی ہلکی آوازیں ملبے کی مٹی میں سے سنائی دے رہی تھیں۔ چیو چیو چیو۔۔۔ چک چک چک۔۔۔ کررر، رررر، ری ری ری ری ری، چِرررررر۔۔۔۔ ایک بھٹکا ہوا کوا نہ جانے کہاں سے اڑ کر اس چوکھٹ پر آ بیٹھا۔ اِس سے لکڑی کے کئی ریشے اِدھر اُدھر چھِترا گئے۔ کوے کے وہاں بیٹھتے نہ بیٹھتے ملبے کے ایک کونے میں لیٹا ہوا کتا غرا کر اٹھا اور زور زور سے بھونکنے لگا۔۔ وؤ، اؤ، وؤ! کوا کچھ دیر سہما سا چوکھٹ پر بیٹھا رہا، پھر پر پھڑپھڑاتا کنوئیں کے پیپل پر چلا گیا۔ کوے کے اڑ جانے پر کتا اور نیچے اتر آیا اور پہلوان کی طرف منہ کر کے بھونکنے لگا۔ پہلوان اسے ہٹانے کے لیے بھاری آواز میں بولا، ‘دُر دُر دُر۔۔ دُرے!’​

​مگر کتا اور پاس آ کر بھونکنے لگا۔ وؤ، اؤ، وؤ، وؤ، وؤ، وؤ۔۔!​

​پہلوان نے ایک ڈھیلا اٹھا کر کتے کی طرف پھینکا۔ کتا تھوڑا پیچھے ہٹ گیا، پر اس کا بھونکنا بند نہیں ہوا۔ پہلوان کتے کو ماں کی گالی دے کر وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور دھیرے دھیرے جا کر کنوئیں کی سِل پر لیٹ گیا۔ اس کے وہاں سے ہٹتے ہی کتا گلی میں اتر آیا اور کنوئیں کی طرف منہ کر کے بھونکنے لگا۔ کافی دیر بھونکنے کے بعد جب اسے گلی میں کوئی جاندار چلتا پھرتا نظر نہیں آیا، تو وہ ایک بار کان جھٹک کر ملبے پر لوٹ گیا اور وہاں کونے میں بیٹھ کر غرانے لگا۔​

​(ترجمہ: حسان خان)​

 ٭٭٭    ٭٭٭

موہن راکیش 8 جنوری 1925 کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ نئی ہندی کہانی کے بانیوں میں شمار ہوئے۔ ناول لکھے۔ ہندوستانی تھیٹر میں موہن راکیش کا ایک الگ مقام ہے۔ 3 جنوری 1972 کو دہلی میں وفات پائی۔

موہن راکیش کی ہندی کہانیوں کا مجموعہ “پارٹیشن کی دس کہانیاں” بہت مقبول ہوا۔ اس مجموعے کی ایک کہانی “ملبے کا مالک” کا تانا بانا لاہور اور امرتسر کی گلیوں سے بنا گیا۔ حسان خان کا ہندی سے یہ خوبصورت اردو ترجمہ ہم سب کے لکھاری مبشر اکرم کی ایک حالیہ تحریر “یہ کیا کر دیا جنرل صاحب؟” سے متاثر ہو کر مبشر اکرم کے دادا مرحوم محمد حنیف بٹ کی یاد سے منسوب کیا جاتا ہے۔

موہن راکیش
Latest posts by موہن راکیش (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).