ملبے کا مالک (1)


ساڑھے سات سال کے بعد وہ لوگ لاہور سے امرتسر آئے تھے۔ ہاکی کا میچ دیکھنے کا تو بہانہ تھا، انہیں زیادہ چاؤ ان گھروں اور بازاروں کو پھر سے دیکھنے کا تھا جو ساڑھے سات سال پہلے ان کے لیے پرائے ہو گئے تھے۔ ہر سڑک پر مسلمانوں کی کوئی نہ کوئی ٹولی گھومتی نظر آ جاتی تھی۔ ان کی آنکھیں اس انہماک کے ساتھ وہاں کی ہر چیز کو دیکھ رہی تھیں جیسے وہ شہر عام شہر نہ ہو کر ایک اچھا خاصا مرکزِ ثقل ہو۔​

تنگ بازاروں میں سے گزرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کو پرانی چیزوں کی یاد دلا رہے تھے۔۔۔ دیکھ۔۔ فتح دینا، مصری بازار میں اب مصری کی دکانیں پہلے سے کتنی کم رہ گئی ہیں! اُس نکڑ پر سُکھّی بھٹیارن کی بھٹی تھی، جہاں اب وہ پان والا بیٹھا ہے۔۔۔ یہ نمک منڈی دیکھ لو، خان صاحب! یہاں کی ایک ایک لالائن وہ نمکین ہوتی ہے کہ بس۔۔!​

بہت دنوں کے بعد بازاروں میں طرے دار پگڑیاں اور لال ترکی ٹوپیاں نظر آ رہی تھیں۔ لاہور سے آئے مسلمانوں میں کافی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جنہیں تقسیم کے وقت مجبور ہو کر امرتسر سے جانا پڑا تھا۔ ساڑھے سات سال میں آئی ناگزیر تبدیلیوں کو دیکھ کر کہیں ان کی آنکھوں میں حیرانی بھر جاتی اور کہیں افسوس گھِر آتا۔۔ واللہ! کٹرا جئے مل سنگھ اتنا چوڑا کیسے ہو گیا؟ کیا اس طرف کے سب کے سب مکان جل گئے؟۔۔۔ یہاں حکیم آصف علی کی دکان تھی نا؟ اب یہاں ایک موچی نے قبضہ کر رکھا ہے۔​

اور کہیں کہیں ایسے بھی جملے سنائی دے جاتے۔۔ ولی، یہ مسجد جوں کی توں کھڑی ہے؟ ان لوگوں نے اسکا گوردوارا نہیں بنا دیا؟​

جس راستے سے بھی پاکستانیوں کی ٹولی گذرتی، شہر کے لوگ تجسس سے اُس طرف دیکھتے رہتے۔ کچھ لوگ اب بھی مسلمانوں کو آتے دیکھ کر خوف زدہ سے راستے سے ہٹ جاتے، جبکہ دوسرے آگے بڑھ کر ان سے بغل گیر ہونے لگتے۔ زیادہ تر وہ آنے والوں سے ایسے ایسے سوال پوچھتے کہ آج کل لاہور کا کیا حال ہے؟ انارکلی میں اب پہلے جتنی رونق ہوتی ہے یا نہیں؟ سنا ہے، شاہالمی گیٹ کا بازار پورا نیا بنا ہےِ؟ کرشن نگر میں تو کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی؟ وہاں کا رشوت پورہ کیا واقعی رشوت کے پیسے سے بنا ہے؟ کہتے ہیں، پاکستان میں اب اب برقع بالکل اڑ گیا ہے، یہ ٹھیک ہے؟۔۔۔ ان سوالوں میں اتنی اپنائیت جھلکتی تھی کہ لگتا تھا، لاہور ایک شہر نہیں، ہزاروں لوگوں کا سگا رشتے دار ہے، جس کے حال جاننے کے لیے وہ متجسس ہیں۔ لاہور سے آئے لوگ اُس دن شہر بھر کے مہمان تھے جن سے مل کر اور باتیں کر کے لوگوں کو خواہ مخواہ خوشی کا احساس ہوتا تھا۔​

بازار بانساں امرتسر کا ایک اجڑا سا بازار ہے، جہاں تقسیم سے پہلے زیادہ تر نچلے طبقے کے مسلمان رہتے تھے۔ وہاں زیادہ تر بانسوں اور شہتیروں کی ہی دکانیں تھیں جو سب کی سب ایک ہی آگ میں جل گئی تھیں۔ بازار بانساں کی وہ آگ امرتسر کی سب سے بھیانک آگ تھی جس سے کچھ دیر کے لیے تو سارے شہر کے جل جانے کا اندیشہ پیدا ہو گیا تھا۔ بازار بانساں کے آس پاس کے کئی محلوں کو تو اُس آگ نے اپنی لپیٹ میں لے ہی لیا تھا۔ خیر، کسی طرح وہ آگ قابو میں آ گئی تھی، پر اُس میں مسلمانوں کے ایک ایک گھر کے ساتھ ہندوؤں کے بھی چار چار، چھ چھ گھر جل کر راکھ ہو گئے تھے۔ اب ساڑھے سات سال میں اُن میں سے کئی عمارتیں پھر سے کھڑی ہو گئی تھیں، مگر جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر اب بھی موجود تھے۔ نئی عمارتوں کے بیچ بیچ وہ ملبے کے ڈھیر ایک عجیب ماحول پیش کرتے تھے۔​

بازار بانساں میں اُس دن بھی چہل پہل نہیں تھی کیونکہ اُس بازار کے زیادہ تر باشندے تو اپنے مکانوں کے ساتھ ہی شہید ہو گئے تھے، اور جو بچ کر چلے گئے تھے، اُن میں سے شاید کسی میں بھی لوٹ کر آنے کی ہمت باقی نہیں رہی تھی۔ صرف ایک دبلا پتلا بڈھا مسلمان ہی اُس دن اُس ویران بازار میں آیا اور وہاں کی نئی اور جلی ہوئی عمارتوں کو دیکھ کر جیسے بھول بھلیاں میں پڑ گیا۔ بائیں ہاتھ کو جانے والی گلی کے پاس پہنچ کر اس کے پیر اندر مڑنے کو ہوئے، مگر پھر وہ ہچکچا کر وہاں باہر ہی کھڑا رہ گیا۔ جیسے اسے یقین نہیں ہوا کہ یہ وہی گلی ہے یا نہیں، جس میں وہ جانا چاہتا ہے۔ گلی میں ایک طرف کچھ بچے کیڑا کیڑا کھیل رہے تھے اور کچھ فاصلے پر دو عورتیں اونچی آواز میں چیختی ہوئی ایک دوسرے کو گالیاں دے رہی تھیں۔​

‘سب کچھ بدل گیا، مگر بولیاں نہیں بدلیں۔’ بڈھے مسلمان نے دھیمی آواز میں اپنے سے کہا اور چھڑی کا سہارا لیے کھڑا رہا۔ اُس کے گھٹنے پاجامے سے باہر کو نکل رہے تھے۔ گھٹنوں سے تھوڑا اوپر شیروانی میں تین چار پیوند لگے تھے۔ گلی سے ایک بچہ روتا ہوا باہر آ رہا تھا۔ اُس نے اسے پچکار کر پکارا، ‘اِدھر آ، بیٹے، آ اِدھر! دیکھ، تجھے چِجّی دیں گے، آ!’ اور اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر اسے دینے کے لیے کوئی چیز ڈھونڈنے لگا۔ بچہ پل بھر کے لیے چپ کر گیا، لیکن پھر اس نے ہونٹ بسور لیے اور رونے لگا۔ ایک سولہ سترہ برس کی لڑکی گلی کے اندر سے دوڑتی ہوئی آئی اور بچے کی بانہہ پکڑ کر اُسے گھسیٹتی ہوئی گلی میں لے چلی۔ بچہ رونے کے ساتھ ساتھ اب اپنی بانہہ چھڑانے کے لیے مچلنے لگا۔ لڑکی نے اسے بانہوں میں اٹھا کر اپنے ساتھ چپکا لیا اور اس کا منہ چومتی ہوئی بولی، ‘چپ کر، میرا ویر! روئے گا تو تجھے وہ مسلمان پکڑ کر لے جائے گا، میں واری جاؤں، چپ کر!’​

​بڈھے مسلمان نے بچے کو دینے کے لیے جو پیسا نکالا تھا، وہ واپس جیب میں رکھ لیا۔ سر سے ٹوپی اتار کر اس نے وہاں تھوڑا کھجایا اور ٹوپی بغل میں دبا لی۔ اس کا گلا خشک ہو رہا تھا اور گھٹنے ذرا ذرا کانپ رہے تھے۔ اس نے گلی کے باہر کی بند دکان کے تختے کا سہارا لے لیا اور ٹوپی پھر سے سر پر لگا لی۔ گلی کے سامنے، جہاں پہلے اونچے اونچے شہتیر رکھے رہتے تھے، وہاں اب ایک تین منزلہ مکان کھڑا تھا۔ سامنے بجلی کے تار پر دو موٹی موٹی چیلیں بالکل بے حرکت ہو کر بیٹھی تھیں۔ بجلی کے کھمبے کے پاس تھوڑی دھوپ تھی۔ وہ کئی پل دھوپ میں اڑتے ہوئے ذروں کو دیکھتا رہا۔ پھر اس کے منہ سے نکلا، ‘یا مالک!’​

ایک نوجوان چابیوں کا گچھا گھماتا ہوا گلی کی جانب آیا اور بڈھے کو کھڑے دیکھ کر اس نے رک کر پوچھا، ‘کہیے، میاں جی، یہاں کس لیے کھڑے ہیں؟’​

بڈھے مسلمان کی چھاتی اور بانہوں میں ہلکی سی کپکپی ہوئی اور اس نے ہونٹوں پر زبان پھیر کر نوجوان کو دھیان سے دیکھتے ہوئے پوچھا، ‘بیٹے، تیرا نام منوری ہے نا؟’​

نوجوان نے چابیوں کا گچھا ہلانا بند کر کے مٹھی میں لے لیا اور تعجب کے ساتھ پوچھا، ‘آپ کو میرا نام کیسے پتا ہے؟’​

​’ساڑھے سات سال پہلے تُو بیٹے، اتنا سا تھا’، کہہ کر بڈھے نے مسکرانے کی کوشش کی۔​

‘آپ آج پاکستان سے آئے ہیں؟’ منوری نے پوچھا۔​

‘ہاں، مگر پہلے ہم اسی گلی میں رہتے تھے’، بڈھے نے کہا، ‘میرا لڑکا چراغ دین تم لوگوں کا درزی تھا۔ تقسیم سے چھ مہینے پہلے ہم لوگوں نے یہاں اپنا نیا مکان بنایا تھا۔’​

‘او، غنی میاں!’ منوری نے پہچان کر کہا۔​

​’ہاں، بیٹے، میں تم لوگوں کا غنی میاں ہوں۔ چراغ اور اس کے بیوی بچے تو نہیں مل سکتے، مگر میں نے کہا کہ ایک بار مکان کی صورت ہی دیکھ لوں!’ اور اس نے ٹوپی اتار کر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے آنسوؤں کو بہنے سے روک لیا۔​

‘آپ تو شاید کافی پہلے ہی یہاں سے چلے گئے تھے،’ منوری نے آواز میں ہمدردی لا کر کہا۔​

‘ہاں، بیٹے، یہ میری بدبختی تھی کہ پہلے اکیلا نکل کر چلا گیا۔ یہاں رہتا، تو ان کے ساتھ میں بھی۔۔۔’ اور کہتے کہتے اُسے احساس ہو آیا کہ اُسے ایسی بات نہیں کہنی چاہیے۔ اُس نے بات منہ میں روک لی، مگر آنکھ میں آئے ہوئے آنسوؤں کو بہہ جانے دیا۔​

​’چھوڑو غنی میاں، اب بیتی باتوں کو سوچنے میں کیا رکھا ہے؟’ منوری نے غنی کی بانہہ پکڑ کر کہا، ‘چلو، تمہیں تمہارا گھر دکھا دوں۔’​

​گلی میں خبر اس روپ میں پھیلی تھی کہ گلی کے باہر ایک مسلمان کھڑا ہے، جو رام داسی کے لڑکے کو اٹھانے جا رہا تھا۔۔۔ اس کی بہن اسے پکڑ کر گھسیٹ لائی، نہیں تو مسلمان اسے لے گیا ہوتا۔ یہ خبر پاتے ہی جو عورتیں گلی میں پیچھے پیڑھے بچھا کر بیٹھی تھیں، وہ اپنے اپنے پیڑھے اٹھا کرگھروں کے اندر چلی گئیں۔ گلی میں کھیلتے ہوئے بچوں کو بھی ان عورتوں نے پکار پکار کر گھروں میں بلا لیا۔ منوری جب غنی کو لے کر گلی میں آیا، تو گلی میں ایک پھیری والا رہ گیا تھا، یا رکھّا پہلوان جو کنوئیں پر اُگے پیپل کے نیچے بکھر کر سویا تھا۔ ہاں، گھروں کی کھڑکیوں میں سے اور کواڑوں کے پیچھے سے کئی چہرے گلی میں جھانک رہے تھے۔ منوری کے ساتھ غنی کو آتے دیکھ کر ان میں ہلکی ہلکی چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ داڑھی کے سب بال سفید ہو جانے کے باوجود چراغ دین کے باپ عبد الغنی کو پہچاننے میں لوگوں کو دقت نہیں ہوئی۔​

​’وہ تھا تمہارا مکان،’ منوری نے دور سے ایک ملبے کی طرف اشارہ کیا۔ غنی پل بھر ٹھٹک کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس طرف دیکھتا رہا۔ چراغ اور اس کے بیوی بچوں کی موت کو وہ کافی پہلے قبول کر چکا تھا۔ مگر اپنے نئے مکان کو اس شکل میں دیکھ کر اسے جو جھرجھری ہوئی، اس کے لیے وہ تیار نہیں تھا۔ اس کی زبان پہلے سے اور خشک ہو گئی اور گھٹنے بھی زیادہ کانپنے لگے۔​

​’وہ ملبہ؟’ اس نے بے یقینی کے ساتھ پوچھ لیا۔​

​منوری نے اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ کو دیکھا۔ اس کی بانہہ کو تھوڑا اور سہارا دے کر ٹھہری ہوئی آواز میں جواب دیا، ‘تمہارا مکان اُنہیں دنوں جل گیا تھا۔’​

​غنی چھڑی کے سہارے چلتا ہوا کسی طرح ملبے کے پاس پہنچ گیا۔ ملبے میں اب مٹی ہی مٹی تھی جس میں جہاں تہاں ٹوٹی اور جلی ہوئی اینٹیں باہر جھانک رہی تھیں۔ لوہے اور لکڑی کا سامان اس میں سے کب کا نکالا جا چکا تھا۔ صرف ایک جلے ہوئے دروازے کا چوکھٹ نہ جانے کیسے بچا رہ گیا تھا۔ پیچھے کی طرف دو جلی ہوئی الماریاں تھیں جن کی کالک پر اب سفیدی کی ہلکی ہلکی تہہ ابھر آئی تھی۔ اس ملبے کو پاس سے دیکھ کر غنی نے کہا، ‘یہ باقی رہ گیا ہے، یہ؟’ اور اس کے گھٹنے جیسے جواب دے گئے اور وہ وہیں جلے ہوئے چوکھٹ کو پکڑ کر بیٹھ گیا۔ پل بھر بعد اس کا سر بھی چوکھٹ سے جا لگا اور اس کے منہ سے بلکنے کی سی آواز نکلی، ‘ہائے اوئے چراغ دینا!’​

جلے ہوئے کواڑ کا وہ چوکھٹ ملبے میں سے سر نکالے ساڑھے سات سال کھڑا تو رہا تھا، پر اس کی لکڑی بری طرح بھربھرا گئی تھی۔ غنی کے سر کے چھونے سے اس کے کئی ریشے جھڑک کر آس پاس بکھر گئے۔ کچھ ریشے غنی کی ٹوپی اور بالوں پر آ گرے۔ ان ریشوں کے ساتھ ایک کینچوا بھی نیچے گرا جو غنی کے پیر سے چھ آٹھ انچ دور نالی کے ساتھ ساتھ بنی اینٹوں کی پٹری پر اِدھر اُدھر سرسرانے لگا۔ وہ چھپنے کے لیے سوراخ ڈھونڈتا ہوا ذرا سا سر اٹھاتا، پر کوئی جگہ نہ پا کر دو ایک بار سر پٹکنے کے بعد دوسری طرف مڑ جاتا۔​

کھڑکیوں سے جھانکنے والے چہروں کی تعداد اب پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی تھی۔ ان میں چہ مگوئیاں چل رہی تھیں کہ آج کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔۔۔ چراغ دین کا باپ غنی آ گیا ہے، اس لیے ساڑھے سات سات پہلے کا وہ سارا واقعہ آج اپنے آپ کھل جائے گا۔ لوگوں کو لگ رہا تھا جیسے وہ ملبہ ہی غنی کو ساری کہانی سنا دے گا کہ شام کے وقت چراغ اوپر کے کمرے میں کھانا کھا رہا تھا جب رکھّے پہلوان نے اسے نیچے بلایا۔ کہا کہ وہ ایک منٹ آ کر اس کی بات سن لے۔ پہلوان ان دنوں گلی کا بادشاہ تھا۔ وہاں کے ہندوؤں پر ہی اس کا کافی دبدبہ تھا، چراغ تو خیر مسلمان تھا۔ چراغ ہاتھ کا لقمہ بیچ میں ہی چھوڑ کر نیچے اتر آیا۔ اس کی بیوی زبیدہ اور دونوں لڑکیاں، کشور اور سلطانہ، کھڑکیوں سے نیچے جھانکنے لگیں۔ چراغ نے ڈیوڑھی سے باہر قدم رکھا ہی تھا کہ پہلوان نے اسے قمیض کے کالر سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا اور گلی میں گرا کر اس کی چھاتی پر چڑھ بیٹھا۔ چراغ اس کا چھرے والا ہاتھ پکڑ کر چلایا، ‘نا، رکھّے پہلوان، مجھے مت مار! ہائے، کوئی مجھے بچاؤ! زبیدہ! مجھے بچا!’ اور اوپر سے زبیدہ، کشور اور سلطانہ بھی مایوس آواز میں چلائیں اور چیختی ہوئی نیچے ڈیوڑھی کی طرف دوڑیں۔ رکھّے کے ایک شاگرد نے چراغ کی جدوجہد کرتی بانہیں پکڑ لیں اور رکھّا اس کی رانوں کو اپنے گھٹنوں سے دبائے ہوئے بولا، ‘چیختا کیوں ہے، بھیَن کے۔۔۔ تجھ میں پاکستان دے رہا ہوں، لے پاکستان!’ اور جب تک زبیدہ، کشور اور سلطانہ نیچے پہنچتیں، چراغ کو پاکستان مل چکا تھا۔​

آس پاس کے گھروں کی کھڑکیاں تب بند ہو گئی تھیں۔ جو لوگ اس منظر کے گواہ تھے، انہوں نے دروازے بند کر کے اپنے کو اس واقعے کی جوابدہی سے آزاد کر لیا تھا۔ بند کواڑوں میں بھی انہیں دیر تک زبیدہ، کشور اور سلطانہ کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ رکھّے پہلوان اور اس کے ساتھیوں نے انہیں بھی اسی رات پاکستان دے کر وداع کر دیا، مگر دوسرے طویل راستے سے۔ ان کی لاشیں چراغ کے گھر میں نہیں مل سکیں۔ بعد میں نہر کے پانی میں پائی گئیں۔​

(جاری ہے)

***    ***

موہن راکیش 8 جنوری 1925 کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ نئی ہندی کہانی کے بانیوں میں شمار ہوئے۔ ناول لکھے۔ ہندوستانی تھیٹر میں موہن راکیش کا ایک منفرد مقام ہے۔ 3 جنوری 1972 کو دہلی میں وفات پائی۔

موہن راکیش کی ہندی کہانیوں کا مجموعہ “پارٹیشن کی دس کہانیاں” بہت مقبول ہوا۔ اس مجموعے کی ایک کہانی “ملبے کا مالک” کا تانا بانا لاہور اور امرتسر کی گلیوں سے بنا گیا۔ حسان خان کا ہندی سے یہ خوبصورت اردو ترجمہ ہم سب کے لکھاری مبشر اکرم کی ایک حالیہ تحریر “یہ کیا کر دیا جنرل صاحب؟” سے متاثر ہو کر مبشر اکرم کے دادا مرحوم محمد حنیف بٹ کی یاد سے منسوب کیا جاتا ہے۔

موہن راکیش
Latest posts by موہن راکیش (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).