ٹویٹ نے کس کس کا نقصان کیا؟


فیس بک اور سوشل میڈیا نے جہاں اور کئی بیماریاں ہمارے معاشرہ میں پیدا کر دیں وہیں گھروں کے اندر کی لڑائیوں کو دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ میں نے کئی مرتبہ مختلف گھرانوں کے بچوں کو ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے فیس بک پر آپس میں لڑتے دیکھا۔ ہو سکتا ہے وہ ایک ہی جگہ بیٹھے ہوں لیکن بات چیت کے لیے فیس بک، ٹیوٹر ، وٹس ایپ وغیرہ کو استعمال کر رہے ہیں اور اختلاف کی صورت میں جھگڑا بھی سوشل میڈیا پر ہی کیا جا رہا ہے۔ بھئی اگر جھگڑے کی بات ہے تو موبائل اور لیب ٹاپ ایک طرف رکھ کر آمنے سامنے ہی اپنے اختلافات پر بات کر کے مسئلہ حل کر لو۔ لڑائی جب سوشل میڈیا کے ذریعے ساری دنیا کے سامنے لڑی جائے گی تو پھر اختلافات میں کمی نہیں بلکہ اضافہ کا ہی خطرہ ہو گا کیوں کہ اس ماحول میں لگائی بجھائی اور تیل چھڑکنے والے اختلافات کو ہوا دیتے ہیں۔جب ایسی لڑائیاں یا اختلافات ریاستی اداروں کی طرف سے سوشل میڈیا کے ذریعے لڑی جائیں گی تو نقصان ریاست کا ہوتا ہے اور فائدہ صرف دشمن قوتیں اٹھاتی ہیں۔ ویسے یہ پاکستان کا ہی کمال ہے کہ یہاں فوجی ترجمان کی طرف سے وزیر اعظم کے حکم نامہ پر اعتراض اور اُس حکم نامہ کو مسترد کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈان لیک کمیشن رپورٹ کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے وزیر اعظم کے حکم نامہ پر فوجی قیادت کو اعتراض تھا تو بہتر یہ ہوتا کہ وہ دو سطریں جو ٹویٹ کی گئیں انہی کو موبائل پیغام (SMS message) کے ذریعے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری، ملٹری سیکریٹری یا پرنسل اسٹاف افسر کو وزیر اعظم کی اطلاع کے لیے بجھوا دیتے تو معاملہ خرابی سے بچ جاتا۔ ایسی صورت میں دونوں اطراف اچھے طریقے سے بات چیت کر کے مسئلہ کو خوش اسلوبی سے حل کر سکتے تھے۔ لیکن فوجی ترجمان کے ٹویٹ نے معاملہ کو بہت خراب کر دیا۔ ٹویٹ کے الفاظ بھی بہت نامناسب اورسخت تھے اور اس انداز میں وزیر اعظم کے حکم نامہ کو مسترد کیا گیا جس سے نہ صرف فوج اور سول کے درمیان اختلاف کو واضح کیا گیا بلکہ وزیر اعظم کے لیے شرمندگی کی صورتحال پیدا کی گئی۔ میری ذاتی رائے میں اس ٹویٹ نے سب سے زیادہ نقصان فوج کی ہی ساکھ کو پہنچایا۔ ان حالات نے جہاں ملک کے اندر پریشانی کی صورت حال پیدا کر دی وہیں انٹرنیشنل میڈیا اور خصوصا پاکستان کے دشمن ہندوستان کو خوب موقع فراہم کیا کہ پاکستان کی حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے اور یہ کہا جائے پاک فوج تو وزیر اعظم تک کی نہیں سنتی۔ آئی ایس پی آر کے ٹویٹ جہاں ایک طرف سول حکومت اور وزیر اعظم نواز شریف کے لیے embarrassment کا باعث بنا وہیں اس سے فوج کو بلاوجہ ایک ایسے تنازعہ میں گھسیٹ دیا گیا جس کی نہ ضرورت تھی اور نہ ہی یہ ملک و قوم اور فوج کے اپنے مفاد میں ہے۔ اس ٹویٹ پر سوشل میڈیا میں اپنے تبصروں میں پاکستان کے میڈیا سے تعلق رکھنے والے اکثر صحافیوں نے عمومی طور پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ پاکستان کو جس طرح کے اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے اُس کے لیے ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے مل کر لڑنا ہو گا۔ فوجی ترجمان کے ٹویٹ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے اگرچہ سول اور فوجی قیادت کے درمیان دوریاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ساتھ آرمی چیف حالات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ دونوں آپس میں مل بیٹھ کر بند کمرہ میں ایک دوسرے سے کھل کر اپنی اپنی شکایات اور ناراضگی کا اظہار کریں، دل کا غبار نکالیں لیکن جب علیحدہ ہوں تو اس فیصلے کے ساتھ کہ آئندہ ایسے اختلافات کو ٹویٹ کی بجائے آمنے سامنے بیٹھ کر حل کیا جائے گا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جنرل قمر باجوہ فوجی ترجمان کو متنازعہ ٹویٹ کو واپس لینے کا حکم دے کر ایک ایسی مثال قائم کریں جو نہ صرف آئینی اور جمہوری نظام کی مضبوطی کا موجب بنے گا بلکہ اس سے فوج اور سول قیادت کے درمیان ایک غیر ضروری تنازعہ کا خاتمہ ہو گا جو پاکستان کے وسیع تر مفاد کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ایک ایسا اقدام جو ناموزوں اور نامناسب تھا، اُسے واپس لینا ایک اچھا عمل ہو گا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).