کوئٹہ پہلی دفعہ تو نہیں ہارا


 \"raziکرکٹ سے ہماری دلچسپی اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب تک اس کھیل میں جوا اوراسلام رائج نہیں ہوئے تھے، ہم کرکٹ میچوں میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ پھریوں ہوا کہ ہمارے کچھ سپرسٹارز تبلیغی جماعت کا حصہ بنے اور گراﺅنڈ میں نیٹ پریکٹس کی بجائے باجماعت نماز کی تصاویر بنوائی جانے لگیں۔ ٹیم میں موجود غیرمسلم کھلاڑیوں کو دائرہ اسلام میں لانے کی سعی شروع ہوئی اور کرکٹ مہارت کی بجائے دعاﺅں کے بل بوتے پر کھیلی جانے لگی۔ اس دوران جوئے کے بہت سے کیس منظرعام پرآئے۔ سرکردہ کھلاڑیوں پر الزامات لگے۔ میچ فکسنگ اور سپاٹ فکسنگ جیسی کہانیاں میڈیا کی زینت بنیں۔ کچھ کھلاڑیوں پر تاحیات پابندی بھی لگی۔ اور کچھ کھلاڑی اپنی سزائیں پوری کرنے کے بعد دوبارہ ٹیم کاحصہ بن گئے۔ میچ شروع ہونے سے پہلے ہی سٹے بازوں کو معلوم ہوتا تھا کہ کون کس گیند پر آﺅٹ ہوگا اورکون جارحانہ انداز میں ٹیم کو کامیابی سے ہمکنارکرے گا؟ اورتو اور عالمی مقابلوں میں بھی بھاﺅ تاﺅ کارجحان بڑھا اور سیمی فائنل اور فائنل میں عوام کی دلچسپی برقراررکھنے کے لئے ٹیموں کے مقدر کافیصلہ ہونے لگا۔ اسی دوران لاہور میں سری لنکا کی ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تو گویا پاکستان سے کرکٹ کاجنازہ ہی نکل گیا۔

پاکستان 80اور90 کے عشروں میں عالمی کرکٹ کامرکز ہوا کرتا تھا اور یہاں کرکٹ سٹیڈیم عوام سے کھچاکھچ بھرے ہوتے تھے اس واقعہ کے بعد ہم کرکٹ میں بھی عالمی تنہائی کا شکارہوگئے۔ پھریہاں کرکٹ سٹیڈیم صرف جلسوں اور جنازوں کے لئے استعمال کیے جانے لگے۔ ایسے میں کرکٹ میچ دیکھنا وقت کے ضیاع کے سوا کچھ بھی نہ رہا۔ کرکٹ کے دیگر عالمی مقابلوں کی طرح پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل) کے مقابلوں سے بھی ہم لاتعلق رہے۔ گزشتہ روز معلوم ہوا کہ دبئی میں ہونے والے اس کرکٹ میلے کے فائنل میں اسلام آباد یونائیٹڈ اور کوئٹہ گلیڈیٹرز مدمقابل ہیں۔ دفتروں، بازاروں اوردیگر مقامات پر لوگ ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھ کر دلچسپی کے ساتھ میچ دیکھ رہے تھے لیکن ہم نے پھربھی اس پرتوجہ نہ دی۔ رات ایک بجے کے قریب کسی نے خبر دی کہ فائنل میں اسلام آبادنے کوئٹہ کو ہرادیا ہے۔

کرکٹ کے شائقین کے لیے تو شاید یہ اہم خبر ہو لیکن اسلام آباد کے ہاتھوں کوئٹہ کی شکست ہمارے لیے ایک معمول کی خبر تھی۔ صحافت اور تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے ہم نے گزشتہ 68 برسوں کے دوران کوئٹہ کو اسلام آباد کے ہاتھوں ہارتے ہی دیکھا۔ اگر اسلام آباد کو جڑواں شہر سمجھتے ہوئے راولپنڈی کو بھی اس کا حصہ سمجھ لیا جائے تو بات سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوجاتی ہے۔ ان  68 برسوں کے دوران وہاں بارہا باغیوں کو کچلا گیا۔ من پسند سرداروں کو تھپکی دی گئی۔ پہلے ان کی مرضی سے ان کے مخالفوں کو مروایا گیا اورپھر خود انہیں بھی نشانہ بنا دیا گیا۔ باغیوں کو پھانسیاں دی گئیں اورعام لوگوں پر زندگیاں تنگ کردی گئیں۔ وہ جو کبھی اسلام آباد کے چہیتے اور ہم نوا تھے اسلام آباد کے ہاتھوں زندگیاں بھی ہار گئے۔ پھر دہشت کا کھیل شروع ہوا۔ شیعہ سنی فسادات ہوئے۔ نسل کشی کاآغاز ہوا۔ زندگیاں ہارنے والوں کے ورثا اسلام آباد کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کئی روز تک لاشیں سڑکوں پر لے کر بیٹھے رہے۔ اس دوران لاپتہ افراد کا کھیل بھی جاری رہا۔ کوئٹہ کے ڈومیسائل پر منصف اعلیٰ کا منصب حاصل کرنے والے افتخار چوہدری نے دعوی کیا کہ لاپتہ افراد کو ضرور بازیاب کرایا جائے گا۔ لیکن اسلام آباد میں بیٹھے منصف اعلیٰ کوئٹہ کی دادرسی نہ کرسکے۔

کارکنوں کی گمشدگی کا عمل اب بھی جاری ہے اور گم ہونے والوں میں صرف نوجوان ہی نہیں ان کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔ ایسے میں اگر کرکٹ کے میدان میں بھی اسلام آباد نے کوئٹہ کو ہرا دیا ہے تو اس پر حیران ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نہ اپنی ہار نئی ہے نہ ان کی جیت نئی۔ کوئٹہ کی شکست کا سلسلہ عشروں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اوراس وقت تک جاری رہے گا جب تک اسلام آ باد، کوئٹہ کو اپنا نہیں سمجھتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments