شام میں عالمی سانڈوں کے مظالم اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال


انبیا کی سرزمیں شام میں سولہ سال سے ان کی حکومت ہے اور دنیا انہیں بشارالاسد کے نام سے جانتی ہے۔ اقتدار کی ہوس ان کی رگ وجاں میں اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ بس ہونے کا نام نہیں لیتی۔ جب تک ان کے وجود کا چھ فٹ منارہ زمیں بوس نہیں ہوتا یہ اقتدار سے چمٹے رہیں گے خواہ لاکھوں بے گناہ شامیوں کی زندگیاں داؤ پر کیوں نہ لگ جائیں۔ اگرچہ ایک طرف انہیں اپنے باپ حافظ الاسد سے اقتدار ورثے میں ملا ہے تو دوسری طرف ان کی سفاکیت بھی انہوں نے خوب کیش کر لی ہیں۔ اپنی استعمراری آمریت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو گولی سے دبانے کی جابرانہ روش نے بشارالاسد حکومت کے خلاف بے شمار محاذ کھولنے کی راہیں ہموار کیں اور پھر میدان کار زار سجنے کے بعد تاک میں بیٹھی عالمی قوتوں کے ہرکاروں کو ایک سنہری موقع ملا، جس کی سزا چھ برس بیت جانے کے بعد بھی مظلوم شامی بھگت رہے ہیں۔ ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ ہلاکتوں اور ساٹھ لاکھ مکینوں کے بے گھر ہونے کے باوجود آگ و خوں کا کھیل اب تک جاری وساری ہے۔

اسد افواج کے علاوہ داعش، حزب اللہ، روس، امریکہ اور عرب ملکوں کے پراکسیز جیسی عالمی طاقتیں اس آگ میں اپنے تئیں حصہ ڈال رہی ہیں۔ بشار الاسد کے مظالم سے قطع نظر، عالمی امن کا ڈھنڈورا پیٹنے والے خصوصاً امریکہ اور اس کے حواریوںنے شام میں جس منافقانہ انداز میں اس آگ پر جلتی کا کام کیا، اپنی مثال آپ ہے۔ مظلوم شامی باشندوں کو گولیوں اور بموں سے سزائیں دینے کے بعد اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سیرن ( Sarin) نامی مہلک ترین کیمیائی گیس کوبھی بطور ہتھیار آخری آپشن کے طور پر آزمایا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ چاربرس قبل 2013 اگست کے مہینے میں شام کے مشرقی علاقے غوطہ میں اس زہریلی گیس کا استعمال کیا گیا جس سے ایک اندازے کے مطابق سترہ سو کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔ یہی انسان سوز عمل گزشتہ ہفتے شام کے ادلب صوبے کے علاقے خان شیخون میں ایک مرتبہ پھر دہرایا گیا جس کے استعمال سے 80 افراد بشمول پھول جیسے بچے ہلاک جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ اگرچہ مذکورہ مہلک کیمیائی ہتھیار کے استعمال کا الزام امریکہ براہ راست اسد حکومت پر لگا رہا ہے لیکن ابھی تک اس کے ٹھوس شواہد سامنے نہیں لائے گئے ہیں۔ چونکہ اس خطے میں مزید جنگ کو ہوا دینے کے لئے امریکہ کی منافقانہ روش آئے روز عیاں ہو رہی ہے یوں بعض ذرائع کے مطابق اس مہلک کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے پیچھے بھی خود امریکہ کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔

شام میں گلوبل ویلج سپیس GVS نامی میڈیا میں بطور ایڈیٹر انچیف کام کرنے والی صحافی مریم الحجاب بھی اپنے تازہ آرٹیکل میں ان زہریلے ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں امریکی منافقت کے بارے میں بتا چکی ہیں، جس سے بڑی حد تک اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ سیرن کے استعمال کو بہانہ بناتے ہوئے شامی ایئر بیس کو انسٹھ ٹاما ہاک کروز میزائلوں سے نشانہ بنانا ایک نیا کھیل شروع کرنے کی ابتدا ہو سکتی ہے۔ کسی مخصوص رنگ اور ذائقے سے عاری اس تباہ کن گیس سیرن Sarin کو اگرچہ حشرات کش دوا کے طور پر بنایا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے آج کل بے درد انسانوں کے ہاں اپنے دشمن کے خلاف ایک کیمیائی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔

گزشتہ دنوں شام کے علاقے حلب میں اس مہلک کیمیائی ہتھیار کے استعمال سے متعلق سی این این سے بات کرتے ہوئے ایک ڈاکٹر نے اس کیمیائی ہتھیار کے مہلک اثرات کے بارے میں بتایا کہ اس سے متاثرہ شخص کو ایک سے دس منٹ کے دوران ہوش کھو بیٹھنے، جسم اکڑ جانے اور نظام تنفس مفلوج ہونے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ متاثرہ شخص کے منہ سے جھاگ آنا، پسینہ آنا، قے، متلی، ناک بہنا، غیر ارادی طور پر پیشاب آنا، جسم داغدار پڑ جانے اور نبض ڈوبنے کے ساتھ ساتھ سینے میں تناؤ پیدا ہونا اس کی چیدہ علامات ہیں۔ پھیپھڑوں اور عضلات کو مفلوج کر کے دم گھٹنے کے بعد موت کا سبب بننے والی یہ گیس عام زہر کے مقابلے میں پانچ سو گنا زیادہ مہلک تصور کی جاتی ہے۔ جرمنی میں آج سے 78 سال قبل (Schrader، Ambros، Rudriger & Vanderline) نامی نازی سائنسدانوں نے حشرات کش ہتھیار کے طور پر اسے دریافت کیا اور انہی سائنسدانوں کے ناموں کے پہلے حروف کی ترکیب کی مناسبت سے اس کا نام سیرن رکھا گیا ہے۔

جنگ عظیم دوم کے دوران ایک اندازے کے مطابق جرمنی پانچ سو کلوگرام سے لے کر دس ٹن کے درمیان سیرن تیار کر چکا تھا لیکن اپنے حریفوں کو نشانہ بنانے کے لئے اس کے استعمال سے احتراز کیا۔ 1950 میں اس مہلک گیس کو نیٹو نے ایک معیاری کیمیائی ہتھیار کے طور پر اپنایا اور سوویت یونین اور امریکہ جیسی طاقتوں نے فوجی مقاصد کے لئے اس کی پیداوار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

مارچ 1988 کو دو دن کے لئے جنوبی عراق کے کرد نسلی علاقے میں بھی کیمیائی سیرن سمیت دوسرے کیمیائی ہتھیار صدام حسین کی عراقی حکومت نے استعمال کیے، جس کے نتیجے میں پانچ ہزار افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔ چلی اور جاپان میں اس گیس کے ظالمانہ استعمال کے علاوہ عراق، ایران جنگ کے اختتام پر صدامی افواج نے بھی اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی خاطر اس کا ظالمانہ استعمال کیا تھا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سیرن کے استعمال پر اگرچہ 1993 کو ایک عالمی کنونشن کے تحت پابندی لگائی گئی تھی لیکن بدقسمتی سے پابندی کے باوجود اس کے استعمال سے دہشت گرد تو درکنار، اسد جیسے ابدی اقتدار کے مشتاق اور امریکہ جیسے عالمی امن کے نام نہاد علمبردار بھی احتراز نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).