بہنیں اور قربانی کے بکرے کونے میں ہوجائیں!


گزشتہ دنوں محترم وزیر اعظم پاکستان نے اوکاڑہ میں جلسہ عام سے خطاب کیا اور جلسے میں موجود خواتین کارکنان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایک آپ بہنیں ہیں جو کونے میں کھڑی ہیں اور ایک تحریک انصاف میں شرکت کرنے والی بہنیں ہیں، دونوں میں فرق محسوس ہوتا ہے۔ فرق کیا ہے اس پر تفصیلی روشنی تو محترم وزیراعظم ڈال سکتے ہیں۔ محترم نواز شریف کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شاید ان کے کہنے کا مقصدیہ ہو کہ آپ بہنیں تو سری پائے و نہاری بناتی ہیں اور تحریک انصاف کی بہنیں برگر و سینڈچ۔ وزیر اعظم کے ان جملوں کے بعد تحریک انصاف و دیگر سیاسی جماعتوں کی خواتین رہنماؤں و کارکنان نے شدید خفگی کا اظہار کیا ہے۔ محترم نواز شریف بہنوں سے مخاطب ہوتے وقت غالبا یہ بھول گئے کہ 12 اکتوبر 1999 کو فوج نے جب ان کو اقتدار سے ہٹایا اور ملک سے بے دخل کیا تھا تو ان کی جماعت کے مرد رہنما کونے میں ہوکر یا چھپ کر معافی نامے جمع کرارہے تھے۔ جب کہ محترمہ کلثوم نواز صاحبہ خواتین کارکنان کے ساتھ کسی کونے میں نہیں، سڑکوں پر تھیں۔

محترم وزیر اعظم مسلم لیگی ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں کہ ان تاریخ پیدائش بھی وہی ہے جو قائداعظم کی ہے۔ مسلم لیگ (ن)، قائداعظم کی مسلم لیگ ہونے کا دعوی کرتی ہے۔ لیکن محترم وزیراعظم بہنوں کو کونے میں رہنے کی تلقین کرتے وقت وقت بھول گئے کہ قیام پاکستان کی تحریک میں خواتین نے قائداعظم اور ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ مل کر بھرپور حصہ کسی کونے میں کھڑے ہوکر نہیں بلکہ سڑکوں پر آکر لیا تھا۔ اسی طرح بہنوں کے متعلق بات کرتے وقت، یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے تھی کہ مسلم لیگ (ن) نے میثاق جمہوریت پر دستخط محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کسی کونے میں نہیں، ملکی و بین الاقوامی میڈیا کے سامنے کیے تھے اور ان کو بھی محترم نواز شریف نے بہن کا درجہ دیا ہوا تھا۔

وطن عزیز میں تعلیمی میدان میں لڑکیوں کو لڑکوں پر سبقت حاصل ہے۔ اس سے اندازہ ہوجانا چاہیے کہ خواتین صلاحیتوں میں کسی طور مردوں سے کم نہیں اور اب تو افواج پاکستان میں بھی خواتین کی شمولیت ہے۔ کیا وقت پڑنے پر ان سے بھی یہ کہا جائے گا کہ خواتین کونے میں اچھی لگتی ہیں۔ جس دن وزیراعظم کا بہنوں کے متعلق یہ بیان سامنے آیا۔ اسی دن کی اخباری خبر ہے کہ محترمہ مریم نواز شریف کو اعلی لیگی قیادت نے دو حلقوں لاہور و سرگودھا سے انتخاب میں حصہ لینے کی تجویز دی ہے۔ وزیر اعظم کے تازہ بیانیے کے بعد امید ہے کہ محترمہ مریم نواز شریف اب ضمنی انتخاب میں حصہ نہیں لیں گی اور آئندہ سال منعقد ہونے والے عام انتخابات میں کونے میں کھڑے ہو کر حالات کا جائزہ لیں گی اور لطف اندوز ہوں گی۔

جس دن بہنوں کے متعلق بیان پر میڈیا میں پر بحث چل رہی تھی۔ اسی دن وزیراعظم ہاؤس سے ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری ہوا جو سابق و حاضر سرکاری اہل کاروں کی برطرفی اور عہدے سے ہٹائے جانے سے متعلق تھا۔ ڈان لیکس کی رپورٹ کے تناظر میں جاری ہونے والے اس نوٹیفیکیشن کو آئی ایس پی آر کے ایک ٹوئٹ کے ذریعے فوج نے مسترد کردیا گیا۔ (فوج کے ردعمل پر بحث علیحدہ مضمون کی متقاضی ہے۔ اس تحریر میں یہ بحث موزوں بھی نہیں ہے) یعنی ایک ہی دن وزیراعظم کے بیان کو ملکی سطح پر ہر شعبے و طبقے کی خواتین نے جہاں مسترد کیا، وہیں وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کو فوج نے مسترد کیا۔ وزیر اعظم نے جہاں بہنوں کو کونے میں رہنے کی تلقین کی وہیں سابق و حاضر حمایتی سرکاری اہل کاروں کو بھی سال بہ سال کی طرح قربانی کا بکرا بنا کر کونے میں کردیا۔ وزیراعظم کا بہنوں سے متعلق تازہ بیانیہ اور حمایتی سرکاری اہلکاروں کو قربانی کا بکرا بنا کر کونے میں کرنے کا اقدام یہ ظاہر کرتا ہے کہ اقتدار کو بچانے اور طول دینے کے لیے، وہ کسی بھی وقت اپنا کوئی بھی بیانیہ تبدیل کرسکتے ہیں اور اپنے وزیروں و حمایتی سرکاری اہل کاروں کو قربانی کا بکرا بنا کر کونے میں کرسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).