میرے خوابوں کی دنیا


(عادل جہانگیر)

خواب دیکھنے پر پابندی نہیں لیکن خوابوں کی دنیا میں رہنے سے انسان حقیقی دنیا سے کہیں دور چلا جاتا ہے۔ بہرحال میں نے بھی خواب دیکھا تھا اور ابھی تک اسی خواب کے سرور اور مستی میں ہوں۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک ایسی دنیا میں ہوں جہاں انسان کی بالادستی ہے، جہاں انسانیت کا بول بالا ہے، جہاں لوگ نہ ہی انسانوں سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی نفرت کرتے ہیں۔ جہاں پیار محبت امن و آشتی ہی ان کا دھرم ہے۔ جہاں مختلف مذاہب اور فرقوں کے لوگ اکھٹے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی تقاریب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور ان کے سود وزیاں مشترکہ ہیں۔ جہاں خواتین کو فیصلہ سازی میں اہم مقام حاصل ہے اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں ان کا رہنمایانہ کردار ہے، امن و آشتی ہے۔ کوئی خودکش حملہ نہیں۔ کوئی دھشتگردی نہیں۔ کوئی خوف کا ماحول نہیں۔ کوئی سیکیورٹی نہیں۔ کوئی چوری چکاری کی واردات نہیں۔ سب اپنے اپنے گھروں میں کھلے دروازوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ بچوں کے لیے بہترین اور جدید ٹیکنالوجی پر مبنی مفت تعلیم اور تعلیم کے بعد روزگار کی ضمانت ہے اور ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم سب کے لیے مساوی اور لازمی ہے۔

معمر افراد کو خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کی عزت و تقریم کی جاتی ہے۔ گھروں میں سب سے اونچا مقام ان کا ہے۔ ہسپتالوں میں علاج معالجے کی تمام سہولیات موجود ہیں۔ علاج مفت و معیاری اور مریضوں کی بہترین تیمارداری کی جاتی ہے۔ ڈاکٹرز اور ہسپتال کا عملہ مسیحائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اشیاء خوردونوش ملاوٹ سے پاک ہے۔ صحتمندانہ اور متوازن غذاء کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں۔ تمام معاملات گفت و شنید سے حل کیے جاتے ہیں۔ آپس میں تحفے تحائف اور مختلف ثقافتی وفود و طائفاوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے ۔ لائبریریاں آباد ہیں۔ ہر شہر کی سب سے پر رونق عمارت لائبریری کی ہوتی ہے جہاں طلباء اور طالبات اور ذوقِ ادب رکھنے والوں کا جم غفیر ہوتا ہے۔

سیکییورٹی پر معمور ادارے صرف ایک بات پر غور کر رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح انسانوں کی حفاظت جنگلی درندوں سے کی جائے جو کبھی کبھار جنگل سے شہر کا رخ کرتے ہیں ، جبکہ جنگلی حیات کی خیال داری بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہوتی ہے۔ اور یوں زمین پر جنت کا گمان ہوتا ہے۔

مگر یہ کیا۔۔ خواب تو خواب ہے اور جب میں اس کیفیت سے بیدار ہوتا ہوں تو معاشرے میں وہ ساری برائیاں دیکھتا ہوں جہاں انسان انسان کا دشمن ہے۔ جہاں نفرت کا بول بالا ہے۔ جہاں کسی کی جان مال عزت وآبرو محفوظ نہیں۔ لوگ اپنے گھروں میں بھی خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے۔ جنگلی درندگی، حیوانیت انسانوں میں رچ بس گئی ہے۔ جہاں غریب غریب سے غریب تر جبکہ امیر امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ افراتفری ہے۔ ہمسایہ ہمسائے سے نا آشنا ہے۔ مزہبی جنونیت خطرناک شکل اختیار کر گئی ہے۔ جو آپ کے فرقے کا نہیں اسے کافر قرار دے کر مار دینا کوئی بڑی بات نہیں۔ اور تو اور جنگلی معصوم جانور تو اپنی جگہ خون خوار درندے بھی ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔

ہسپتالوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ غریب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں مگر ہسپتال اور معالج ان کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ یکساں اور مفت تعلیم ایک خواب ہی ہے جو کہ شاید خواب ہی رہے
کاش میرا خواب سچ ہو۔ کاش میں ایسی ہی دنیا کا باسی بن جاوں جو کہ میں نے اپنے خواب میں دیکھا۔ کاش۔۔ کاش۔۔ کاش۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).