آئین کی ابجد


ہم نے اس تحریر کا عنوان لکھنے سے پہلے سوچا تھا کہ ہم ’آئین کی اَلِف، بے، پے، لکھ دیں لیکن پھر خیال آیا کہ جو لوگ ذہنی قلابازیاں لگاتے ہوئے پاکستان کے آئین کی صرف چنیدہ دفعات بشمول باسٹھ، تریسٹھ، دو سو پچانوے، اور دو سو اٹھانوے پر شور و غوغا میں مصروف رہتے ہوں، ان کے لیئے خواہ آئین کی ابجد لکھا جائے یا الف، بے، پے، کیا فرق پڑتا ہے۔

پاکستان کے آئین پر بات کرنا ویسے ہی بہت مشکل ہے کیونکہ بسا اوقات محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے طالب علموں کو مدنیت اور شہریت کی تعلیم دیتے وقت شاید آئین کی ابجد یا بنیاد سکھانے سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید انہیں معلوم ہوتا کہ، ہمارآئین ایک متفقہ سماجی معاہدہ ہے اور یہ کہ ہمارے آئین نے پاکستانی ریاست کے تین بنیادی ستون مقرر کیئے ہیں، جو مجلسِ شوریٰ ( مقننہ)، وفاقی حکومت، اور عدلیہ پر مشتمل ہیں۔ شاید انہیں یہ بھی معلوم ہوتا کہ انہیں اپنے ملک کے آئین اور دستور کے تحت چند پابندیوں کے ساتھ کچھ بنیادی انسانی حقوق اور آزادیا ں حاصل ہیں، اور واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ، ’’بنیادی حقوق کے متناقض یا منافی قانون کالعدم تصور ہوں گے‘‘۔

آئین شہریوں کو جو حقوق اور آزادیاں عطا کرتا ہے ان میں، فرد کی سلامتی، گرفتاری اور نظر بندی سے تحفظ، منصفانہ سماعت کا حق، نقل و حرکت کی آزادی، شرفِ انسانی کی حُرمت، اجتماع کی آزادی، انجمن سازی کی آزادی، تقریر کی آزادی، مذہب کی پیروی کی آزادی، تعلیم کا حق، ملازمتوں میں تعصب سے تحفظ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ اور مختلف آزادیاں، آئین کی دفعہ آٹھ سے لے کردفعہ اٹھایئس پر محیط ہیں۔ اگر ہمارے شہری اور طالب علم ان دفعات سے پوری طرح آگاہ ہوتے تو انہیں علم ہوتا کہ کہاں حُرمتِ انسانی کی توہین ہو رہی ہے، کون کون سی آزادیاں کس طرح سلب ہورہی ہیں، اور کن آزادیوں پر آئین کی روح کے مطابق عمل ہو رہا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ہمارے وکلا، ماہرینِ قانون، اور مٹھی بھر دانشور اور سماجی کاکرن ان دفعات سے بخوبی آگاہ ہیں، اور بساط بھر کوشش کرتے ہوں گے کہ پاکستان میں حُرمتِ انسانی کا تحفظ ہوتا رہے۔

اگر ہمارے شہری اور طالب علم آئین کی ابجد سے واقف ہوتے تو شاید انہیں یہ بھی معلوم ہوتا کہ دنیا کی ہر مہذب جمہوریت کی طرح پاکستان کا آئین بھی ہمارے عسکری اداروں پر عوام کی منتخب کردہ وفاقی حکومت کی بالا دستی قائم کرتا ہے۔ اور واضح طور پر قرار دیتا ہے کہ ہمارے عسکری ادارے ہماری ریاست کے بنیادی ستون نہیں ہیں بلکہ وفاق کے ماتحت حکم کے پابند ادارے ہیں۔ اس نظام کے لیے ہمارے آئین میں بنیادی دفعات سے بہت آگے آئین کے بارہویں حصہ میں متفرق شقوں کے باب دوئم میں افواجِ پاکستان کا منصب اور ذمہ داری طے کی گئی ہے۔ اس کی دفعہ دوسو تینتالیس ِ میں واضح طور بتایا گیا ہے کہ، ’’وفاقی حکومت کے پاس مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول ہوگا‘‘ اور یہ کہ ’’مسلح افواج کی اعلیٰ کمان صدر کے ہاتھ میں ہوگی‘‘۔ نیز یہ کہ صدر وزیرِ اعظم کے مشورہ پر چیئر مین جائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، چیف آف آرمی اسٹاف، چیف آف نیول اسٹاف، چیف آف ایئر اسٹاف، کا تقرر کرے گا۔ اس باب میں یہ بھی درج ہے کہ، ’’مسلح افواج وفاقی حکومت کی ہدایت کے تحت بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے خلاف پاکستان کا دفاع کریں گی اور قانون کے طابع، شہری حکام کی امداد میں جب طلب کی جایئں، کام کریں گی‘‘۔

جو اصول ہمارے آئین کے مندرجہ بالا باب میں طے کیئے گئے ہیں یہ وہی اصول ہیں جن پر پاکستان پر واضح اثر رکھنے والے دو ممالک امریکہ اور برطانیہ میں نہایت سختی کے ساتھ عمل ہوتا ہے۔ یہاں ان ممالک کا ذکر کرنا یوں بھی ضروری ہے کہ یہ وہ دو اہم ممالک ہیں جہاں ہمارے عسکری اداروں کے اعلیٰ افسران تربیت کے لیئے بھیجے جاتے ہیں۔ یہ اصول صرف امریکہ یا برطانیہ ہی کے قبول کردہ اصول نہیں ہیں بلکہ NATO کے تحت تقریباً ہر فوجی ادارے پر، اور دنیا کے ہر جمہوری ملک میں بھی ان اصولوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ اصول صرف جدید مغربی جمہوریت کے اصول نہیں ہیں بلکہ خود اسلامی حکمرانی کی روایت میں بھی سپہ سالار خلافتِ راشدہ کے حکمرانوں کے مکمل طور پر طابع تھے، اور یہ روایت تسلسل سے ہر اسلامی ریاست میں قائم رہی۔

 عصرِ حاضر میں عسکری اداروں کی منتخب حکومتں کی تابعداری کے بارے میں صول جاننا ہوں تو اس کے لیئے Samuel Huntington کی اہم کتاب، State and Soldier: The Theory and Politics of Civil-Military Relations سے استفادہ نہایت ضروری ہے۔ جو طالبِ علم پاکستان میں شہری عسکری تعلقات اور ان کے درمیان تنائو کو معروضی طور پر جاننا چاہیں ان کے لئے پاکستانی دانشور عاقل شاہ کی کتاب، Army and Democracy سے استفادہ، سود مند ہوگا۔

جہاں پاکستان کا آئین عساکرِ پاکستان کا منصب طے کرتا ہے وہیں اسی آئین کے تابع قوانین میں شامل اہم قانون نامہ Pakistan Army Act ہے جس کا اطلاق عساکرِ پاکستان کے ہر فرد پر ہوتا ہے اور اس کی بعض شقوں میں غیر عسکری افراد بھی شامل ہیں۔ یہ قانون نامہ بھی وفاقی حکومت کی صوابدید پر ہی نافذ العمل ہے۔ وفاقی حکومت اس قانون کے طابع کسی بھی شخص کو اس کے عہدہ سے ہٹانے اور برطرف کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اس قانون نامہ میں حکم عدولی کی تعریف متعین کی گئی ہے اور اس کے لیئے سزا بھی طے کی گئی ہے۔

جہاں پاکستان کے آئین میں ہمارے عسکری اداروں کا منصب طے کیا گیا ہے وہیں انہیں ایک حلف نامہ کا پابند کیا گیا ہے۔ اس حلف نامہ میں درج الفاظ یہ ہیں، ’’میں۔۔۔۔صدقِ دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوصِ نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گااور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی حمایت کروں گا جو عوام کی خواہشات کا مظہر ہے، اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کسی بھی سیاسی سرگرمی میں مشغول نہیں کروں گا اور یہ کہ میں مقتضیاتِ قانون کے تحت پاکستان کی بر ی فوج (یا بحری یا فضائی فوج ) میں پاکستان کی خدمت ایمانداری اور وفااداری سے انجام دوں گا۔ ‘‘

ہمارے اس معروضہ کا بنیادی مقصد پاکستان کے شہریوں اور طالب علموں کو یہ گوش گزار کرنا ہے کہ اگر آپ کبھی کارگِل جیسے واقعات پر، یا کسی اعلیٰ عسکری افسر کی الیکٹرونک ٹوئٹ پر جس سے وفاقی حکومت کی حکم عدولی کا امکان ہو، یا کبھی کسی حکومت کا کسی عسکری کاروائی کے تحت تختہ الٹا جائے، تو ایسے میں آپ ہمارے الیکٹرونک یا پرنٹ میڈیا کے نقار خانہ میں بقراط طوطیوں کی چیخ و پکار اور تُو تُو، میں میں میں الجھ کر کسی ذہنی تنائو یا انتشار کا شکار ہوئے بغیر خود غور کر سکیں کہ، کیا کسی معاملہ میں آئینی وفاقی حکومت کی غیر قانونی ہتک کی گئی ہے یا کسی قسم کی آئین شکنی ہوئی ہے۔

ہمارے آئین کی پانچویں دفعہ میں ہرشہری کو ( جس میں ہماری عساکر کے محترم اراکین بھی شامل ہیں) مملکت سے وفاداری کا پابند کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ’’دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر شخص کی جو فی الوقت پاکستا ن میں ہو (واجب التعمیل) ذمہ داری ہے۔ اسی طرح آئین کی چھٹی دفعہ میں بالکل واضح کر دیا گیا ہے کہ’’کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت سے یا دیگر غیر آئینی طریقے سے دستور کی تنسیخ کرے، تخریب کرے، یا معطل کرے یا التوا میں رکھے، سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔ ۔۔نیز یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ ’’اس سنگین غداری کا عمل کسی بھی عدالت کے ذریعہ بشمول عدالتِ عظمیٰ، یا عدالتِ عالیہ جائز قرار نہیں دیا جائے گا‘‘۔ ’’مجلسِ شوریٰ، بذریعہ قانون ایسے اشخاص کے لیئے سزا مقرر کرے گی جنہیں سنگین غداری کا مرتکب قرار دیا گیا ہو۔‘‘

پاکستان کا آئین اور اس کا اردو ترجمہ پاکستان کے عوام کی ملکیت ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے عوام کو یا تو ان سے بے بہرہ رکھا گیا ہے، یا ان تک ان کی رسائی اور تفہیم کو محدود رکھا گیا ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے وطن کا ہر شہری جس میں ہمارے عسکری اداروں کا ہر فرد شامل ہے، اگر اپنے حقوق، مناصب، اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں گے تو اس مملکتِ خداد اد میں حق اور انصاف کا دور دورہ ہوگا۔ اور اگر انہیں بے بہرہ رکھا جائے گا تو شاعر تو صرف یہ گلہ کر سکے گا کہ،

خلق کو کیوں بے خبر رکھا گیا

تُجھ کو تو ساری خبر ہے کچھ تو کہہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).