گِدھوں کا منجن اور نفسیاتی مریضوں کا منورنجن


میری بیٹی او لیول کے بعد لٹریچر اور جرنلزم پڑھنا چاہتی ہے۔ کراچی کے ایک کالج نے اس کا انٹرویو کرنے کے بعد مشورہ دیا کہ اسے سائیکولوجی بھی پڑھنی چاہیے۔ میں نے اپنی بیٹی سے کہا ہے کہ اسی کالج میں داخلہ لے۔ وہ سمجھ دار لوگ ہیں۔ ان کا مشورہ درست ہے۔

اس مشورے پر پاکستان کے تمام صحافیوں اور ادیبوں کو بھی عمل کرنا چاہیے۔

ہم صحافی، نام نہاد صحافی، روزانہ ایسے فیصلے کرتے ہیں جن سے عام شہریوں کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے فیصلوں کے نتائج کا خود بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ ایسا کوئی طریقہ کار بھی نہیں کہ کوئی اور سمجھ دار فرد یا تنظیم ہمارے غلط فیصلوں سے ہمیں آگاہ کرے۔ ہم عقلِ کل ہیں، ہمیں کون سمجھا سکتا ہے؟

آج کوئٹہ سے خبر آئی ہے کہ پشتون آباد میں کسی لڑکی نے زہریلی دوا پی کر خود کشی کرلی۔ میں اس اطلاع کا کئی دن سے انتظار کررہا تھا۔ میں کوئی گدھ نہیں ہوں۔ لیکن مجھے واقعی یہ خدشہ تھا کہ کسی نہ کسی کی خود کشی کی خبر آنے والی ہے۔

مئی 2012 کا ذکر ہے، میں اپنے نیوزروم میں رات نو بجے کے بلیٹن کی تیاری کررہا تھا۔ فیصل آباد سے رپورٹ ملی کہ چھٹی جماعت کے ایک بچے نے خود کشی کرلی ہے۔ عمر تین دن کی چھٹی کے بعد اسکول گیا تھا۔ ہیڈ ماسٹر نے اس کی پٹائی کی اور کہا کہ اپنے والد کو ساتھ لاؤ گے تو کلاس میں بیٹھنے دیا جائے گا ورنہ نہیں۔ بچہ ڈر گیا۔ پتا نہیں اس نے باپ کو بتایا یا نہیں۔ بتایا ہوگا تو وہاں بھی پٹائی ہوئی ہوگی۔ وہ محلے کی دکان پر گیا، مٹی کا تیل خریدا اور خود پر چھڑک کر آگ لگالی۔ الائیڈ اسپتال پہنچ کر چل بسا۔

میں نے یہ خبر دوسرے کاغذات میں چھپا دی۔ لیکن مجھے کنٹرولر صاحب نے طلب کیا۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا میں اس خبر کو نمایاں طور پر بلیٹن میں شامل کررہا ہوں۔ میں نے انکار کیا۔ انھوں نے ہدایت کی کہ وہ رپورٹ رات نو بجے کے بلیٹن کی پہلی خبر ہونی چاہیے۔

میں نے اس خبر کو روکنے کی کوشش کی لیکن میری بات نہیں مانی گئی۔ وہ اسی طرح نشر ہوئی جیسے مجھے حکم دیا گیا۔ دو دن بعد دوسرے بچے نے خود کشی کرلی۔ چار دن بعد تیسرے بچے نے۔ چوتھی خود کشی کے دن کنٹرولر صاحب نے مجھے طلب کیا اور حکم دیا کہ آج بچے کی موت والی خبر نہیں چلے گی۔ ’’یار مبشر! تم نے تو بچوں کی خود کشیوں کو گلیمرائز کردیا ہے۔‘‘

ابھی چند دن پہلے قلعہ سیف اللہ میں ایک بچی نے انٹر کے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہ ملنے پر خود کشی کرلی۔ ثاقبہ حکیم نے میٹرک میں پورے ضلع میں اول پوزیشن لی تھی۔ کالج میں خواتین اساتذہ کی تعیناتی کے لیے احتجاج کرنے پر اس کا نام کاٹ دیا گیا تھا۔ اس نے پڑھنے اور امتحان دینے کا حق حاصل کرنے کی کوشش کی اور ناکام ہوکر زہر چاٹ لیا۔

ہم صحافیوں کو اس سے کیا غرض کہ ثاقبہ حکیم کی موت کو گلیمرائز کرنے سے کئی اور لڑکیاں بھی وہی راستہ اپنا سکتی ہیں۔ آج پشتون آباد کی کوئی لڑکی تھی، کل کراچی یا لاہور کی کوئی لڑکی بھی ہوسکتی ہے۔ کیوں ہوسکتی ہے، یہ ہم کیوں سوچیں، ہمیں اس سے کیا غرض۔ یہ کس ماہر نفسیات کا قول ہے کہ نفسیاتی مسائل کے شکار لوگ دوسروں کا نفسیاتی علاج نہیں کرسکتے۔

گھٹنن کے شکار ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگوں کے پاس اپنے حالات سے فرار کا کوئی راستہ نہیں۔ بے شمار بچے اپنے والدین اور اساتذہ کے جبر کا شکار ہیں۔ بے شمار خواتین اپنے ماں باپ یا شوہروں کے جبر کا شکار ہیں۔ بے شمار نوجوان غربت یا حالات کے جبر کا شکار ہیں۔ میڈیا انھیں آزادی اور جرات مند زندگی کے راستے دکھا سکتا ہے۔ بے شک یہ کام آسان نہیں لیکن اس کی کوشش تو کی جاسکتی ہے۔ لیکن میڈیا بعض اوقات حالات سے فرار کا بدترین راستہ دکھادیتا ہے۔

ہم ہرگز نہیں جانتے اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں خواندگی کی شرح کتنے فیصد ہے۔ خواندہ کہلانے والے کتنے افراد واقعی کچھ پڑھنا جانتے ہیں۔ کتنے افراد اخبار پڑھ لیتے ہیں اور کتنوں نے زندگی میں کوئی کتاب پڑھی ہے۔ اور کتاب پڑھنے والے کتنے افراد فکشن اور نان فکشن میں فرق سمجھ سکتے ہیں۔

ہمارا جب جی چاہتا ہے، جب اشارہ ہوتا ہے، کسی کی بھی ٹوپی اتار لیتے ہیں۔ ہم ملزم اور مجرم میں تمیز کھو چکے ہیں۔ ہم لفظ مبینہ لکھنا بھول چکے ہیں۔ ہم بیان اور الزام کو ایک خانے میں رکھتے ہیں۔ ہم معتبر اور غیر معتبر ذرائع کوالگ الگ نہیں سمجھتے۔ ہم نے خبر، پی آر اور اشتہار کے درمیان کی لائن مٹادی ہے۔ ہم اتنا بھی نہیں جانتے کہ کب اور کون ہمیں کیسے استعمال کرلیتا ہے۔

اب ٹی وی پر ہر شے انٹرٹینمنٹ ہے۔ اگر کسی کی خودکشی ہمارے ناظرین کو محظوظ کرسکتی ہے اور ریٹنگ لاسکتی ہے تو موقع سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا جائے۔ ہمیں کوئی پریشانی نہیں کیونکہ ہم تمام اقسام کی اموات پر دردانگیز مکالموں والے ٹاک شوز کرسکتے ہیں اور خبرناموں میں المیہ موسیقی سے سجی رپورٹس چلاسکتے ہیں۔ خودکش معاشرے میں ہر برانڈ کا منجن اور منورنجن اچھے داموں بک جاتا ہے۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments