چھوت چھات کا مسئلہ اور ہندوؤں سے کھری کھری باتیں


[میرے دادا جان، بابو غلام محمد مظفر پوری، کی خود نوشت سوانح ”سفری زندگی“ کا ایک اور اقتباس پیش خدمت ہے۔ اس کتاب کا سن تصنیف سنہ 1944ء ہے۔ اس وقت ان کا قیام نیروبی (کینیا) میں تھا۔ ]

 میں جب نوشکی ریلوے سے واپس آ کر گھر پر تھا تو ایک روز اپنے کنوئیں پر ، جو کہ گاؤں کے بالکل ساتھ تھا، نہانے کی تیاری کر رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بھنگن بے چاری گود میں بچہ اٹھائے، سر پر گھڑا رکھے، دیر سے کھڑی ہے۔ اس کو پانی بھرنے کے لیے وقت نہیں ملتا تھا کیونکہ کنواں گاؤں سے نزدیک ہونے کی وجہ سے وہاں ہر وقت بھیڑ لگی رہتی تھی۔ اس بھنگن کو کم از کم دس منٹ کا وقفہ چاہیے تھا تا کہ وہ اپنا گھڑا بھر سکے کیونکہ وہ اس جگہ سے نہیں بھر سکتی تھی جہاں نل سے پانی گرتا ہے اور وہ کنوئیں کے بہت نزدیک ہوتا ہے۔ اس لیے میں نے اس کا گھڑا لے کر نچھار کے نیچے رکھ کر بھر دیا اور اس کے سر پر رکھ دیا۔ وہاں پر چند ایک لڑکے بیٹھے تھے جن میں میرا ایک بھتیجا بھی تھا جو کہ ابھی کم عمر تھا لیکن کچھ کچھ پڑھا لکھا بھی تھا۔ وہ بھاگتا ہوا میری طرف آیا کہ چچا صاحب یہ کیا کیا ۔ کنواں پلیت یعنی بھرشٹ ہو گیا۔ میں بہت حیران ہوا کہ میرے سے یہ باتیں بہت دور ہو چکی تھیں یعنی چھوت چھات کی لعنت۔ میں ایک سال چماروں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھاتا رہا تھا۔ تب میں نے اس لڑکے کو پیار سے نزدیک بلایا اور اس سے کہا کہ برخوردار دیکھو کنوئیں کی نچھار میں سوراخ تو نہیں ہو گیا کیونکہ بھنگن کا گھڑا اس کے نیچے رکھ کر بھرا گیا ہے۔ اس نے کہا نہیں چاچا جی سوراخ ووراخ تو کوئی نہیں ہوا۔ پھر میں نے کہا اچھی طرح دیکھ پانی کا رنگ تو نہیں بدلا۔ اس نے غور سے دیکھ کر کہا نہیں رنگ بھی نہیں بدلا۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ برخوردار جوتا اتار کر میرے پاس آکر پانی کا ذائقہ چکھ کر معلوم کر کہ شاید بھنگن کا گھڑا بھرنے سے اس کا ذائقہ بدل گیا ہو۔ تب اس نے پانی کا گھونٹ بھر کر کہا نہیں ذائقہ بھی نہیں بدلا۔ اس وقت مجھے بھی ذرا غصہ آ گیا اور میں نے اس لڑکے کو ایک تھپڑ رسید کیا اور کہا کہ پھر پلیت یا بھرشٹ کیا چیز ہے جس کو نہ انسان دیکھ سکتا ہے، نہ سونگھ سکتا ہے اور نہ کسی طرح سے معلوم کر سکتا ہے۔ یہ چیز سوائے وہم اور بدخیالی کے اور کیا ہے۔ اب اس روز سے خدا کے فضل و کرم سے ہمارے گاؤں میں وہی بھنگن کسی سے نہیں پوچھتی، چپکے سے آکر گھڑا نچھار کے نیچے رکھ کر بھرتی اور سر پر رکھ کر چلی جاتی ہے۔ لوگ بھی ایسے ہی عادی ہو گئے ہیں ۔ کچھ خیال یا پروا پہلے کی طرح چھوت چھات کی نہیں کرتے۔

ہندوؤں سے کھری کھری باتیں

مجھے بہت دفعہ اپنے ہندو دوستوں سے اس بارے میں بات چیت کا اتفاق ہوا لیکن وہ بے چارے لاجواب ہی رہ جاتے ہیں۔ اگر غور سے اور انسانی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ چھوت چھا ت ہندووں میں کہاں سے چلی، پھر مسلمانوں نے اسے کیوں اختیار کیا۔ افسوس صد افسوس! یہ ایک شے ہے جس کا نہ کوئی وجود نہ کوئی عنوان ہے۔ اس پر پابند رہنا کسی انسان کا کام تو ہو نہیں سکتا۔ یہ لعنت صرف ہندوستان میں ہی دیکھی گئی ہے۔ اور کسی ملک میں اس کا وجود بلکہ نام تک نہیں ۔ اس کے ذمے دار زیادہ ہمارے ہندو بھائی ہیں۔ گو ہندو منہ سے اس غلطی کا اعتراف کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ویسے کے ویسے ہی کورے نظر آتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہندوستانی کس زبان سے آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر بفرض محال ہمارے ہندوستان کو آزادی مل جائے تو ہمارے اچھوت بھائیوں کا کیا حال ہو گا؟ اور برہمن دیوتا ان سے کیا خدمت لیں گے جو ان کو چھونا تو درکنار ان کے سائے سے بھی دور بھاگتے ہیں۔ مدراس میں اکثر دیکھا گیا تھا کہ جب برہمن نہا کر آتا تھا تو عام رستے پر چلتا بھی نہیں تھا کہ کسی اچھوت کا سایہ نہ اس پر پڑ جائے۔

پھر ہمارے ہندو بھائی کس قدر فخر اور دعوے سے کہتے ہیں کہ ہندو مذہب سب سے پرانا اور جیو کا پالنے والا ہے جو کسی کیڑے مکوڑے کا بھی برا نہیں کرتا۔ واہ رے واہ کیا کہنا ہے ایسے مذہب کا جو انسانوں کو حیوانوں سے بھی بدتر سمجھتا ہے اور انسان کے سائے سے بھی پرہیز کرتا ہے۔ پھر لطف یہ کہ الزام دوسری اقوام کو دیتے ہیں کہ فلاں مذہب یا قوم کے لوگ ہندوستان کی آزادی میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ تو ہندوؤں کا میل جول مشکل بلکہ ناممکن ہے کیونکہ ہندو اور مسلمان کا مذہبی لحاظ سے اتنا فرق ہے جیسے زمین و آسمان اور مشرق و مغرب میں ہے۔ دونوں کا رہنا اور کھانا پینا بالکل الگ الگ ہے جو کہ نہ ابھی تک اکٹھا ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ ہو گا۔

اب اتفاق اور اتحاد کی صرف یہ صورت ہو سکتی ہے کہ ملکی معاملے میں مذہب کونہ لایا جائے۔ ہندو یہ سمجھ لیں کہ مسلمان جب چند ہزار یا چند لاکھ ہندوستان میں تھے تب وہ مسلمانوں کو باہر نہ نکال سکے، اب دس کروڑ کو کیسے نکالیں گے۔ مسلمان یہ سمجھ لیں کہ جب وہ نو سو سال تک ہندوستان پر حکمران رہے ہندووں کو اپنے مذہب میں جذب یا ملیامیٹ نہ کر سکے۔ اب جب کہ حکومت گنوا چکے ہیں ہندووں کا کیا بگاڑ لیں گے۔ فقط تھوڑی سی سمجھ اور فراخ دلی درکار ہے ورنہ وہی چال بےڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ یعنی غلامی اور بے عزتی۔

 میں اب ہندو بھائیوں سے پوچھتا ہوں کیا وہ ہمارے یعنی مسلمانوں کے ساتھ اتفاق و اتحاد یعنی میل ملاپ کرنے کو تیار ہیں؟ کیا وہ بلاکسی روک ٹوک ہمارے ساتھ کھانے پینے کو رضامند ہیں او ر ہم مسلمانوں کی دکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں یا دیگر سوداسلف لینے کو تیار ہیں؟ ہم تو کھانا پینا درکنار ہندووں سے رشتے ناتے کرنے کو بھی تیار ہیں جیسا کہ ہمارے پچھلے بادشاہوں یعنی اکبر، جہاں گیر اور شاہ جہاں نے کیے تھے۔ کیا ہندو بھائی مسلمانوں کو اپنے چولھے چوکے میں بلاروک ٹوک جانے کی اجازت دے سکتے ہیں؟ ان کے باورچی خانے میں کتا چلا جائے تو چنداں پروا نہیں کرتے لیکن اگر مسلمان چلا جائے تو ان کا مذہب یا دھرم بھرشٹ ہو جاتا ہے۔

آؤ اگر یہ باتیں جو اوپر لکھی گئی ہیں کرنے کو تیار ہو تو ہم مسلمان بھی اللہ کا نام لے کر سب باتیں ماننے کو ہمہ تن تیار ہیں۔ ہم ہندی کو اپنی زبان سمجھ کر پڑھنے اور سیکھنے کو تیار ہیں ۔ کیا ہندو بھی اردو زبان کو اسی طرح اپنی ملکی زبان قرار دینے کو تیار ہیں؟ آؤ ہندو بھائیو میدان میں آؤ اور مسلمانوں کے ساتھ صاف دل ہو کر سودا کرو اور ہم ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ آپ جیو اور ہم کو جینے دو۔ زمین دوز پالیسی یعنی چال بازی سے مت کام لو جیسے مسٹر گاندھی نے کیا ہے۔ پہلے تو ہندوستانی زبان کا ڈھونگ رچایا پھر آہستہ آہستہ ہندوستانی سے ہندی کی طرف رجوع ہو گیا، اس کے بعد سنسکرت کا پرچار کرنا شروع کر دیا۔ اس چالبازی سے مسلمان الگ الگ رہنے لگ گئے اور الگ ہوتے جا رہے ہیں۔

میں نے اپنی تیس سالہ ملازمت کے دوران میں ہندوستان کے بارہ صوبے دیکھے ہیں، اس کے علاوہ لوئر برما اور اپر برما میں بھی نوکری کی ہے۔ نیز ایران، عراق اور افریقا کے ملک بھی ملازمت کے سلسلے میں دیکھے ہیں۔ ان ملکوں میں مسلمان، عیسائی، یہودی اور افریقا میں افریقن آباد ہیں لیکن جو رسم و رواج ہندوستان میں دیکھے گئے ہیں وہ کسی دوسرے ملک میں دیکھنے میں نہیں آئے۔ سب قوم و مذہب کے لوگ آپس میں مل ملا کر اکٹھے کھاتے پیتے ہیں۔ لیکن ہندو بھائیوں کا رسم و رواج اور کھنا پینا سب دنیا سے نرالا ہے جو کہ متعصبی اور تنگ دلی کے لحاظ سے سب کو ناپسند ہی نہیں بلکہ نفرت دلانے والا ہے۔ یہ دیگر اقوام یعنی غیر ہندو کو الگ رہنے پر مجبور کرتا ہے جس کے ذمے دار خود ہندو اور ان کا پوتر مذہب ہے۔

آخر میں پھر عرض کرتا ہوں کہ کیا ہندو یہ سب باتیں، جو اوپر لکھی جا چکی ہیں، چھوڑنے کو اور اچھی طرح اتحاد و اتفاق سے ، رسم و رواج قائم کرنے کو تیار ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کس منہ سے اور زبان سے دوسرے مذاہب اور قوموں کو کوستے ہو۔ اور تو اور مسلمانوں، ہندووں او ر سکھ بھائیوں میں ابھی تک ہندوستان میں سلام دعا بھی مشترکہ نہیں ۔ مسلمان اپنے مذہب کا پابند ہوتے ہوئے السلام علیکم کہے گا تو اس وقت ہندو اور سکھ چپ ہو جائیں گے جیسے ان کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ کوئی جواب نہیں دے گا۔ ہندو جب رام رام یا نمستے کہہ کر بولیں گے تو اس وقت مسلمان اور سکھ چپ سادھ لیں گے جیسے کہ ان پر کوئی بھاری مہم آن پڑی ہو۔ جواب تک نہیں دیں گے۔ ان سب کے خلاف سکھ جب زور سے ست سری اکال کہے گا، اس لمحے ہندو اور مسلمان دونوں گونگے بہرے بن جائیں گے۔ پھر آپ ہی انصاف سے بتاؤ کہ اتفاق اور اتحاد کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ ان سب خرابیوں کا ذمہ دار میں تو خاص کر پنجابی بھائیوں کو ہی خیال کرتا ہوں جو کہ سب ہندوستان کے لیے نااتفاقی اور رخنہ اندازی کا موجب بنے ہوئے ہیں۔

 ہندوستان کے دوسرے صوبے، مثلاً گجرات یعنی بمبئی کے علاقے کو لیجیے جس میں سلام دعا کی جگہ صاحب جی کہتے ہیں۔ اسے کہنے میں نہ ہندو، نہ سکھ اور نہ مسلمان کو برا معلوم ہوتا ہے۔ کیا اچھا لفظ ہے معنی گو کچھ بھی ہوں۔ اسی طرح سکھ اور مسلمان پنجاب میں صاحب سلام کہا کرتے تھے یا کہتے ہیں۔ لیکن آج کل کے سکھ بھائی، بالخصوص رام گڑھیے، تو ست سری اکال پر ایسے پابند نظر آتے ہیں جیسا کہ ان کو اس لفظ سے دوبارہ سکھ راج مل جائے گا جو کہ محض خام خیالی ہی نہیں ایک طرح کا جنون ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں ترقی کرتی جا رہی ہے لیکن ہمارے ہندوستانی بھائی، جس میں مسلمان، ہندو اور سکھ بھائی شامل ہیں، ابھی تک سلام دعا کے ہی جھگڑے میں الجھے ہوئے ہیں۔

 زن نما انگریز، یعنی مونچھ داڑھی نہ ہوتے ہوئے، ہم پر حکمران ہیں۔ اس کے مقابلے میں سکھوں کے لمبے بال اور بڑی بڑی مونچھیں، مسلمانوں کے پٹے اور شرعی داڑھیاں کسی کام نہیں آتیں اور ہندووں کی جیو اور لمبی بودی نے بھی کچھ آزادی کا کام کرکے ابھی تک نہیں دکھلایا۔ پھر ان سب واہیات باتوں اور رسم و رواج سے کیا فائدہ جو دنیا میں کچھ کارآمد ثابت نہیں ہوئے، آخرت اور مرنے کے بعد کیا فائدہ پہنچائیں گے؛ جو کہ ہندووں اور سکھوں کے تو دنیا میں ہی جل کر راکھ ہو جائیں گے اور مسلمانوں کے قبر کے نیچے مٹی میں دب کر نابود ہو جائیں گے۔ فقط والسلام۔ آخر میں دعا گو ہوں کہ خدا اپنے فضل و کرم سے ہم ہندوستانیوں کو ہدایت دے، عقل و شعور عطا کرے جس سے ہم اپنے ملک میں عزت کی زندگی حاصل کر سکیں اور دوسرے ممالک اور قوموں کے قدموں پر گرنے کے بجائے اپنے قدموں پرکھڑا ہو سکیں۔ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں سہیں۔ ہندو، مسلمان یا سکھ نہیں بلکہ ہندوستانی بن کر پریم اور محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ پیش آئیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد کے حصہ دار ثابت ہوں۔ (آمین)۔

میرے اوپر لکھے جانے والے چند سخت الفاظ سے ہندو، سکھ اور مسلمان یہ نتیجہ نہ نکال لیں کہ میں مذہب یا اس کے اصولوں کے بر خلاف ہوں۔ نہیں ہرگز نہیں ۔ میں ایک پکا مسلمان ہوں کیونکہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہوا ہوں اور انشاءاللہ مسلمان ہوتا ہوا ہی مروں گا۔ میرا صرف یہ مقصد و مدعا ہے کہ ہمارے ہندوستان میں مذہب صرف رسمی طور پر رہ گئے ہیں۔ عملی طور پر ہم سے مذہبی باتیں نابود ہو چکی ہیں کیونکہ مسلمان وہ بہادر مسلمان نہیں رہے ۔ نہ ہی سکھ وہ بہادر سکھ رہ گئے ہیں۔ اور ہندو وہ ہندو نہیں رہے جیسے ان کے اور ہمارے آباؤ اجداد تھے۔ ہم موت سے ڈرتے ہیں؛ محنت سے جی چراتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک دوسرے کی غیبت کرنا ہمارا عام شغل ہو گیا ہے۔ محبت و پریم ہم سے جاتا رہا ہے۔ ڈر اور بزدلی ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ دیگر ممالک کی بہادریاں دیکھتے اور سنتے ہوئے ہمارے اندر کچھ حرکت پیدا نہیں ہوتی۔ بھائی بھائی کا دشمن ہے۔ افسوس صد افسوس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).