حکمت یار کا منظرِ عام پر آنا کیا معنی رکھتا ہے؟



ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمت یار کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ ان کی حیثیت کسی آگ لگی پتلون جیسی ہے جسے اتار دیں تو انسان ننگا ہو جائے گا اور نہ اتاریں تو اس سے زیادہ نقصان اٹھائے گا۔ کابل میں کل صدارتی محل میں وہ بڑی عزت اور احترام کے ساتھ داخل ہوئے تو ایک ساتھی نے کہا کہ تقریبًا ستر سالہ حکمت یار ’کافی تازہ دم دکھائی دے رہے تھے۔ شاید کسی اچھی جگہ روپوشی کے نو سال گزار کر آئے ہیں۔‘ فی الحال کابل نے بظاہر یہ پتلون پہنے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وہ اتنا طویل عرصہ کہاں تھے کسی کو نہیں معلوم لیکن ان کی واپسی کا سلسلہ اسلام آباد سے شروع ہوا۔ اس کا اعلان پاکستان میں افغان سفیر ڈاکٹر عمر ذاخلوال نے ایک ٹیویٹ میں کیا۔ ان کا حکمت یار کی کابل میں تصویر کے بارے میں کہنا تھا کہ اس عمل کا آغاز ایک برس قبل اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر ایک مختصر گفتگو سے ہوا تھا۔ یعنی افغان مصالحتی عمل کی ایک بڑی کامیابی کا آغاز یقینا پاکستان سے ہوا۔ ان کے رشتہ دار اور جماعتی اراکین اسلام آباد میں کافی عرصہ سے مقیم ہیں تو یقیناً بات ان ہی کے ذریعے شروع ہوئی ہوگی۔ لیکن حکمت یار خود کہاں رہے یہ واضح نہیں ہوتا۔

صدارتی محل میں ان کے اعزاز میں منعقد تقریب سے خطاب کے آغاز میں گلبدین حکمت یار نے روایت سے ہٹ کر بات کی۔ انھوں نے کہا کہ وہ معمول کے مطابق اپنے خطاب کا آغاز اپنے میزبانوں جیسا کہ افغان صدر اور دیگر اہم شخصیات کے نام لے کر نہیں کریں گے۔ اس کی وجہ انہوں نے نہیں بتائی لیکن بظاہر لگتا ہے کہ افغان صدر کو مخاطب نہ کرکے انھوں نے پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ نظام سے وہ مطمین نہیں۔ انھوں نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ افغان لویہ جرگہ میں افغانستان کے لیے ‘اصل اسلامی آئین’ پیش کریں گے۔

روسیوں کے خلاف جدوجہد میں حکمت یار کے پاکستان، سعودی عرب اور امریکہ سے تعلقات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ایک منظم گروپ ہونے کی وجہ سے حزب اسلامی کو ایک وقت میں سب سے زیادہ عسکری امداد دی جاتی تھی۔ فوجی آمر جنرل ضیا الحق کو ایک مرتبہ حکمت یار کو یہ دھمکی دینی پڑی تھی کہ انھیں بنانے والے وہ ہیں لہذا وہ انہیں گرا بھی سکتے ہیں۔ لیکن جب نوئے کی دہائی میں اقتدار میں طاقت کے زور پر آنے کے باوجود حکمت یار کم از کم پشتونوں کے دل نہیں جیت سکے تو پاکستان نے منہ طالبان کی جانب موڑ لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تعلقات کی خرابی کے باعث انہیں ایران میں چھ سال تک پناہ لینی پڑی تھی۔ لیکن سال 2002 میں ایران کی جانب سے انہیں ملک سے نکالے جانے کے بعد کہاں منتقل ہوئے یہ واضح نہیں ہوا۔ بظاہر پاکستان سے تعلق کبھی بھی مکمل طور پر نہیں توڑا گیا۔

عسکری طور پر تو حکمت یار کی کامیابیاں کوئی زیادہ قابل ذکر نہیں لیکن سیاسی طور پر ان کی جماعت کافی منظم رہی اور اپنی حمایت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کی بڑی مثال کابل میں جمعے کے ایک بڑے اجتماع سے ان کا خطاب ہے۔ ہزاروں افراد کی جلسے میں شرکت نے کئی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا ہے۔ اس کی وجہ شاید پرچمی اور خلقی جماعتوں خصوصا طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد کسی مضبوط افغان پارٹی کا سامنے نہ آنا ہے۔ کئی امریکی اب یہ غلطی تسلیم کرتے ہیں کہ شاید 2001 میں طالبان کے جانے کے بعد اُنہوں نے شخصیتوں یا جنگی سرداروں کے بجائے اگر سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کی ہوتی تو آج افغانستان میں جمہوریت کی حالت قدرے بہتر ہوتی۔

حزب اسلامی کافی ہوشیار ثابت ہوئی۔ جنگی میدان میں موجودگی کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اس نے سیاسی میدان میں اپنی فعالیت بھی برقرار رکھی۔ ان کی جماعت ایک ایسی افغان جماعت ہے جو نسلی بنیادوں پر قائم نہیں بلکہ اس میں تاجک بھی ہیں اور ازبک بھی۔ مذہبی طور پر بھی اس میں بامیان کے شعیہ بھی شامل ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے بقول ان کی جماعت کا تعلق ‘گراس روٹ’ سے ہے۔ حکمت یار کے انٹیلیجنس سربراہ وحدی اللہ صباون نے 2002 سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ خالد فاروقی اور عبدالہادی ارغندوال جیسے رہنماؤں نے اسے کابل میں مستحکم کیا اور بعد میں کابینہ کا حصہ بھی بنے۔

پاکستان کے لیے حکمت یار کی نموداری کیا معنی رکھتی ہے۔ سینیئر صحافی سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے ان کا دوبارہ افق پر آنا مثبت ثابت ہوسکتا ہے۔ ‘پاکستان سے ان کا اب کوئی تعلق ہے یا نہیں اس سے قطع نظر حکمت یار کا انڈیا سے متعلق خصوصا کشمیر پر ماضی میں موقف کافی سخت ثابت ہوا ہے۔ وہ پاکستان سے جتنے بھی نالاں ہوں کم از کم انڈیا کا ساتھ نہیں دیں گے۔’
لیکن خیال ہے کہ اس نئے سیاسی منظرنامے میں انڈیا بھی ان سے رابطے اور تعلق بنانے کی کوشش ضرور کرے گا۔ فی الحال پاکستان کی پوزیشن مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ گھر پر بھی احسان اللہ احسان جیسے بدھو واپس لوٹ رہے ہیں اور سرحد پار بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp