زبان کو لگام دیں!


کچھ محاورے، کثرتِ استعمال سے بے اثر ہو جاتے ہیں مگر ان کی ضرورت ہر دور میں رہتی ہے۔ زبان کو لگام دینا اور پہلے تولو پھر بولو دو ایسے ہی محاورے ہیں جن کو اس قدر استعمال کیا گیا کہ اپنی افادیت کھو بیٹھے ہیں۔

دکھ اس بات کا ہے کہ اس کے باوجود، زبانیں بے لگام ہیں اور لفظ بے وزن۔

اس ملکِ خدا داد میں جہاں بولنے والوں کو اکثر سینسر اور قید و بند کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہیں وہ لوگ جن کا تعلق الفاظ سے صرف اس قدر ہے کہ اپنی ضروریات بیان کر نے کے لیے استعمال کرتے ہیں، بعض اوقات ایسی زبان استعمال کر جاتے ہیں جس پہ جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔

درے مارنے کا مشورہ دینے والے ہم کون ہوتے ہیں، مگر بات لفظی معذرت سے آگے کی ہو نی چاہیے۔

پچھلے ہفتے کی خبروں میں ایک نجی ٹیلی ویژن کے ایوارڈ شو میں میزبان نے بچوں پر جنسی تشدد کے سلسلے میں بننے والی سیریل کے ہیرو کو دیکھا اور جانے کیوں کہہ بیٹھے کہ اگر بچوں پر جنسی تشدد کرنے والا اتنا خوبصورت ہوتا ہے تو میں بھی وہ بچہ بننا چاہتا ہوں۔ ہال میں بیٹھے ہوئے سب محفوظ و مامون لوگ تکلفاَ ہنسے۔ ایک ایسی ہنسی جس میں بے حسی تھی اور بے فکری۔ بولنے والے پھر بولے اور ایک لولی لنگڑی معذرت حاصل کر لی گئی۔

ان ہی دنوں ہمارے ہر دل عزیز وزیرِ اعظم نے فرمایا ہماری وہ بہنیں جو کونے میں کھڑی ہیں ان بہنوں سے بہتر ہیں جو ہمارے مخالفین کے جلسے میں پتا نہیں کیا کر رہی ہوتی ہیں۔ اب شیر تو جنگل کا بادشاہ ہے اس سے معذرت کی امید کیا رکھیں؟ کونے میں کھڑے رہتے ہیں شاید مریم بی بی کے دور میں ہمیں کونے سے نکلنے کا موقع مل سکے؟

اسی دوران پی ٹی آئی کے ایک رکنِ اسمبلی نے شاید وزیرِ اعظم کی بات پر مٹی ڈالنے کی غرض سے کہہ دیا کہ فلاں محترمہ کو درست معلومات نہیں دی گئیں ذرا میرے چیمبر میں آئیے میں بتاتا ہوں۔ عمران خان نے فٹا فٹ ان کو دھمکایا۔

یہ سب کہنے والے نہ صحافی تھے اور نہ ہی تجزیہ نگار۔ ایک صاحب ایوارڈ شو کے میزبان تھے، دوسرے، وزیرِ اعظم اور تیسرے رکنِ اسمبلی مگر تینوں میں ایک قدرِ مشترک تھی، انھیں کمزوروں پر دھونس جما کر مزا آتا ہے۔

انسان اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہے۔ زبان کھلتے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ بظاہر خواتین، بچوں اور کمزوروں کے لیے شور مچانے والے ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جس میں صرف وہ ہوں اور ان کے اصول، خواتین ایک کونے میں کھڑی ہوں، جو سوال کرے اسے چیمبر میں بلا کر جواب دیا جائے۔ بچوں پر تشدد کرنے والا اگر خوبصورت ہے تو یہ بات اس بچے کے لیے عین راحت کا باعث ہے۔

یہ کون لوگ ہیں؟ کیا یہ اسی معاشرے میں رہتے ہیں؟ اگر یہ ہم میں سے ہی ہیں تو انھیں یہ باتیں کرتے ہوئے کسی قسم کی ندامت، خوف یا شرمندگی نہیں ہوتی؟ ہمارے ایک مرحوم دوست کہا کرتے تھے کہ زبان کا پھسلنا کوئی معمولی بات نہیں، ہر بار جب زبان پھسلتی ہے تو اس کے پیچھے سوچ کی غلاظت اور نظریات کے گٹر ہوتے ہیں۔

فرائیڈ کے نزدیک زبان کا پھسلنا ایک ایسی علامت ہے جس پر غور و فکر کرنے سے اس شخص کی سوچ اور اس کے پیچھے کارفرما تمام عوامل کا بخوبی علم ہو سکتا ہے۔

کسی خاتون کو اپنے چیمبر میں بلانے کی دھمکی دینا ثابت کرتا ہے کہ موصوف جنسی تشدد کو مخالفین کے خاموش کرانے کے لیے دوا سمجھتے ہیں۔

دوسری جانب میاں صاحب کا خواتین کو کونے میں کھڑا دیکھ کر خوش ہونا بھی یہ ہی ثابت کرتا ہے کہ جس معاشرے میں عورت محفوظ نہیں وہ کونے ہی میں رہے تو بہتر ہے ورنہ وہ چیمبر میں بلانے والے بھی یہیں پھر رہے ہیں۔ خود کو ایک خوبرو، شخص کے ہاتھوں جنسی تشدد کا شکار کرانے کی خواہش بھی اسی مائنڈ سیٹ کو مضبو ط کرتی ہے۔

یہ تینوں جملے ایک ہی ذہن کی عکاسی کرتے ہیں۔ خیر سے یہ سب اسی معاشرے میں ہو رہا ہے جہاں ایک صحافی کا پورا کالم غائب کر دیا جاتا ہے، صرف اس لیے کہ ا س نے سوچ سمجھ کر کچھ ایسا لکھا تھا جو ذہنوں کو جھنجھوڑ دے۔

پیمرا نے حال ہی میں ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے۔ جس میں ادیبوں کو مزید دھمکایا گیا ہے۔

جناب ہم تو پہلے سے ہی دھمکے دھمکائے لوگ ہیں۔ لے دے کے ساس بہو کا جھگڑا لکھ دیتے ہیں۔ آپ ذرا باقی لو گوں کی خبر لیجیے اور ایک ایسا ہی ہدایت نامہ معاشرے کے دیگر افراد کے لیے بھی جاری کیجیے۔ زیادہ لمبی بات نہ کریں بس اتنا ہی کہہ دیں کہ عزیز ہم وطنو! پہلے تولو، پھر بولو، زبان کو لگام دو اور مزید یہ کہ جو کہتا ہے وہ ہوتا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).