صحافت کرنی ہے تو اخلاقیات کو خداحافظ کہو (2)


اس کالم کا پہلا حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے

یہ حال اب ہر چینل کا ہے جہاں اب رپورٹر معیاری رپورٹنگ کرنے کے بجائے صرف خبریں بھرنے پر مجبور ہیں۔ جس کی زیادہ خبریں ہوں گی وہ سکندر کہلاتا ہے خبروں کی جانچ پڑتال اس کا اثر اس کا مستقبل کیا ہوگا اس کی کس کو فکر ہے۔ ایک اور روش جو ابھی چند برس قبل شروع ہوئی وہ یہ کہ جب بھی کوئی سیاسی دنگل ہو یا میلہ سجنا ہو تو خالی کرسیوں ، ویران شامیانوں اور ہو کا عالم چھائے جلسہ گاہ پر صبح سویرے ہی رپورٹر کو لائیو کے لئے کھڑا کردیا جاتا ہے اس مقام پر ہر چینل کی ڈی ایس این جی ایسے قطار در قطار دکھائی دیں گی کہ جیسے نہ جانے کیا ہوگیا ہو صبح سے شام تک جب تک جلسہ شروع نہ ہوجائے ہر بلیٹن کا پیٹ رپورٹر بھروا رہا ہوتا ہے۔لیکن جب پنڈال بھر جاتا ہے اور لیڈر اچھے موسم میں جلسہ گاہ پہنچ جاتا ہے تو بلیٹن کرنے والا اینکر اس جلسہ گاہ میں پورے پروٹوکول کے ساتھ اتار دیا جاتا ہے، دن بھر پسینہ بہاتے خود کو تھکاتے اور مشکلات جھیلتے رپورٹرز کو اس صفائی سے کوریج سے نکالا جاتا ہے جیسے بارات پہنچنے پر غریب رشتے دار پیچھے ہٹا دئیے جاتے ہیں جنھیں شادی کے منڈپ سجانے سے لیکر مہمانوں کو خوش آمدید تک کرنے پر مامور کیا جاتا ہے ۔ اس موقع پر اس رپورٹر کو ہٹا کر زیادہ تر ایسے اینکر کو جس نے کبھی رپورٹنگ کا تجربہ نہ رکھا ہو اچھے موسم میں جب اس کا لباس بھی شکن آلود نہ ہو میک اپ کی تہہ کو بھی نقصان نہ پہنچے اسکرین پر لایا جاتا ہے تو رپورٹر کو یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ اس کی اہمیت کسی بارہ کے پانے سے کم نہیں۔

بریکنگ کے نہ تھمنے والے سیلاب میں اب ایسی رپورٹس جنھیں دیکھ کر کوئی ناظر خوش ہوسکے اور یہ کہہ سکے یہ کہ تو میرے دل کو چھو گئی اب بھی کبھی کبھی بنتی ہیں لیکن ان کو ملنے والا آن ائیر ٹائم رات کے دو بجے سے صبح چھ بجے تک ہوتا ہے۔ اب نیوز چینلز خبروں سے نہیں ٹاک شوز میں لوگوں کی کردار کشی، لبادے اتارنے، الزام تراشیوں، غداری اور کافر قرار دینے کے سرٹیفیکیٹس جاری کرنے کی بدولت نہ صرف مقبول ہیں بلکہ ریٹنگ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان شوز کے اینکر دوسروں کو بدتر مسلمان اور ملک دشمن قرار دیتے ہوئے خود یہ نہیں سوچتے کہ دودھ کے دھلے تو وہ بھی نہیں۔ ایسے ایسے صحافی جو سابق جنرل اور صدرکے دور حکومت میں موجودہ وزیر اعظم اور خادم اعلی کی بیڈ روم کی کہانیاں پیش کرنے میں سب سے آگے تھے آج اسی وزیر اعظم کے غیر ملکی دورے پر جاتے ہوئے مضمون کا آغاز اس بات سے کرتے ہیں کہ جیسے ہی عزت ماب وزیر اعظم نے جہاز سے قدم باہر رکھا تو اس ملک کی خشک سالی ختم ہوگئی سو برس بعد بارش ہوگئی، ہوا کا جھونکا ان کے رخسار کو چوم کر جس سمت گیا اس خطے میں رزق کی فراوانی ہوگئی ۔ جہاں موجودہ حکمران کی شان میں قصیدے پڑھنے والے کم نہیں وہیں کچھ چینلز کو کسی نے کان میں آکر صور پھونک دیا ہے کہ اول آخر گیارہ بار خود کو نمبر ون کہہ کر سو بار پاک فوج زندہ باد کا نعرہ لگا کر اگر اپنے پروگرامز پر دم کردو گے تو قیامت آنے تک چینل بند نہیں ہوگا۔

دنیا حیران ہے بلکہ اب پریشان بھی کہ کیوں کہ انھوں نے دنیا کو دوسری جنگ عظیم میں جھونکنے والے ایڈولف ہٹلر کے وزیر اطلاعات جوزف گوئیبلز کا نام پراپیگنڈہ کے لئے مشہور تو سنا تھا لیکن آج تو زیادہ تر جوزف گوئیبلز کے بھی گرو بنے بیٹھے ہیں۔ وہ تو پروپیگنڈہ کا وزیر تھا آج ہر چینل نے اپنے پاس ایک ایسا شخص بٹھا رکھا ہے جو کسی بھی پیشہ وارانہ صحافی سے زیادہ نوٹ وصول کرتا ہے بلکہ جس نام، ادارے، شخصیت کو بدنام کرنے کا ٹیزر جاری کرے اس کی جان بخشی کے لئے بھی ڈبل وصول کرتا ہے۔ دنیا واقف ہے ان تمام ناموں سے جنھوں نے اس ملک کے رئیل اسٹیٹ کے بادشاہ سے پلاٹس اور زمینیں وصول کیں۔ آج وہی صحافی مسند سجائے سچی اور کھری صحافت کے درس دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ہر چینل کو صبح سے رات تک اپنے بلیٹن کا پیٹ بھر نے کے لئے خبریں وقت پر چائیے، اگر خبر نہ مل پائے تو خبر تخلیق بھی کروا دیتے ہیں، یہاں ایک چینل جسم فروشی کرنے والی عورتوں کو بے نقاب کرنے کا ڈرامہ رچا کر جہاں معاشرے کی اصلاح کرنے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہے وہی دوسرا چینل اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے راتوں رات قندیل بلوچ کو اسٹار بنا دیتا ہے۔ جی ہاں وہی قندیل بلوچ جسے پہلے ہر چینل نے خوب کوریج دی اپنے بلیٹن کو خوب رنگا رنگ بنایا اور جب اس نے اپنی بڑھتی مقبولیت پر چینلز کو اپنے طو ر پر ترجیح دینی شروع کی کہ کہاں پہلے جانا ہے کہاں بعد میں تو انھیں چینلز نے اپنے جی حضوری کرنے والے رپورٹرز سے جن کی صحافت پھیکے زردے میں پڑے شدید زرد رنگ جیسی رہی، جن کا قلم (ع) اپنے آشنا (ف )کے ساتھ فرار جیسی خبریں دینے میں گزری ان سے اس کی اصل شناخت نکلوا کر اسے بے امان اور غیر محفوظ بنا ڈالا۔ میں آج بھی یہ کہتی ہوں کہ قندیل بلوچ جو کر رہی تھی وہ غلط تھا لیکن اس میڈیا نے اسے اسٹار بنایا ، نوٹ کمائے،نام نہاد ریٹنگ میٹر پر ریٹنگ کے ریکارڈ توڑوائے اور پھر کفن پہنا کر رخصت کر دیا۔

وہ صحافت جو اخلاقی تقاضوں کے ترازو پر پوری اترتی ہو یہ اجازت نہیں دیتی کہ آپ کسی کی اصل شناخت (پاسپورٹ، شناختی کارڈ، دستاویزات) کو منظر عام پر لاکر اس کی جان کو خطرے میں ڈال دیں۔ لیکن یہ ہوگا کیونکہ جب ملک کے بڑے معتبر اخبار جی حضوری صحافی کے زعفرانہ مضامین چھاپیں گے، کوئی جید صحافی عمران خان اور ریحام خان کی بند کمروں کی کہانیاں پرائم ٹائم میں سنائے گا، کوئی کالمسٹ جب ایک خاتون کو مادر ملت بنائے گا، جب کوئی جرگہ سجا نے والا اپنے شومیں ہزاروں لوگوں کے قاتل احسان اللہ احسان کو ٹی وی پر ایسے پیش کرے گا جیسے وہ کوئی ہیرو ہو، کوئی ناکام فلم ساز اور سچ کا داعی اینکر اگر اپنے پروگرام میں ریحام خان کے سابقہ شوہر کو لے کر بیٹھ کر انکے ماضی کو کریدنے کے بعد پروگرام کا اختتام اس بات پر کرے گا کہ میں آپ کو وارننگ دیتا ہوں کہ میرے خلاف کچھ نہ بولیں ورنہ میں اور بھی سچائیاں سامنے لاوں گا یا کوئی ہر فن مولا اینکر لوگوں کے بخیے ادھیڑ کر کہے گا کہ ہاں بھئی ایسے نہیں چلے گا۔ تو آپ اس رپورٹر کو کیسے روکیں گے جو ایکسکلوزو کے چکر میں جذباتی ہوکر ایدھی صاحب کی قبر میں لیٹ گیا، اس رپورٹر سے کیسے پوچھیں گے کہ ائیر پورٹ حملے پر تم نے جہاز تباہ کروا دیے تھے لیکن جہاز تو سلامت ہیں، اس رپورٹر کو کیسے پوچھیں گے کہ تم نے جرات کیسے کی ایدھی سینٹر میں رہنے والے معصوم عبداللہ کو رلانے کی؟ اس رپورٹر کو کیسے روکیں گے تو جائے وقوعہ سے رپورٹ کرنے کے بجائے جانبدارانہ تجزیہ پیش کرنے لگ جائے۔

آج صحافی کو قلم ڈھونڈنا پڑتا ہے خبر واٹس ایپ پر آتی ہے، آج اسائنمنٹ ایڈیٹر فون پر خبر لکھنے کی زحمت نہیں کرتا واٹس ایپ پر مانگتا ہے۔ آج صحافی سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہ کو خبر بنا کر ڈیسک کو دے دیتا ہے اور یہ تحقیق کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتا کہ خبر درست بھی تھی یا نہیں۔ کیونکہ اس کو معلوم ہے جہاں وہ کام کر رہا ہے وہاں مالکان کو خبر نہیں سنسنی چائیے، شام کو ہونے والے ٹاک شوز میں ” ڈاگ فائیٹ” چائیے اسے روتی ہوئی ماں کی آہ وبکا، جوان بیٹے کا لاش اٹھانے کے چند منٹ بعد باپ کا شاٹ چاہیے، غیرت کے نام پر مرنے والی بہن کی دیگر بہنوں کے خوفزدہ برہنہ چہرے چائیے تو کچھ نہ ملے تو بھارتی ناری ڈاکٹر عظمی اور اسکے مبینہ شوہر طاہر علی کی ذاتی واٹس ایپ چیٹ چائیے۔ کیونکہ جب سے ایان علی دبئی اڑان بھری ہیں بلیٹن کی دلکشی اور رعنائی میں کمی ہوئی ہے ورنہ اس کے حسن کو دیکھ کر تڑپنے والے جہاں کچہری میں ہوتے تھے وہیں کئی پنج وقتہ نمازی و بے نمازی پروڈیوسرز آیان علی کی فوٹیجز ایڈیٹنگ پر لگی دیکھ کر سرگوشی میں این ایل ای سے پوچھتے تھے کیا آج بھی آنچل سرکا تھا؟ ظالم پر گلابی رنگ جچتا بڑا ہے۔ رال ٹپکاتے خبروں کے یہ سوداگر جب من پوجا کر لیتے ہیں تو لہجے میں سختی لا کر کہتے ہیں جلدی بنا دو یہ پیکج بلیٹن کی ہیڈ لائن میں ہے ایک تو تم ہڈ حراموں سے وقت پر کبھی کام نہیں ہوا لیکن تنخواہ وقت پر چاہیے۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments