مشال کیس، اے این پی سے چند سوالات


ہفتہ رفتہ میں پختونخواجانا نصیب ہوا تو ایسا محسوس ہوا کہ پورا صوبہ مشال خان کے قتل کے واقعہ کے تاحال زیراثر ہے۔ عام لوگوں کی بات تو نہیں کرتے مگر جو صاحبانِ فکرونظر ہیں خواہ ان کا تعلق سیاست وتعلیم سمیت زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہو، ان کی غالب اکثریت دل گرفتہ ہے۔ واقعہ میں سیاسی ومذہبی جنونیوں کا کردار کیا تھا یا سماج نےکس بے حسی وپتھر دلی کا مظاہرہ کیا ہم اپنے گزشتہ ایک کالم میں ان نکات پر آپ سے بات کر چکے ہیں لہٰذا زیرنظر سطور اے این پی وپختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن پر لگنے والے ان الزامات تک محدود رکھی جائیںگی جو واقعہ کے بعد ان پرعائد کئے گئے۔ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ ایک ایسا تعلیمی ادارہ جو بنیادی انسانی حقوق کی خاطر جدوجہد میں کسی بھی پاکستانی رہنما سے زیادہ قیدوبند اور مصائب وآلام سہنے والے خان عبدالولی خان سے موسوم ہے اس میں ایک طالبعلم وحشیانہ طور پر قتل ہوا ۔ معاملے کی اصل تک پہنچنے کیلئے چونکہ قانون بروئے کار ہے لہٰذا زیربحث یہاں محض وہ طرز عمل ورویئے ہیں جو اس واقعہ کے بعد مذکورہ تنظیموں نے اپنائے۔ ہمارے علم میں یہ بات لائی گئی ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ وتدریسی شعبوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہیں اے این پی نے اپنے دور میں ملازمتیں فراہم کی تھیں۔ ظاہر ہے اس جماعت نے بھی دیگر جماعتوں کی طرح کلی طور پر نہ سہی پھر بھی سیاستی وابستگیوں کو ترجیح ضرور دی ہو گی۔ اب تک جو واویلا مچا ہےاس میں یونیورسٹی انتظامیہ کی نااہلی بلکہ واقعہ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کا تاثر سب سے نمایاں ہے۔ اگر ایسا ثابت ہو جاتا ہے تو کیا پھر یہ سوالیہ نشان نہ ہو گا کہ اےا ین پی نے ایسی فوج ظفر موج کس نظریئے کے تحت بھرتی کی تھی جو باچا خان اورولی خان جیسے بے داغ اصحاب کی جماعت پر کالک ملنے کا سامان بنی۔ پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن یونیورسٹی میں سب سے مؤثر تنظیم ہے، حالیہ ’’چل چلائو‘‘ کے دور جو طلبہ تنظیموں کے سنہرے دور کے بعد تاحال نازل ہے۔ اس موقع پرست دور کو چھوڑ کر ہم نے ہر دور میں پختون ایس ایف کو ایک فکر، نظریئے اور ضابطے کا پابند پایا ہے۔ یوں یہ امر واضح ہے کہ اس دائرے میں کسی درندگی وبےحرمتی کا تصور بھی محال ہے ۔ بنابریں اگر پختون ایس ایف پر جیسا کہ الزام ہے وہ اس سے بری الذمہ بھی ہو جائے تو کیا پختون ایس ایف نے اس موقع پر وہ کردار ادا کیا ہےجو اس تنظیم کو دیگر تنظیموں سے ممتاز بناتا ہے۔ یعنی ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی داد رسی… مگر یہاں تو حال یہ تھا کہ اے این پی کے وہ لیڈر جو پارلیمانی سیاست کی ضرورتوں کے پیش نظرشادی وغمی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ،وہ بھی جنازے میں شرکت تو کجا، تعزیت کیلئے بھی جانے میں تذبذب کا شکار تھے! سوال یہ ہے کہ کیوں؟ اس انسانیت سوز واقعہ کے بعد عبداللطیف آفریدی اے این پی کے وہ پہلے مرکزی رہنما تھے جو مشال خان کے گائوں زیدہ صوابی پہنچے اور وہ عبدالرحمان کے ہمراہ تعزیت کیلئے مشال خان کے والد اور معروف انقلابی شاعر اقبال کاکا کے گھر گئے۔ عبدالرحمان 90 کی دہائی میں پختون ایس ایف سندھ کےصدر تھے اور کراچی میں کینیا ہاسٹل گلشن اقبال کے قریب ساتھی عبدالحمید کانسی کے ہمراہ گولیوں کا نشانہ بنے تھے ۔ ایک گولی ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کر گئی تھی جس کی وجہ سے وہ اب ویل چیئر پر ہیں۔ یہاں کہنا یہ ہے کہ عبدالرحمان ویل چیئر پر اور عبداللطیف لالہ دور افتادہ خیبر کے علاقے سے تعزیت کیلئے پہنچ جاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ دو قدم کے فاصلے پر مردان میں بیٹھے قائدین کو آخر کونسی مصلحت یا معذوری لاحق تھی کہ وہ مظلوم کی ڈھارس بندھانے کیلئے بروقت نہ آسکے؟ وہ پہنچے مگر کافی تاخیر سے، اتنی دیر سے آنے میں آخر کیا عوامل کارفرما تھے۔ کیا کوئی خوف یا مصلحت یا پھر کوئی شرمندگی دامن گیر تھی۔
ہم جب پختونخوا جاتے ہیں تو بٹ خیلہ (ملاکنڈ) میں پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق مرکزی جنرل سیکرٹری خورشید علی خان کے حجرے میں پڑاؤ ڈالتے ہیں، یہاں صوبے کے دیگر علاقوں سے پرانے دوست جمع ہو جاتے ہیں، ہم کچہری لگاتے اور زمانہ طالبعلمی کی سنہری یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔ یہاں بالخصوص پختون ایس ایف سندھ کے ہمارے دور کے صدر سعید خان خلیل اور مرکزی پریس سیکرٹری محمد علی شاہ (شاہ صاحب) اور سید سلطان صاحب نے جن خیالات کا اظہار کیا یا کوہاٹ میں اے این پی کے ضلعی صدر جاوید خٹک اور ضلع کرک کے سابق صدر اور ہمارے کراچی کے کامریڈ عثمان خٹک نے جو استدلال پیش کئے اُن سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ بالغ النظر دوست ہیں ،ضیاء استبداد کے خلاف جن کی قربانیاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ الزامات حمایت مایار کی روز افزوں مقبولیت کو نکیل ڈالنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔یہ یا د رہے کہ اس واقعہ میں اے این پی مردان کے ضلعی صدر وضلعی ناظم حمایت مایار کا بالخصوص نام لیا جا رہا ہے۔ مذکورہ دوستوںنے تحریک انصاف کی گرتی ہوئی مقبولیت اور صوبے بھر میں اے این پی کی تیزی سے سبقت کے حوالے سے دلائل دئیے ،اُن کا کہنا تھا کہ واقعہ کے بعد اے این پی کے خلاف برق رفتار زہریلا پروپیگنڈہ دراصل اے این پی کی مقبولیت کی پیش قدمی کے خلاف پیش بندی ہے۔ ہم نے کرک، کوہاٹ، مردان، ملاکنڈ اور پشاور میں دیگر جماعتوں کے اہل فکر و نظر کو بھی حمایت مایار کی حمایت میں بولتے دیکھا۔ راقم بھی جانتا ہے کہ حمایت مایار مرنجان مرنج شخصیت کے مالک ہیں اور رکن قومی اسمبلی بھی اپنی ہر دلعزیزی کی وجہ سے بنے تھے۔ حمایت مایار کی بردُبادشخصیت کے تناظر میں اُن پر لگے الزامات پر یقین کرنا مشکل امر ہے۔سانحہ کے فوری بعد راقم کو ایک صحافی دوست نے بتایا تھا کہ دراصل یونیورسٹی انتظامیہ کے بعض ہر کارے اور طلبہ تنظیموں کے نام نہاد رہنما مشال خان کی حق گوئی سے خائف تھے، وہ محض سبق سکھانا چاہتے تھے لیکن بلوہ برپا ہوا اور یوں وہ ظلم ہوا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ائول روز ہمیں سعید خان خلیل نے بتایا تھا کہ امیر حیدر ہوتی کے دور میں شاہکار تعلیمی ادارے معرضِ وجود میں آئے اور بیشتر باچاخان اور ولی خان سے موسوم ہوئے۔ یہ نام بعض عناصر کیلئے قابلِ قبول نہیں، لہذااے این پی کی حکومت کے جاتے ہی ان تعلیمی اداروں کیخلاف سازشیں شروع ہوئیں۔یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب عمران خان نے میڈیا کوبتایا کہ مشال خان کے والدنے یونیورسٹی کے نام کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے، توراقم نے عبدالرحمٰن خان سے رابطہ کیا ، انہوںنے بتایا کہ میںنے اقبال کاکا سے خود استسفارکیا ہے ، اُن کا کہنا ہے کہ میں نے انصاف کی فراہمی کے علاوہ کوئی اور مطالبہ کیا ہی نہیں ہے۔ پشتو کی کہاوت ہے کہ جب تک سچ پہنچتا ہے جھوٹ گائوں کے گائوں اجاڑ چکا ہوتا ہے، کہیں یہاں بھی ایسا تو نہیں ہوا…..!

بشکریہ روز نامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).