تصویرو تصویر ہوتے عوام


(عظمی ذوالفقار)

فرض کیجئیے آپ کسی محفل میں موجود ہوں سامنے لوازمات طعام رکھے ہیں۔ اب گھنٹے دو گھنٹے کی محفل میں آپ کی نظر ذرا دور پڑے ایک آدھ بار ماکولات و مشروبات پہ چلی گئی اور کیمرے کی آنکھ نے وھی ایک لمحہ محفوظ کر لیا۔ اور صبح اس ’ثبوت‘ کے ساتھ اپنے سوشل سرکل میں اپنے ندیدے پن کے قصے زبان زد عام وخاص پائیں تو آپ کا جی کس کے بال نوچنے کو چاہے گا؟

اب کھانے کی جگہ لڑکی رکھ کر یہی سین پھر سے فرض کریں۔ تو آپ کے سرٹیفائڈ ٹھرک پن کو کوئی مائی کا لال چیلینج کرکے تو دکھائے۔

یہ ہے ہماری جنرل اپروچ کی ایک ہلکی سی جھلک!

جبکہ سب جانتے ہیں کہ سامنے آنے والی تصویر انسان کی پوری زندگی نہی، بلکہ ایک لمحے کا بھی بہت چھوٹا سا حصہ ہے، جب اسپر اس اللہ مارے کیمرے کی آنکھ پڑی۔ تو کیا اس آدھے سے لمحے کی بنا پر، ایک بہت ماہر ریاضی دان کی طرح انسان کی پوری زندگی کا حساب کتاب نکال کر اس کے ہاتھ پکڑانا دانشمندی کہلاے گی؟

اس حقیقت سے بھی سب واقف ہیں کہ ایک ہی چیز دیکھ کر ہر انسان اپنے اپنے ذہن اور حالات کےمطابق اس کے مختلف معنی نکال سکتا ہے۔ آدھے بھرے یا آدھے خالی گلاس میں سے کس کی رائے کو مقدم جانیں؟

محروم اور کاہل طبقے کی ایک اور نشانی بتاوں؟ کان ادھر لائیے ذرا۔ وہ جب کسی عہدے یا عزت کو پا نہیں سکتے، یا جس سے اختلاف رکھتے ہیں تو اس کا تیسرے درجے کا مذاق بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ یقین نہیں تو ابھی ’پاکستانی پالیٹکیکل فگرز‘ گوگل کیجیے۔ وزیر مشیر سے لے کر لیڈرز تک سب پھٹے پرانے کپڑوں میں یا بندر نما فوٹو شاپڈ حالت میں ملیں گے۔ مزید ذوق کی تسلی کرنی ہو تو جن مردوں کو خواتین کا روپ دیا گیا ہو وہ دیکھ لیجیے۔ مذاق اور تحقیر میں فرق جان کر جیو لوگو۔ بچپن میں سنا تھا۔

”آپ کسے جئی نا، تے گل کرنوں رھی نا“

تو میرے بھولے عوام!

یہ ناتمام حسرتیں فوٹو شاپ میں لگانے کی بجائے آخر خود کچھ مثبت کرنے کا بھی سوچا ہے کبھی؟

تصویروں پر فتوے لگا کر دوسرے کو کچھ بھی ثابت کرنا بہت ہی بچگانہ کھیل ہے۔ اب بڑے ہو جائیں اور بڑوں والے کھیل کھیلیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).