بدعنوانی کا قومی بیانیہ


معمول کی سیاسی رپورٹنگ کے دوران انیس سو پچانوے میں وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر سے مجھے ایک خصوصی خط ملا جو اصل خط کی مصدقہ نقل تھی جسے ایک سرکاری اہلکار نے ریکارڈ کے طور پر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ خط کے مندرجات بہت دلچسپ اور فکر انگیز تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک معززجج صاحب نے اپنی دفتری خط کتابت کے لیے مخصوص ایک صفحہ پر تحریر کیا تھا” جناب وزیراعلیٰ پنجاب محترم و مکرم میاں منظور احمد وٹو صاحب، آپ کے بھتیجے(میرے بیٹے) نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرلیا ہے،اس کے لیے آپ سے بہتر کون ہے جو اچھی اور پُر کشش ملازمت کا بندوبست کرسکتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کو تحصیلدار لگا دیا جائے۔ تحریر کے اختتام پر واضح الفاظ میں لکھا تھا”آپ کی بھابھی بھی سلام کہہ رہی ہے ۔ آپ کا تابع دار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ والسلام“

بنیادی طور پر یہ ایک نیم سرکاری نجی خط تھا جس میں وزیراعلیٰ پنجاب سے اپنے بیٹے کی ملازمت کی درخواست کی گئی تھی دیگر مندرجات میں خاندانی تعلقات کی ایک واضح جھلک بھی نظر آتی تھی۔ بہرحال یہ معلوم نہ ہوسکا کہ مذکورہ خط کے ساتھ اُس وقت کے وزیراعلیٰ میاں منظور احمد وٹو نے کیا سلوک کیا لیکن بات اس حد تک واضح ہوگئی کہ ہمارے ہاں نہایت ارفع اور معزز گردانے جانے والے بعض انتہائی اہم عہدیدار بنیادی طور پر کس قسم کی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور اُن کی نجی ضروریات کس درجے کی ہوتی ہیں۔ بعد میں ہم نے پڑھا کہ کس طرح بعض عالی مرتبت جج صاحبان نے اپنی یادداشتوں میں تحریر کیا کہ جب وہ اعلیٰ منصب پر موجود تھے اُس وقت سیاسی عہدیداروں کے ساتھ اُن کے تعلقات کی نوعیت کیا تھی،حتی کہ جب وہ ایک مرتبہ کھانا کھا رہے تھے تو ایک وزیراعلیٰ نے کس طرح اُن کی پلیٹ بوٹیوں سے لبالب بھر دی تھی اور پھر ایک عدد لفافہ بھی عنایت کیا تھا۔ نہایت اہم نوعیت کے سیاسی مقدمات کے بارے میں کچھ ریکارڈ شدہ فون کالیں بھی ہم سب نے سن رکھی ہیں اورمجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ محترمہ بےنظیر بھٹو نے اپنے ایک انٹرویو میں اس سوال کا کیا جواب دیا تھا، جب اُن سے پوچھا گیا کہ آپ جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب جن کی ملازمت ابھی چند مہینے باقی ہے،اُن سے کیسے ڈیل کریں گی؟ محترمہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئیں اور فرمایا۔ مجھے معلوم تھا کہ شاہ صاحب ہمارے لیے مسائل کھڑے کریں گے اس لیے ایک دن میں نے اُن سے ملاقات کی اور کہا کہ شاہ صاحب آپ زبردست مقرر ہیں اورتنازعہ کشمیر پر آپ کی نظر بہت گہری ہے۔ اگر آپ مسئلہ کشمیر پر عالمی رائے ہموار کرنے کے لیے بین الاقوامی سفر کریں اور دنیا کے مختلف فورمز پر اس مسئلے کو اُجاگر کریں تو ہماری حکومت آپ کے تمام اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہے۔ یہ سن کر شاہ صاحب بہت خوش ہوئے اور شکریہ ادا کرکے باہر نکل گئے۔ چند ہی لمحوں بعد دوبارہ کمرے میں داخل ہوئے اور کہا کہ اگر میں اپنی اہلیہ کو بھی ساتھ لے کر اس مشن پر نکلوں تو کیسا رہے گا۔ محترمہ نے ہنستے ہوئے کہا کہ حکومت نے اس مشن کے لیے جو فنڈز مختص کیے ہیں اُن کو دوگنا کردیا جائے گا۔

پنجاب میں میاں منظور وٹو کی حکومت ختم کی گئی تو ایک گمنام سیاسی شخصیت عارف نکئی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جناب عارف نکئی کو ایک رات پہلے بتادیا گیا کہ صبح آپ وزارت اعلیٰ کا حلف اُٹھائیں گے۔ میاں منظوروٹو نے فوری حکم جاری کیا کہ ان کے دفتر کا عملہ پوری رات دفتر میں حاضر رہے گا۔ وزیراعلیٰ سیکرٹیریٹ کے عملے کو فوری طور پر دو طرح کے اُمور کی سرانجام دہی کا حکم ملا۔ اول وہ تمام ریکارڈ جس کی نقول دوسرے صوبائی محکمہ جات میں موجود نہیں اُس کو فوری طور پر ایک جدید مشین میں ڈال ریزہ ریزہ کردیا جائے۔ دوئم وزیراعلیٰ کے صوبدیدی فنڈ میں موجود رقم کو صبح ہونے سے پہلے پہلے وزیراعلیٰ اور اُن کے قریبی رفقا کے منتخب کردہ”مستحقین“ میں تقسیم کردیا جائے۔ بالکل یہی کام کچھ عرصہ بعد عارف نکئی اور اُن کے دفتر کے عملے نے کیا اور آج تک کوئی نہیں جان سکا کہ وزیراعلیٰ کے پاس کتنے صوابدیدی فنڈز تھے اور اُن کو کس طرح بانٹا گیا۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو آج تک پاکستان میں رائج ہے اور وزرائے اعلیٰ پوری قوت کے ساتھ عوام کے پیسے کے ساتھ من چاہا سلوک کرتے آئے ہیں۔ یہ بدعنوانی کی ایک ایسی ”اختیاراتی قسم“ ہے جس کو قواعد و ضوابط کے ساتھ گوند دیا گیا ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کچھ ہوا ہی نہیں لیکن اگر جزئیات تک رسائی حاصل ہو تو اس قسم کے انکشافات سامنے آتے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں ایک عام آدمی سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کی ہوش ربا داستانوں سے واقف ہے اور وہ اتنی زیادہ ہیں کہ عام طور پر دیگر لاتعداد اقسام کے بدعنوانوں کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔ لیکن پاکستان میں مجموعی طور پر بدعنوانی ایک ایسی کثیرالجہت روایت بن کر سامنے آئی ہے کہ بعض اوقات تصور کی بھی ٹانگیں کانپ جاتی ہیں کہ اس طرح بھی کرپشن کی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں کرپشن کو اس قدر پسندیدگی کا مقام حاصل ہے کہ رشک آنے لگتا ہے۔ اگرقومی مراتب کی ایک قومی فہرست تیار کی جائے اور اس فہرست کو عہدہ جاتی مقام کی مناسبت سے ترتیب دیا جائے تو یقین کریں کہ پاکستان کے سابق صدور مملکت، وزرائے اعظم، فوج کے سربراہان، اعلیٰ فوجی عہدیداران، عدالتوں کے جج صاحبان، سابق وزراء، گورنر صاحبان، اعلیٰ بیوروکریسی، جناتی قسم کی کاروباری شخصیات، سفارت کار، ممتاز اور محب وطن صحافی، قومی سطح کے دانش ور،عظیم شعرا، سرکاری و نیم سرکاری علماء حضرات، بین الاقوامی شہرت کے حامل کھلاڑی،چمکدار شخصیت کے مالک فنکار،عظیم میڈیا مالکان غرض تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اور ملک پاکستان کا سرمایہ سمجھے جانے والے خواتین و حضرات کے ذاتی اثاثوں کی چھان بین کا کوئی سائنسی طریقہ کار ایجاد کرلیا جائے توپھر مزید کسی جے آئی ٹی کی ضرورت نہیں پڑے گی اور بدعنوانی کی ایک ایسی قومی دستاویز تیار ہوگی جس کو انسداد بدعنوانی کا نیا عہد نامہ قرار دیا جاسکے گا۔

ہمارے ہاں اس طرح کاایک طاقت ور تصور موجود ہے کہ اگر اقتدار میں کسی قسم کی موجودگی یا حصہ داری کا موقع میسر آئے اور وہ خوش قسمت شخص اپنے لیے اضافی دولت اکٹھی نہ کرسکے تو یہی سمجھا جائے کہ وہ نالائق تھا یا پھر حد درجے کا بزدل نما ایماندار، جو فائدہ اُٹھانے سے قاصر رہا۔ اس ”خوش قسمت“ شخص کے عزیزواقارب اور دوست احباب یہ اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ واہ کیا بےوقوف انسان ہے جہاں یار لوگوں نے اتنا کچھ بنالیا یہ وہیں کا وہیں رہا۔ دوسرے لفظوں میں اس کو ایک جیتے جاگتے مردہ انسان سے تشبیہہ دی جائے گی اور یہ عین ممکن ہے کہ اُس کی جگہ دوسرے لوگ کف افسوس ملتے نظر آئیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ضیاالحق کو جب فرقہ پرستی کے آسیب نے گھیرا ڈال لیا تو اُس نے فوری طور پر زکوة عشر آرڈیننس جاری کردیا اور تمام پاکستانی مسلمانوں کو پابند کردیا کہ وہ سرکاری خزانے میں زکوة و عشر جمع کروائیں۔ ملک کے اہل تشیع عوام نے اس آرڈیننس کی مخالفت کی اور ریاست کو زکوة دینے سے انکار کردیا تو ناچار ضیا الحق کو اس آرڈیننس میں ترمیم کرنا پڑی جس کے تحت فقہ جعفریہ کے ماننے والے ایک حلف نامہ جمع کرواکر زکوة کی سرکاری خزانے میں کٹوتی سے بچ سکتے تھے۔ پھر کیا تھا پورا ملک دیکھتے ہی دیکھتے حلف نامہ جمع تیار کرکے اہل سنت سے اہل تشیع میں بدل گیا۔ میرے ایک پولیس میں عہدیدار دوست نے بتایا کہ ان دنوں ہم نے کئی ایسے فرقہ پرست افراد کو گرفتار کیا جن پر اہل تشیع کے قتل جیسے الزامات تھے لیکن سرکاری ریکارڈ میں وہ افراد خود شیعہ تھے،وہ عدالتوں میں اپنے حلف ناموں کی کاپیاں دکھاتے کہ وہ خود شیعہ ہیں اور کس طرح ایک دوسرے شیعہ بھائی کو قتل کرسکتے ہیں؟

بعد میں لاتعداد ایسے شواہد دیکھنے کو ملے کہ کس طرح بیت المال کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ مل کر طاقت ور افراد نے زکوة و عشر فنڈ میں بڑے بڑے گھپلے کیے اور عوام کی دولت کو لوٹ لیا گیا۔ ایک سابق آئی ایس آئی چیف کو ملازمت سے سبکدوش کے بعد اقلیتوں کی چھوڑی ہوئی املاک کے انتظام کے حامل ادارے کا سربراہ لگادیا گیا جنہوں نے اس غیر مسلم املاک کی اس ایمانداری کے ساتھ تقسیم کی کہ بدعنوانی کی تمام تعریفیں متروک ہو گئیں۔ متروکہ وقف املاک بورڈ اور اسی طرح وقف املاک بورڈ جیسے محکموں کا سابقہ ریکارڈ شاہد ہے کہ بدعنوانی کو روک دینے کی طاقت شاید کسی مذہب اور مسلک کے ماننے والوں میں موجود نہیں۔ انتہائی متقی اور ایمان کی طاقت سے لبالب بھرے نظر آنے والے طاقت ور عہدیداروں نے بدعنوانی اور رشوت ستانی کے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں۔ یہی صورت حال مضاربہ کمپنیوں اور کئی مقدس اشاعتی اداروں کے ہاں بھی موجود رہی ہے جو قرآن پاک کی اشاعت جیسے بظاہر مقدس کاموں میں مصروف تھیں لیکن کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ اِن اداروں نے ملک کی بیواﺅں اور یتیموں کی دولت بھی ہڑپ کرلی ہے۔

جہاں اعلیٰ ملازمتوں پر موجود لوگ کمائی والے عہدوں پر فائز ہونے کے لیے کروڑوں اربوں روپیہ رشوت دیتے ہوں وہاں اُنہی کے ہاتھوں شفاف احتساب کی توقع رکھنا کیسی سادگی ہے؟ جہاں ایک اعلیٰ عہدیدار یہ نہیں جانتا کہ اُس کے بیوی بچوں کے استعمال کے لیے انتہائی قیمتی گاڑیوں جیسے تحائف کہاں سے آ رہے ہیں؟ اُس کی ملک بھر میں پھیلی ہوئی رہائش گاہوں میں آسائش کی چیزیں کون فراہم کررہا ہے؟یہ سب کچھ دیکھتے ہی دیکھتے ہوجاتا ہے وہاں قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب چہ معنی دارد؟عطار کے لونڈے والی مثال کو کہاں کہاں صادق آتی ہوئی نہیں دیکھا جاسکتا؟جہاں انتہائی موثر قرار دئیے گئے قومی دانش ور اور ٹیلی ویژن پر ہر وقت چھائے نظر آنے والے نہایت بے باک تجزیہ کار اور میزبان جناتی سرمایہ داروں اور بڑے عہدیداروں سے کاریں اور کوٹھیاں مانگتے نظر آئیں اور اسلام آباد کے مضافاتی علاقوں میں ایکڑوں پر محیط فارم ہاوسز کے مالک ہوں۔ اِ ن سے توقع رکھی جائے کہ وہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت اور اس کے تمام ذمہ داروں کو بے نقاب کریں گے؟ کتنا اذیت ناک اور مضحکہ خیز تصور ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).