وسعت اللہ خان معاشرے کا ضمیر ہیں


جناب وجاہت مسعود صاحب اور جناب عدنان خان کاکڑ صاحب نے ‘ہم سب’ کیلئے ملاقاتوں اور انٹرویوز کا جو نیا سلسلہ شروع کیا ہے اس کیلئے آپ حضرات یقیناً داد کے مستحق ہیں۔ مولانا محمد احمد لدھیانوی اور مولانا فضل الرحمٰن کے انٹرویوز کے بعد اس سلسلے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا کہ جن کے باعث بیمار ہوئے انہیں سے دوا لینے پہنچ گئے مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ضروری تھا۔ ان کے خیالات کو جاننا اور انہیں باور کرانا کہ ملک اس وقت جس قسم کی گھٹن سے گزر رہا ہے اس میں علمائے کرام کو آگے آ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مگر اب معروف کالم نگار وسعت اللہ خان صاحب کا انٹرویو کرکے ہم سب نے اپنے اس سلسلے کو معتبر بنا دیا ہے۔ ‘ہم سب’ کے قارئین یقیناً آپ کے اس اقدام کو قدر کی نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ آپ نے ایک بڑے آدمی کے خیالات براہ راست ہم تک پہنچائے ہیں۔ اس انٹرویو میں بہت ہی نپے تُلے سوال پوچھے گئے اور جوابوں نے تو انٹرویو کو قوسِ قزح ہی بنا دیا۔

انٹرویو کے پہلے حصے میں ملک کی مجموعی صورت حال پہ بہت معنی خیز گفتگو ہوئی۔ پاکستانی معاشرہ اس وقت جس اندرونی خوف، کنفیوژن اور فکری انارکی کا شکار ہے اس کے اسباب کا کھوج نہایت خوبصورتی سے لگایا گیا ہے۔ ہمیں سپلٹ پرسنالٹی کے سنڈروم سے نکل کر یہ واضح کرنا ہوگا کہ ہم چاہتے کیا ہیں۔ ہمیں کس طرح کا معاشرہ چاہئیے، ہمیں سمت کا تعین کرنا ہوگا۔ موجودہ حالات تو اس قدر مایوس کن ہیں کہ فی الحال ہم مستحکم ہی نہیں ہیں، مسلسل بھاگ رہے ہیں اور جانا بھی کہیں نہیں چاہ رہے۔ اس عدم استحکام میں ہم نیا نظام بنانے کی داغ بیل کیسے ڈال سکتے ہیں؟ پہلے اپنا توازن درست کرلیں، کسی ٹریک پہ آ جائیں، کسی سمت کا تعین کرلیں، پھر چاہے اس سمت میں بھاگنا شروع کر دیں یا آہستہ آہستہ چلنا لیکن پہلے یہ تو پتہ چلا لیں کہ جانا کس طرف ہے۔

دوسرے حصے میں ادب اور ادیبوں کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے۔ اس حصے میں 1936ء کی تحریک کے حوالے سے بات ہوئی ہے۔ آپ نے صحیح فرمایا کہ 36ء میں منظر عام پر آنے والے ادیب اچانک سامنے نہیں آ گئے، انہوں نے اس سے پیشتر بے حساب محنت کی۔ مطالعہ کیا، تراجم کئے، علم کو اپنے اندر اتارا۔ اسی ہوم ورک کا نتیجہ تھا کہ یہ سارے بڑے بڑے نام اس دور میں پیدا ہوئے۔ آج کے دور میں اس ہوم ورک کا شدید فقدان ہے۔ جنہیں چپ رہنا چاہئیے وہ بول رہے ہیں اور جنہیں پڑھنا چاہئے وہ لکھ رہے ہیں۔ اور پھر میڈیا میں آج کل جو جگالی کی جا رہی ہے اس کا ذکر بہت خوبصورت پیرائے میں کیا گیا ہے۔ میری بھی یہی رائے ہے کہ آج انفارمیشن ہی انفارمیشن ہے جو بندے کو صرف کھپاتی ہے۔ تحصیلِ علم کا کام تو اب کسی معرکے سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی نسل سے صحیح معنوں میں لکھا پڑھا شخص خال خال ہی برآمد آتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں کہ لکھنے والے کم ہو گئے ہیں، صرف معیاری لکھنے والے کم کم ملتے ہیں لیکن لکھا جا رہا ہے اور کسی حد تک پڑھا بھی جا رہا ہے۔ پڑھنے اور لکھنے کے انداز اور زاویے بدل گئے ہیں۔ ہم ڈیجیٹل ایج میں جی رہے ہیں۔ ہمیں ٹیکنالوجی کو اپنانا ہی ہوگا، بدلتے تقاضوں کے ساتھ ہمیں بھی خود کو بدلنا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں ہم زمانے کے ساتھ چل سکتے ہیں۔

اس نشست میں آپ لوگوں نے عصرِ حاضر کے چند ادیبوں مثلاً عبید اللہ علیم کا ذکر کیا جن کا تعلق پاکستان سے ہے تاہم اس ضمن میں ایک نام نظرانداز ہوگیا اور وہ نام ہے مرزا اطہر بیگ صاحب کا۔ میں نہیں مان سکتا کہ آپ تینوں کی نظر سے مرزا صاحب اوجھل ہیں۔ ناول کی دنیا میں مرزا صاحب پاکستان میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند اُترے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس دنیا میں چھا گئے ہیں۔ ان کے تین ناول ‘غلام باغ’ ‘صفر سے ایک تک۔۔۔سائبر سپیس کے منشی کی سرگزشت’ اور ‘حسن کی صورتحال۔۔۔خالی جگہیں پُر کرو’ شائع ہو چکے ہیں اور تینوں ناولوں میں جن موضوعات کا انتخاب کیا گیا ہے وہ نہایت اچھوتے ہیں۔ مرزا صاحب نے افسانے بھی لکھے ہیں اور ان میں بھی ایک رجحان متعارف کرایا ہے۔ ہم موجودہ دور کے ادب پہ بات کرتے ہوئے مرزا اطہربیگ کا حوالہ دیئے بغیر بات مکمل نہیں کرسکتے۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ افسانے کی طرف موجودہ لکھاریوں کی توجہ بہت کم ہے، زیادہ زور کالم لکھنے پہ لگ رہا ہے اور اس میں سے بھی معیاری کالم بس گنتی کے ہی ہوتے ہیں۔

تیسرے حصے میں صحافت اور کتابیں موضوعِ بحث بنیں۔ آج کل جتنے بھی کالم لکھے جا رہے ہیں ان میں سے اکثر تو ڈیڈ ووڈ کا شکار ہیں اور ایڈیٹر کو اب اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ کہیں کوئی کام کی بات نہ لکھ دی گئی ہو۔ صحافتی معیار قابل رحم حد کو چُھو رہا ہے مگر کوئی اس طرف دھیان دینے والا نہیں۔ کاروبار چل رہا ہے اللہ اللہ خیر سلا۔

‘تہذیبی نرگسیت’ کا ذکر آپ نے کیا، آپ ‘حسن کی صورت حال’ بھی پڑھیں، لطف آئے گا۔ مذہبی بنیاد پرستی پر ایک خوبصورت بحث ملے گی آپ کو۔ کتابوں کے موضوع پہ آج کل بات ہی کوئی نہیں کرتا۔ کیا لکھا جارہا ہے، کیا پڑھنا چاہئیے، نیا کیا کچھ ہو رہا ہے۔ علمی ابتری کو کوئی سرے سے مسئلہ ہی نہیں سمجھتا۔ جی خوش ہوتا ہے جب کنفیوژن، افراتفری اور بے یقینی کے اس چل چلائو میں کوئی کتابوں کے بارے میں بات کرتا ہے۔ یہ انٹرویو کرکے آپ لوگوں نے ہمیں مقروض کر لیا ہے۔

وجاہت مسعود صاحب درست فرماتے ہیں کہ وسعت اللہ خان ہمارے معاشرے کا ضمیر ہیں اور وہ جو دیکھتے ہیں کمال خوبصورتی سے اس کو بیان کر دیتے ہیں۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ہمارے معاشرے کا یہ ضمیر نہ صرف زندہ ہے بلکہ بہت متحرک بھی ہے۔ یہ ایک لمحے کیلئے بھی ہمیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔ ادھر ہم اپنا کوئی کارنامہ نمائش کیلئے پیش کرتے ہیں اور اُدھر ہمارا ضمیر ہمیں ہمارے دُہرے معیار پہ جھنجھوڑنے لگتا ہے۔ ہم کہتے ہیں بھارت چونکہ مسلمانوں پر ظلم کر رہا ہے لہٰذا اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور پھٹ سے ہمارا ضمیر ہمیں باور کراتا ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں اپنے ملک میں۔ نریندر مودی اور یوگی آدتیا ناتھ وہاں مسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہیں جو ہم یہاں عیسائیوں، ہندوئوں، ہزارہ برادری والوں اور احمدیوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ میں حائل حکومتی لاپرواہی، غفلت اور بے چارگی کے باعث ملک میں پھیلتی ہوئی نفرت پہ جب قوم سو رہی ہے تو ہمارا ضمیر ہی اپنے پروگرام اور کالموں میں اس پر سوال اٹھاتا رہا ہے۔ پورا مُلک جب شام میں ہونے والے ظلم و ستم پہ آنسو بہا رہا ہوتا ہے تو یہ ہمارا ضمیر ہی ہے جو ہمیں یاد کراتا ہے کہ یمن میں بھی اسی نوعیت کے مظالم ہو رہے ہیں ایک نظر اُدھر بھی۔ ایک پرائیویٹ چینل کی خاتون رپورٹر کو جب پولیس والا تھپڑ مارتا ہے تو ہر طرف ہائے ہائے مچ جاتی ہے اس دوران بھی ہمارا ضمیر ہمیں احساس دلاتا ہے کہ رپورٹر اور کیمرہ مین کو جب تک آپ صحافتی تربیت سے لیس نہیں کرتے تو اس طرح کے واقعات پیش آتے رہیں گے۔ ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز اور خبروں میں جو غیر معیاری زبان استعمال کی جا رہی ہے اس پہ بھی سوال ہمارا ضمیر ہی اٹھاتا ہے۔ ایک طرف ہم یہود و نصاریٰ سے کوئی واسطہ نہ رکھنے کا عہد کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کی بنائی ہوئی مصنوعات استعمال کئے بغیر ہمارا گزارا ہی نہیں ہوتا۔ ہمارے اس دُہرے معیار پر یہ آواز بھی ہمارا ضمیر ہی اٹھاتا ہے۔ ایک متشدد تنظیم بوکوحرام نے نائیجیریا سے جب 276 طالبات اغواء کرلیں تو یہ ہمارا ضمیر ہی تھا جس نے مسلم اُمہ کی بے حسی اور مکمل چُپ پہ ہمیں لاجواب کر دیا تھا۔ غرضیکہ ہمارے ہر دُہرے معیار پہ ہمارا ضمیر ہمیں ٹوکتا ہے اور آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔

وسعت اللہ خان اس معاشرے کا ضمیر ہیں اور یہ ضمیر ہماری ہر لاپرواہی پر لال بتی والا بٹن دبا دیتا ہے۔ ان جیسے لوگ ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں اور اس کنفیوژن، خوف، علمی ابتری، فکری انارکی اور اخلاقی پستی کے طوفان سے نکالنے میں جتنا کردار یہ لوگ ادا کر سکتے ہیں اور کوئی نہیں کر سکتا۔ دُعا ہے کہ آپ یونہی ہمیں جھنجھوڑتے رہیں تاکہ ہمیں اپنی بدعملی پر کم از کم پچھتاوا تو ہوتا رہے۔

آخر میں اس بیٹھک کے اہتمام کیلئے ‘ہم سب’ کی ٹیم کا بہت بہت شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).