بھلے وقتوں کی بات ہے جب صحافت مشن ہوا کرتی تھی۔ کئی کئی لوگ خبر ڈھونڈنے کے پیچھے ہوتے تھے۔ خبر ملنے کے بعد پھر کئی کئی لوگ اس کی نوک پلک سنوارنے اور اسے خبریت کے سنگھاسن پر بٹھانے کے قابل بناتے تھے۔
خبروں کا ایسا معیار قائم تھا کہ اس نے سننے دیکھنے والوں کی بھی تربیت کر رکھی تھی۔ کوئی خبر تھوڑی سی بھی ڈھیلی ڈھالی ہوتی تو سننے والوں کو فوراً پتہ چل جاتا کہ ادارے سے یہ خبر اچھی طرح نہیں بنائی گئی یا یہ کہ یہ خبر خبر بنتی ہی نہیں ہے، اسے بس خالی جگہ بھرنے کے لیے ڈال لیا گیا ہے۔ پھر کمرشلزم کا دور آیا، ایشوز اور نان ایشوز جیسی ٹرمز ایجاد ہوئیں، صحافت مشن سے ہٹ کر کاروبار بنا، صحافی ہونا کیرئیر بن گیا، جس نے اس کاروبار میں پیسے لگائے وہ خود ہی ایڈیٹر بن گیا۔ اب کیا خبر ہے اور کیا نان خبر، ہر دو کے درمیان کھینچی گئی لکیر تحلیل ہونے لگی۔ خبر تجزیہ بھی بن گئی، تاثر بھی، جائزہ بھی اور ردعمل بھی۔
Read more