ڈان لیکس، حوالدار میڈیا اور غدار حکومت


پچھلے سال ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ایک طوفان برپا کردیا۔ خبر کے مطابق وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اعلی سطحی اجلاس میں سویلین حکومت نے فوجی حکومت کو باور کروایا کہ ہمیں عسکری تنطیموں کے خلاف کارروائی کرنی ہوں گی ورنہ دنیا سے علیحدگی کے لئے تیار رہے، جس پر وزیراعلی پنجاب نے کہا جب بھی ہم ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں کچھ مخصوص لوگ ان کو چھڑوا لیتے ہیں اس بات پر ان کی اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ ہلکی سی گرما گرمی ہوئی۔ اس بات کا باہر آنا تھا کہ حولدارمیڈیا کی چاندی ہوگئی۔ انہوں نے شور مچا دیا کہ یہ سیکیورٹی کی خلاف ورزی ہوگئی۔ حکومت نے ریاست سے غداری کر دی۔ وزیراعظم ہاؤس سے خبر کیسے باہر آگئی؟ خبر کا کام ہی ہوتا ہے منظر عام پر آنا۔ خبر کب راز رہتی ہے؟ ملٹری اور سویلین حکومت دونوں کی جانب سے اس کی تردید کی گئی۔ لیکن اس تردید کے باوجود حوالدار اینکروں کے شور پر ایک ان کوائری کمیٹی بنادی گئی جس کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ اس خبر کے اخبار تک پہنچنے کے ذرائع دریافت کیے جائیں۔

انکوائری کمیٹی نے اپنا کام مکمل کرکے رپورٹ وزیراعظم کو بھیج دی۔ 29 اپریل کو وزیراعظم ہاؤس سے متعلقہ اداروں کے لئے نو ٹیفکیشن جاری ہوا تاکہ اس کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں درست سمت میں اقدامات کیے جا سکیں۔ حسب دستور وہ نوٹیفکیشن بھی لیک ہو کر سب سے پہلے بریکنگ کی دوڑ میں شامل ہوگیا۔ اس نوٹیفکیشن کا میڈیا پر آناتھا کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک ٹویٹ آگیا کہ یہ نوٹیفکیشن نامکمل ہے کمیٹی کی سفارشات کے مطابق نہیں اس کو مسترد کرتے ہیں۔ اس ٹویٹ کی پاکستان کے تمام جمہوریت پسند حلقوں نے مذمت کی۔ کسی بھی جمہوری ملک میں چیف ایگزیکٹو کا حکم نامہ حتمی ہوتا ہے کوئی بھی ماتحت ادارہ اس طرح سے مسترد نہیں کرسکتا۔ آرمی کے بھی اس طریقہ کار پر کافی تنقید ہوئی۔ حولدار میڈیا اور ایک مخصوص اپوزیشن کی جماعت کو یہ ٹویٹ روشنی کی کرن کی طرح لگا۔ ایک مایوس سیاسی جماعت کو پھر ایمپائر کی مردہ انگلی فضا می بلند ہوتی دکھائی دی۔ وزیراعظم کی جانب سے اس معاملہ میں خاموشی اختیار کی گئی مشاورتی اجلاس تو ہوتے رہے لیکن کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔ دریں اثنا افواہوں کا بازار گرم رہا۔ حولدار میڈیا کو اپنا مستقبل تابناک نظر آنے لگا۔ کئی لوگوں نے شیروانی سلوانی شروع کردی۔ لیکن اچانک وہ ہوگیا جس کا کسی کو گمان بھی نہ تھا بقول شیخ رشید رات تک میرے پاس کچھ اور خبریں تھیں لیکن اچانک کایا پلٹ گئی۔ آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ وزیراعظم سے ملے اور ٹویٹ واپس لینے کی پریس ریلیزجاری ہوگئی۔ فوج کی جانب سے اس بات کا بھی اعادہ کیا گیا کہ افواج پاکستان، پاکستان کی جمہوریت کے ساتھ ہیں اور آئین کی بالادستی چاہتی ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد چند چینلوں اور ایک اپوزیشن کی پارٹی کے دفتروں میں صف ماتم بچھ گیا۔ کل تک جو کہتے تھے اس خبر سے فوج کی توہین ہوئی ہے فوج اس معاملے کا نوٹس لیں وہ چیخ و پکار کرنے لگی کہ یہ فوج کا تومعاملہ ہی نہیں یہ تو قومی معاملہ ہے۔ یہ قومی سلامتی کی خلاف ورزی ہے کوئی ان سے پوچھے کہ کونسی خلاف ورزی ہوئی ہے اس خبر سے؟ کیا یہ خلاف ورزی ہے کہ خبر لیک کیسے ہوئی تو کوئی یہ بتائے گاکہ وزیراعظم اور آرمی چیف کی ون آن ون میٹنگ کی خبریں کہاں سے لیک ہوتی ہیں؟ کیا ڈان لیک کی ان کوائری کے دنوں میں ایک حولدار صحافی جب ٹی وی پر یہ کہتا تھا کہ آج ون آن ون میٹنگ میں آرمی چیف نے وزیراعظم کو شٹ اپ کال دی ہے تو اس سے پوچھنے کی ہمت کسی کو ہوئی؟ کیا یہ قومی سلامتی کا معاملہ نہیں تھا؟ ایک اینکر صاحب تو اتنے ماتم زدہ تھے کہ انہوں نے اس پریس ریلز کو سانحہ مشرقی پاکستان سے جاملایا کہ اس وقت بھی سرینڈر کیا گیا تھا آج بھی کردیا گیا۔ ان کی مایوسی ان کے چہروں سے عیاں تھی۔ ان کو اس بات کا یقین نہیں آرہا تھاکل تک واٹس اپ گروپ کے ذریعے ان کو جو خبریں ملی تھیں وہ آج الٹ کیسے ہوگیا۔ وہ تمام حوالدار میڈیا جو کل تک آرمی کی توہین اور تذلیل ہونے کا واویلا کرتے ہوئے آہ و بکا کرتا تھا یک دم اسی آرمی کے لتے لینے شروع کردیئے۔ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے جو آرمی کی کردار کشی کی جاری ہے وہ نہ پہلی کبھی کسی نے دیکھی نہ سنی۔ گالیوں اور مغظلعات کا ایک بازار گرم ہے۔ کیا یہ معاملہ قومی سلامتی کا نہیں کہ جس میں ایک آرمی چیف کو سرعام گالیاں نکالی جارہی ہیں۔ کیا اب دنیا ہم پر نہیں ہنستی ہو گی کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں جمہوریت کا ساتھ دینے پر آرمی کو مطعون ٹھہرا جارہا ہے۔ ہم انڈیا کی جمہوریت کی مثالیں دیتے تو نہیں تھکتے لیکن جب اپنے ملک میں جمہوریت پروان چڑھنے لگے تو ہمارے ہوش اڑ جاتے ہیں۔

ڈان لیکس اور پانامہ کی ان کوائری کے دوران وہ کونسا غداری اور ملک دشمنی کا الزام تھا جو اس حکومت پر نہیں لگا۔ زیادہ تر پاکستانیوں کو تو پتا بھی نہیں تھا کہ خبر تھی کیا لیکن حوالدار میڈیا نے اپنے تئیں قوم کو بتادیا تھا کہ پاکستان میں بس یہی معاملہ اہم ہےباقی سب بے معنی ہے۔ ڈان لیکس میں عوام کی کتنی دلچسپی تھی اس کا ثبوت نصرت جاوید اورحامد میر کے پروگرام میں سڑکوں پر جاکر لوگوں سے کیا جانے والا سروے تھا جس میں اکثریت نے کہا ہمیں پتا نہیں کہ ڈان لیکس کس چڑیا کا نام ہے۔ جنہوں نے جواب بھی دیے تو وہ جو ایک مخصوص میڈیا اور جماعت کا بیانیہ تھا۔ اپوزیشن کی ایک جماعت کے لیڈر نے جلسے میں کہہ دیا کہ دراصل ڈان لیکس یہ تھی کہ حکومت بھارت سے تعلقات بہتر کرناچاہتی ہے لیکن آرمی نہیں کرنے دیتی۔ کسی جگہ یہ کہہ دیا گیا کہ اس خبر کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سول حکومت اچھی ہے آرمی بری۔ کیا وہ فوجی جوان جنہوں نے تصدیق کے لئے یہ خبر نہیں پڑھی ہوگی اس بیانے کو سن مایوس نہیں ہوئے ہوں گے؟ اس خبر پر منفی پروپگینڈا کرکے، دواداروں کے درمیان تصادم کی فضا پید کروا کے، اس حوالدارمیڈیا اور اپوزیشن کی جماعت نے اس ملک کی کیا خدمت کی ہے؟ کیا غداری کے مرتکب وہ لوگ نہیں جو اداروں کو لڑاواتے ہیں اپنی نوکریوں کی خاطر صحافت کی تذلیل کرواتے ہیں؟

وزیراعظم جندال سے مل لیں تو غداراگر جنرل مشرف مل لیں تو ہیرو۔ اس ان کوائری کے درمیان جب جب بھی سرحدوں پر حالات خراب ہوئے اس کو اس معاملے سے جوڑ دیا گیا۔ اگر انڈیا، افغانستان اور ایران مل کر حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں اور یہ پڑوسی ممالک اتنا ہی اس وزیراعظم کے ماتحت ہیں تو ہم کو خوش ہونا چاہے کہ اتنا طاقت ور وزیراعظم ہمیں مل گیا ہے۔ عمران خان نے کل کہا کہ یہ فوج کا معاملہ نہیں یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے فوج اکیلی اس معاملہ کو حل نہیں کرسکتی کچھ دنوں تک موصوف فرماتے تھے کہ یہ آرمی کا معاملہ ہے اس کی تذلیل ہوئی ہے آرمی اس معاملہ کا جلد نوٹس لے۔ سچ تو یہ ہے کہ قومی سلامتی کی بات خان صاحب کے منہ سے اچھی نہیں لگتی یہ وہی نام نہاد لیڈر ہیں جو کل تک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے تھے، ان کو پشاور میں آفس کھولنے کی پیشکش کررہے تھے۔

کل ہونے والی پریس کانفرنس نے بتادیا کہ اس ملک میں بالادست صرف آئین ہے۔ جمہوریت ہی اس ملک کا حقیقی نظام ہے۔ آرمی چیف اور وزیراعظم دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے قوم کو ایک کشمش کی کیفیت سے نکالا۔ اس وقت ملک تین اطراف سے دشمنوں کے نرغے میں گھرا ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاملات کو افہام وتفہیم سے چلا جائے۔ غداری کے سرٹیفیکٹ بانٹنے والے میڈیا کو اب لگام ڈالنی چاہیے۔ جہاں سول اور ملٹری نے اس مسئلے کا حل نکالا ہے وہاں اس مسئلے کو بھی حل ہوجا نا چاہیے کہ ایک منتخب وزیراعظم کو غدار کہہ کر حوالدار اینکر کڑوروں لوگوں کے ووٹوں کی توہین کیسے کر سکتے ہیں؟ حولدار میڈیا اور اپوزیشن کی جماعت کو سمجھنا ہوگا کہ ان کا چورن زیادہ دیرنہیں بکے گا۔ صحافت کرنی ہے یا سیاست۔ جو بھی کریں اصولوں کے مطابق کریں۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب قیمت لے کر پرواگرام کرنے والی کی حیثت دو کوڑی کی نہیں رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).