دڑ وٹ جا، چپ کرجا!


یونیورسٹی کے زمانے میں ہمیں ڈاکٹر اے آر خالد تعلقاتِ عامہ پڑھاتے تھے۔ موصوف حافظِ قرآن تھے اور سالہا سال پڑھانے کی وجہ سے انھیں اپنے تمام لیکچرز بھی ازبر ہو چکے تھے۔

خالد صاحب اپنے ہر لیکچر کی ابتدا اور اختتام پر ایک بات دہراتے تھے ’تعلقاتِ عامہ کا بنیادی اصول ہے کہ اگر غلطی ہو جائے تو اس کو تسلیم کر کے معافی مانگ لی جائے۔ ‘

پچھلے دنوں ایک نجی ٹیلی ویژن کے پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران مبینہ طور پر حادثہ پیش آیا اور کچھ لوگوں کے زخمی اور جاں بحق ہونے کے اطلا عات بھی گردش میں رہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ عدالتِ عظمیٰ نے اس واقعہ کا ازخود نوٹس لیا ہے۔ کچھ نیوز چینلزنے بعد ازاں اس پر پروگرامز بھی نشر کیے۔ سوشل میڈیا پر کئی تصویریں نظر آئیں۔

واقعہ کیا تھا؟ ہوا کیا تھا؟ کچھ معلوم نہیں ہو رہا، کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ انتظامیہ نے حادثے کے بعد جائے وقوع کی بتیاں بجھائیں اور وہاں سے غائب ہو گئی۔ وہاں نہ کسی ایمبیولنس کا انتظام تھا اور نہ ہی کسی قسم کی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے اسباب۔ متاثرین نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو طبی امداد بہم پہنچائی۔ اتنے روز گذرنے کے بعد بھی انتظامیہ کا موقف سامنے نہیں آیا۔

غالباَ وہ لوگ صدیوں پرانی دانش پر عمل کرتے ہوئے اس خیال میں ہیں کہ وقت گذرنے کے ساتھ لوگ اس بات کو بھول جائیں گے۔ یہ بھی تعلقاتِ عامہ ہی کی ایک پرانی تھیوری ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ کچھ باتیں وقت گذرنے کے ساتھ فراموش ہونے کی بجائے خود سے منسلک اسرار کے باعث مزید اہم ہوتی چلی جاتی ہیں۔

تاریخ کے ایسے بہت سے واقعات جن پر کسی نے آگے بڑھ کر بات نہ کی، صورتِ حال واضح نہ کی، ایک پر اسرار گتھی کی صورت نہ صرف اس نسل کے لیے بلکہ آنے والی اگلی نسلوں کے لیے بھی شدید دلچسپی کا سامان بنے رہے۔

انار کلی ہی کی مثال لے لیجیے۔ جانے حقیقت کیا تھی؟ اگر اکبر بادشاہ ایک روزنامچے یا اس وقت کسی اور ذریعے سے واضح کر دیتے کہ حقیقت کیا ہے تو بات اتنی نہ بڑھتی۔ اب دیکھیے، اتنی فلمیں، ڈرامے، افسانے لکھنے پڑ گئے ایک پورا بازار اس نام پر آباد ہوا اور اب جب بھی کوئی نازنین، انارکلی سے خریدے، سلمی ستارے سے مزین لباس پہنے، بالوں میں پھول سجائے، گل بکاؤلی بنی کہیں جاتی ہے تو اس کے دوپٹے کی ہر سرسر اہٹ، پازیب کی چھنک اور چوڑیوں کی کھنک ایک ہی سوال کرتی ہے، ’ ظلِ الہیٰ! ماجرا کیا تھا؟ ہوا کیا تھا؟ سچ کیا تھا اور فسانہ کیا؟ ‘

صدیاں گذر گئیں، نہ بادشاہ رہے نہ ان کے محل، نہ راج رہا نہ راج ہٹ مگر ایک گمنام کنیز کی نامعلوم کہانی، اس جلیل القدر بادشاہ کے دامن پر ناگوار دھبے کی طرح ہمیشہ مو جود رہے گی۔

زیادہ دقیق بات نہ کیجیے تو فلمیں اٹھا کر دیکھ لیجیے، قاتل مقتول کی لاش چھپانے کی جتنی مرضی کو شش کر لے کہیں نہ کہیں سے سرا ہاتھ آ جاتا ہے۔ قابیل نے جب ہابیل کو قتل کیا تو وہ مدت تک اس کی لاش کندھے پر اٹھا کر پھرتا رہا یہاں تک کہ دو کوے نمودار ہوئے اور ان میں سے ایک نے دوسرے کو مار ڈالا۔ مارنے والے نے اپنی چونچ سے گڑھا کھودا اور لاش کو اس میں چھپا دیا۔ قابیل نے بھی ایسا ہی کیا۔ کم و بیش ہزاروں سال گذر گئے آج بھی ہر شخص کو معلوم ہے کہ قابیل نے ہابیل کو مارا تھا۔

حیرت اس بات پر ہے کہ جس نجی چینل کی تقریب میں یہ واقعہ ہوا، کیا وہاں ایک بھی تربیت یافتہ شخص موجود نہیں تھا؟ کم سے کم تعلقاتِ عامہ کا بنیادی اصول تو معلوم ہونا چاہیے جو ماس کمیو نیکشن میں ایم اے کرنے والے کسی بھی فرد کو معلوم ہوتا ہے۔

حادثہ کسی کے اختیار میں نہیں نہ ہی وہ تقریب منعقد کرانے والے یہ چاہتے ہوں گے۔ بعد ازاں جو بھگدڑ مچی وہ بھی ایک فوری ردِ عمل ہو سکتا ہے لیکن اس کے بعد اختیار کی جانے والی خاموشی، افواہوں کو جنم دے رہی ہے۔ جانے یہ ادارہ کس کے مشورے پر ’دڑ وٹ‘ کے بیٹھا ہے؟

اب بھی زیادہ وقت نہیں گذرا، واقعے کی تفصیلات بتا کر، ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے، متائثرین کی مدد کی جائے اور آئندہ کے لیے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ ہم صحافی تو معاشرے کی زبان ہیں یہ خاموشی ہم سب کے لیے باعثِ شرمندگی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).