احسان اللہ احسان اور کلبھوشن یادو قوم کے مجرم ہیں


(محمد طیب زاہر)

900  چوہے کھا کر بلی حج کو چلی۔ یہ محاورہ اس وقت اپنےآپ کو پاک فوج کی سکیورٹی فورسز کے حوالے کرنے والے احسان اللہ احسان پر پورا اُترتا ہے۔ موصوف نے خود کو پاک فوج کے حوالے کرکے قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔ یہ تو ٹھیک ایسا ہی ہے کہ میں 200 بندوں کو خون میں نہلا دوں اور اس کے بعد کہوں کے میں قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ وہ لوگ جو دہشت گردی کا نشانہ بنے اُن کے اہل خانہ کے لئے عمر بھر کا روگ ہے جو شاید اب زندگی کے دھارے میں نہ آسکیں تو ایسے میں زندگی چھیننے والے کس طرح سے قومی دھارے میں آنے کی بات کرتے ہیں؟ احسان اللہ احسان کو خود کو سیرنڈر کرنے کی بجائے گولی مار لینی چاہیے تھی۔ بظاہر ایک خوش شکل انسان جو دوسرے عام انسانوں کی طرح دکھائی دیتا ہے۔

اس کی شخصیت کو دیکھیں تو کہیں سے بھی ایسا نہیں لگتا کہ وہ تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہو۔ لیکن جو گھناؤنے کام اس نے انجام دیے ہیں اُسے انسانیت نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے اندر ایک حیوان تھا۔ وہ ان کا ترجمان رہا جنہوں نے ہمارے فوجی بھائیوں کو قتل کرکے اُن کے سروں کے ساتھ فٹ بال کھیلی۔ اتنی نفرت کیسے محبت میں بدل گئی۔ اگر احسان اللہ احسان اور اس جیسے باقی لوگوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جاتا ہے تو کل کو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ پھر سے ہتھیار نہ اُٹھا لیں۔ کسی کو بھی معافی نہیں ملنی چاہیے۔ میں شروع دن سے کہہ رہا تھا کہ مصطفیٰ کمال نے مگر مچھ کے آنسو بہائے اور قوم کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کی۔ کیا بیس بیس سال بعد ضمیر جاگتا ہے۔ کس طرح ڈھٹائی کے ساتھ وہ الطاف حسین کا دفاع کرتے نظر آتے تھے۔ پھر ایک دم سے رت بدل گئی۔ دبئی سے دبنگ انٹری دے کر الطاف حسین کے خلاف بول کر ان کی وفاداری سے پھر گئے۔ مصطفیٰ کمال نے ایسا تب کیا جب انہیں یہ اندازہ ہوا کہ اس جماعت کا زور ٹوٹ گیا ہے تب تک وہ تماشا ہی دیکھتے رہے۔

ان کو بھی معافی نہیں ملنی چاہیے تھی۔ لیکن جب اس مؤقف کی تائید کی جائے کہ ہر دہشت گرد کو اُس کے انجام تک پہنچنا چاہیے تو پھر سوال یہ بھی کھڑا ہوتا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کیس ہو چاہے میمو گیٹ چاہے پاناما ہو یا ڈان لیکس ہر ایک کو اُس کے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ جب ہم اندرونی سطح پر سزا نہیں دے سکتے تو اخلاقی طور پر کمزور ہو کر بیرونی سطح پر سزا دینے کا اخلاقی جواز بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات میں سب سے نا قابل فراموش واقعہ سانحہ پشاور کا ہے۔ احسان اللہ احسان کہتا ہے کہ میں اُس وقت خیبر ایجنسی میہں تھا مجھے جب یہ خبر ہوئی تو میں نے اس کی مذمت کی میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم مذمت کرنے کی بجائے اُن ظالموں کے خلاف کوئی ایکشن لیتے تو شاید دنیا یہ مان لیتی کہ تمہیں اپنے کیے پر پچھتاوا ہے اور تم نے اس کے ازالے کی کوشش کی۔ تمہیں ریاست شاید معاف کردے لیکن جن کے گھر برباد کیے وہ تمہیں کبھی معاف نہ کریں گے۔ بڑا عجیب سا مذاق ہے اگر سرینڈر کرنے کی آپشن دے کر قومی دھارے میں شامل ہونے کی پیشکش عام ہے تو اس کا مطلب ریاست کی جانب سے دہشت گردوں کو یہ چوائس دی جا رہی ہے کہ آپ جی بھر کے خون کی ہولی کھیلو اور پھر بعد میں نام نہاد قومی دھارے میں شامل ہوجاؤ۔ یہ ایک قسم کی ریاستی ناکامی ہے کہ خود سرینڈر کی پیشکش کرے۔ اس سے تو یہ تاثر جائے گا کہ ہم دہشت گردوں کو پکڑ نہیں سکتے۔

احسان اللہ احسان نے اپنے اعترافی بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ بھارت بھی کلعدم تنظیموں کو فنڈنگ کرتا ہے۔ نشاندہی تو پہلے بھی ہوتی رہی اب بھی ہو گئی لیکن اس پرعمل کون کرے گا۔ بلوچستان لبریشن آرمی نے جمعیت علمائے اسلام ف کے ڈپٹی چئیرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور پر مستونگ میں حملہ کیا جس کے نتیجے میں 50 کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔ مولانا بھی اس کی زد میں آکر زخمی ہوئے۔ پھر اس کے چند ہی روز بعد بلوچستان میں 10 مزدوروں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ مستونگ حملے میں بی ایل اے ملوث ہے جس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ اس کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ اور عین ممکن ہے 10 مزدوروں کی ہلاکتوں میں بھی اسی کا ہاتھ ہو۔ ان یکے بعد دیگرے حملوں کا مقصد یقینی طور پر سی پیک کے عمل کو سبو تاثر کرنا ہے۔ بھارت کسی بھی نرمی کا متحمل نہیں لیکن اس کے باوجود اس سے نرم گوشہ نظر آرہا ہے۔ کل بھوشن یادو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو دیر کس بات کی تھی۔

ایک شخص خود تسلیم کرتا ہے کہ وہ پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث رہا۔ اس کے منفی اعمال سے انسانی جانیں ضائع ہوئیں لیکن اس کے باوجود اس کی سزائے موت میں تاخیر کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اب بھارت نے معاملہ عالمی عدالت میں اُٹھا دیا ہے۔ بھارت یہ کہتا ہے کہ 1963 ویانا کنونشن کے تحت کسی بھی فرد کو کونسلر تک رسائی دی جانی چاہیے، ۔ جبکہ پاکستان اپنا یہ مؤقف پیش کرے گا کہ آئین کی 23 ویں ترمیم جس کے تحت سول اور ملٹری کیسز کے فیصلے فوجی عدالت کرے گی۔ کلبھوشن کیس بھی فوجداری کیس ہے جس کے تحت اس کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ دیکھا جائے تو پاکستان کا مؤقف بہت مضبوط ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو پاکستان عالمی عدالت کو نظر انداز کرکے پھانسی پر عمل در آمد کرسکتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ریاست کے ہر دشمن کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ جو لوگ احسان اللہ احسان کو بچانے کے لئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہتھیار ڈالنے کی رسم پر معاف کردینے کا رواج صدیوں سے چلے آرہا ہے اُن کے لئے عرض ہے کہ یہ جنگ نہیں بغاوت ہے انسرجنسی ہے۔ لہذا اس صورتحال میں کوئی معافی نہیں ہوتی نہ معافی ملنی چاہیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).