وقت کی قدر


\"inam-rana\"

آپ انعام رانا کی مثال لیجیے۔ یہ ایک بگڑا رئیس زادہ تھا۔ باپ جج تھا۔ لاہور کے پوش ترین علاقے میں گھر تھا جس کے پورچ میں چار گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ایک گاڑی سرخ جب کہ دو سفید اور ایک سیاہ تھی۔ یہ اپنے کپڑوں کے ساتھ میچ کردہ گاڑی میں بیٹھتا تھا۔ یہ ایک انتہائی بدتمیز اور اکھڑ نوجوان تھا جس کو اپنے سے طاقتور لوگوں سے الجھنے کا شوق تھا۔ یہ وکیل تھا اور زرا زرا سی بات پر موکلوں کی فائلیں اٹھا کر دفتر سے باہر پھینکتا تھا۔اس وقت اسکی عمر پچیس سال تھی جب ایک دن اسکا باپ اچانک صبح سات بج کر سینتالیس منٹ پندرہ سیکنڈ پر مر گیا۔ اس صدمے نے انعام رانا کی زندگی کو الٹ کر رکھ دیا۔ کل تک جو کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا تھا، اسے باپ کی پینشن منظور کرانے کیلیے دو دو گھنٹے جونیئر کلرک کے سامنے خاموش بیٹھنا پڑ گیا۔ حکومت کو اہتمام کرنا چاہیے کہ ہر نوجوان کا باپ پچیس سال کی عمر تک مر جائے۔ اسکے علاوہ سرکاری ملازمین کی پنشن کا نظام مزید پیچیدہ کر دے۔ اس سے نوجوانوں کو نہ صرف عملی زندگی کا شعور حاصل ہو گا بلکہ ان میں تحمل، برداشت، احساس ذمہ داری، حکومت کے ادب کے جذبات بڑھ جائیں گے اور پاکستان ترقی کرے گا۔

خیر ہم انعام رانا کی کہانی کی طرف واپس آتے ہیں۔ انعام رانا نے اپنی محدود وکالت کے زور پر زندگی کی گاڑی کو کھینچنا شروع ہی کیا تھا کہ ملک میں وکلا تحریک شروع ہو گئی اور وکالت ٹھپ ہو گئی۔ ایک دن شام کو آٹھ بج کر تیرہ منٹ پر جب وہ گھر پہنچا تو ماں نے ہاتھ جوڑ دیے۔ انعام رانا نے ایک قہقہ لگایا اور وہ انگلستان آ گیا۔ یہاں اس نے ڈیلیوری ڈرائیور سے لے کر ویٹر تک ہر کام کیا۔ اسے آپ جناب کی عادت تھی اور یہاں اسے تو تو کر کے بلایا جاتا تھا۔ انعام رانا کو پراٹھا بہت پسند تھا جو اسے باہر آ کر کبھی نہ ملا۔ اگرچہ پراٹھے میں کولیسٹرول ہوتا ہے جو دل کے لیے نقصان دہ ہے لیکن دل بھی پراٹھے کی خوشبو کے آگے مجبور ہو جاتا ہے۔ ایک دن اس خوشبو سے مجبور ہو کر اس نے ایک گاہک کا بچا ہوا پراٹھا ابھی اٹھایا ہی تھا کہ مالک آ گیا اور سب کے سامنے اسکی شدید بے عزتی کی۔ اس کے لاہور کے گھر میں ابھی بھی تین نوکر اپنی پسند کا کھانا کھاتے تھے۔ انعام رانا نے مالک کو شرمندگی، اور مالک حقیقی کو مسکرا کر دیکھا اور باہر آ گیا۔

حکومت کو چاہیے کہ ہر پڑھے لکھے شہری کو لازمی طور پر کسی ان پڑھ کے پاس کام کرائے جو اسے ذلیل کرے۔ اس سے دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو ان پڑھ کا کتھارسس ہو گا اور اس کا غصہ نکل جائے گا۔ دوسرا پڑھے لکھے کے دماغ سے احساس برتری کم ہو گا۔ چنانچہ معاشرے میں مساوات، لگن اور رواداری پیدا ہو گی اور پاکستان ترقی کر جائے گا۔

وقت نے انعام رانا کو بالآخر اس کا لوٹا ہوا مقام واپس کر دیا۔ جب میں رانا صاحب کے لندن کے خوبصورت لاء آفس میں داخل ہوا تو ان کی فرنچ سیکٹری نے جرمن فون پر انگریزی میں انھیں میری آمد کی اطلاع دی۔ سویڈن کی بنی ٹیبل کے پیچھے اٹالین سوٹ میں ملبوس انعام رانا سے میں نے پوچھا کہ یہ مقام واپس ملنے کا راز کیا ہے؟ اس نے زور سے قہقہ لگایا، فن لینڈ کے بنے کپ سے برازیل کی کافی کا سپ لیا اور بولا، ’جب اس ہوٹل مالک نے میرے ہاتھ سے جوٹھا پراٹھا چھینا تو میں راز کو پا گیا۔ میں نے اچھے وقت کی قدر سیکھ لی۔ اچھے وقتوں میں بھرے خوان کی قدر نہ کرنے والے کو، برے وقت میں کسی کا بچا ہوا ٹکڑا بھی نہیں ملتا‘۔
میں نے یہ سنا تو زور کا قہقہ لگایا، اس سے ہاتھ ملایا اور باہر آ گیا۔ ہماری ملاقات کی یادگار ایک سیلفی ہے۔

انعام رانا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انعام رانا

انعام رانا لندن میں مقیم ایک ایسے وکیل ہیں جن پر یک دم یہ انکشاف ہوا کہ وہ لکھنا بھی جانتے ہیں۔ ان کی تحاریر زیادہ تر پادری کے سامنے اعترافات ہیں جنہیں کرنے کے بعد انعام رانا جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر ان سے رابطہ کے لئے: https://www.facebook.com/Inamranawriter/

inam-rana has 36 posts and counting.See all posts by inam-rana

Subscribe
Notify of
guest
16 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments