“سرمایہ اردو” کی جدید اردو ادب میں سرمایہ کاری


نصابی کتب میں جتنی مقبولیت ’’سرمایۂ اردو ‘‘کو حاصل ہوئی، اس کی مثال نہیں۔ نصاب میں تھی تو ادب کا شوق بیدار کرنے کا وسیلہ بنی۔ جید ادیبوں ومحققوں کے لڑکپن میں ان کے ذوق ادب کو جلا بخشی۔ نصاب میں شامل نہ رہی تو پھر پڑھنے والوں کی یادوں میں بس گئی ۔کتاب کی پذیرائی میں بلاشبہ اس کے مندرجات کو بنیادی دخل ہے، لیکن اس کی شہرت کا باعث مرتب کی قد آور علمی شخصیت بھی ہے، جن کا اردو تحقیق وتنقید میں اونچا مقام ہے۔ ان کے نام سے تحقیق کا پورا دبستان منسوب ہوکر دبستان شیرانی کہلایا ۔ عام طور پر محقق اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور ادب کی دوسری اصناف سے علاقہ نہیں رکھتے، کم ہی ایسے محقق ہوتے ہیں، جو ادب کے باذوق قاری بھی ہوں اوراپنی تحقیق سے باہرمختلف اصناف میں ان کی دلچسپی ہو۔حافظ محمود شیرانی کا شمار البتہ ایسے ہی محققوں میں ہوتا ہے۔ مشفق خواجہ بھی اسی روایت کے محقق تھے۔

حافظ محمود شیرانی نے کتاب کے آخر میں مصنفین کے بارے میں مختصر نوٹ دیے ہیں، جس میں ان کے حالات اور کام کا تعارف ہے۔ انھیں پڑھ کر تھوڑے لفظوں میں زیادہ معلومات پرونے کا ہنر سیکھا جا سکتا ہے۔ سرمایہ اردوکا ذکر ہو رہا تو کچھ بات اختر شیرانی کی بھی ہو جائے۔حافظ محمود شیرانی بیٹے کو جامع علوم بنانے کے خواش مند تھے، مگر وہ کسی اور راہ پر ہو لئے۔ تعلیم ادھوری چھوڑ کر شعر شاعری سے جی لگا لیا تو باپ کو رنج ہوا۔ اس سے بڑھ کراختر شیرانی کی شراب نوشی نے قیامت ڈھائی۔محمود شیرانی نے غصے میں بیٹے کو گھر سے نکال دیا۔ باپ بیٹے کی لڑائی ہمارا موضوع نہیں، ہم بتانا تو یہ چاہتے ہیں کہ اس بے نظیر انتخاب کو مرتب کرتے وقت حافظ صاحب کی بیٹے سے صفائی نہ تھی مگر انھوں نے اخترشیرانی کی نظموں کو انتخاب کا حصہ بنایا۔

ممتاز ادیب ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول :

حافظ صاحب گو بیٹے سے خفا تھے مگرمحقق آدمی تھے ’’ہنرش نیزبگو‘‘کے قائل۔ چنانچہ حصہ نظم میں اخترشیرانی کی چار نظمیں بھی شامل تھیں۔ایک’’وادی گنگا میں ایک رات‘‘دوسری’’تنہائی‘‘جوغالب کی زمین میں تھی اورتیسری’’روس سے نپولین کی مراجعت‘‘جس میں ماسکو کی برف باری سے مجبورہوکرواپس جاتے ہوئے ایک ناکام فاتح کے احساسات نظم کئے گئے تھے:

رخصت ،اے روس!اے ویرانۂ خونیں بہار

اے شکوہِ قہرمانانِ جہاں کی یادگار

کرچکی ہیں میری تلواریں ترے ہونٹوں کوپیار

یہ تیسرامصرع توگویامیرے ذہن پر جم کر ہی رہ گیا اور آج تک نقش ہے۔ چوتھی نظم ’’نور جہاں‘‘ تھی۔‘‘

خورشید رضوی اس کتاب سے تعلق اور اس کے اپنے ادبی ذوق پرمرتب ہونے والے اثرات کے باب میں لکھتے ہیں: ’’میں نویں جماعت میں آیا تو’’سرمایۂ اردو‘‘ہمارے نصاب میں آئی۔ یہ حافظ محمود شیرانی صاحب کا انتخاب تھاجوکئی نسلوں نے پڑھا۔اس کتاب نے میرے ادبی ذوق کی بنیادیں درست کیں۔‘‘

ممتاز محقق اور مزاح نگار مشفق خواجہ نے جب میٹرک کیا توان کے نصاب میں بھی ’’سرمایۂ اردو ‘‘ شامل تھی۔ 2004ء میں جب صدیق جاوید کی کوششوں سے یہ کتاب شائع ہوئی توانھوں نے اپنے اس دوست کو خط میں لکھا :

’’سرمایۂ اردو بھی مل گئی ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ اس کتاب کو چھپوا دیا۔ یہ اردو نظم ونثر کا بہترین انتخاب ہے۔ آپ شاید حیران ہوں کہ یہ کتاب میرے میٹرک کے نصاب میں تھی مگر اب بھی ہر دوسرے تیسرے سال اسے پڑھتا ہوں۔‘‘

جوابی خط میں صدیق جاوید نے لکھا:

حافظ محمود شیرانی کی مرتبہ کتاب سرمایۂ اردو آپ کی یادوں میں محفوظ ہے ،کمال بات ہے۔ اس کتاب کی اشاعت نو کا کریڈٹ نیاز احمد سنگ میل کو جاتا ہے۔۔۔ سرمایۂ اردو چھاپنے کا خیال ان کے دماغ پر غالب آچکا تھا انھوں نے کئی بار مجھ سے ذکر کیا۔ ظاہر ہے دوسروں سے بھی پوچھتے رہے ہوں گے ۔ کئی لوگوں کے پاس اس کا نسخہ تھا مگر کسی نے ہامی نہیں بھری، میرا نسخہ سردار پور جھنڈیر چلا گیا تھا بہرحال جیسے ہی مجھے دستیاب ہوا میں نے انھیں فراہم کردیا۔ ‘‘

ٹالسٹائی کے ’’وار اینڈ پیس ‘‘اور دستو فیسکی کے ’’برادرز کرامازوف ‘‘جیسے عظیم ناولوں کے مترجم شاہد حمید بھی ’’سرمایۂ اردو ‘‘کے مداحوں میں سے ہیں۔ اپنی یادداشتوں کو مرتب کرتے وقت انھوں نے ہم سے تقاضا کیا کہ وہ اس کتاب کو دوبارہ سے دیکھنا چاہتے ہیں، تو ہم نے انھیں ’’ سنگ میل ‘‘ کا شائع کردہ ایڈیشن مہیا کردیا۔ کچھ عرصہ قبل ان کی خود نوشت’’گئے دن کی مسافت ‘‘ چھپی ہے، جس میں اس کتاب کا ذکر کچھ یوں آیا ہے:

’’ اردوکی صرف ایک کتاب تھی اوراس کا نام ’’سرمایۂ اردو‘‘تھا۔ اس میں اردوکے نثراورنظم کے تقریباً سبھی نامورمصنفین کے رشحات فکر شامل تھے۔ اردو ادب سے اصل تعارف اس کتاب کی وساطت سے ہوا۔اسے مشہورمحقق حافظ محمود شیرانی نے مرتب کیا تھا۔ کسی بھی کلاس کے لیے اس سے بہتر اور خوبصورت انتخاب کبھی نہیں ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ کئی سال شامل نصاب رہی، پھرایوب خان کی تعلیمی اصلاحات کی زد میں آگئی۔‘‘

ممتاز شاعر احمد مشتاق نے بھی ’’سرمایۂ اردو ‘‘کو نصابی کتاب کے طور پرپڑھا اور آج جبکہ انھیں میٹرک کئے تقریباً ستربرس بیت گئے، وہ اس کتاب کو امریکا میں بیٹھ کر اب بھی یاد کرتے ہیں اور اسے نہایت عمدہ نصابی کتاب گردانتے ہیں۔

سرمایۂ اردو تقریباً 1940ء اور 1960ء کے درمیان پنجاب یونیورسٹی کے میٹرک کے اردو نصاب میں شامل رہی۔ ڈاکٹر صدیق جاوید نے لکھا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت اول کا سال انھیں خاصی کوشش کے باوجود معلوم نہ ہوسکا ،حتیٰ کہ اس سلسلے میں ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کا ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ کام آسکا نہ ہی پروفیسر نذیر احمد کی کتاب حافظ محمود شیرانی ، تحقیقی مطالعہ سے انھیں مددملی۔

کتاب میں علامہ اقبال کے بارے میں نوٹ میں دی گئی مندرجہ ذیل معلومات سے وہ سال اشاعت کا تعین کرتے ہیں۔:

’’اردو میں بانگ درا کے بعد ان کی جدید تصنیف ’’بال جبریل ‘‘ہے اور اس سے بھی تازہ تر ’’ضرب کلیم ‘‘اور ارمغان حجاز ‘‘ہیں۔‘‘

صدیق جاوید کے بقول ’’ارمغان حجاز علامہ اقبال کی21اپریل 1938کو وفات کے چند ماہ بعد شائع ہوئی تھی۔ اس داخلی شہادت کی بنا پر سرمایۂ اردو کا سال اشاعت 1938کے آخر یا اس کے بعد ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی کے بقول‘ انھوں نے 1940 میں یہ کتاب اپنے میٹرک کے نصاب میں پڑھی تھی۔صدیق جاوید کی معلومات کے مطابق سرمایۂ اردو 1958کے گردو پیش ایک برس تک نصاب میں شامل رہی۔ اس کتاب کی خوبیوں کے ذیل میں وہ کہتے ہیں:

سرمایۂ اردو کے مندرجات سے پتہ چلتا ہے کہ حافظ محمود شیرانی نے کوشش کی ہے کہ میٹریکولیشن کے طالب علموں کی توجہ ، تخیل اور حافظہ کی تربیت کی جائے۔ ان کی مرتبہ کتاب کے اسباق سے طالب علموں کی جمالیاتی اور اخلاقی تہذیب ہو۔ ان کے اندر نیشنلزم کا جذبہ ابھارا جائے۔ ان میں زباندانی کا مادہ پیدا کیا جائے۔ اس کتاب کی تدریس سے ان کی ٹھوس قابلیت بڑھے اور آج کل کی طرح ان کی تعلیم محض رسمی نہ رہ جائے سرمایۂ اردو کے لئے شیرانی صاحب نے جو ادب پارے اور شعری نمونے منتخب کئے ہیں ان میں سے بیشتر کا امتیاز یہ ہے کہ وہ ہمارے علمی کلچر‘ ادبی مزاج اور تہذیبی شعور کے خون میں شامل ہیں ۔ ‘‘

سرمایۂ اردو کو نصابی کے بجائے باقاعدہ کتاب کی صورت میں پیش کرنے کا کریڈٹ صدیق جاوید کو جاتا ہے جنھوں نے نہ صرف کتاب کی اشاعت میں ذاتی دلچسپی لی بلکہ اس کا نہایت عمدہ تعارف بھی لکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).