عورت کے حقوق؟ ہمارا وقت ضائع نہ کریں!


ابھی اگلے روز ایک جگہ بحث چھڑ گئی، ہمارا موقف یہ تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ خواتین کو ان کے مکمل انسانی وجود کے ساتھ تسلیم کیا جائے۔ ایک ایسا وجود جس کے امکانات لا محدود ہوں۔ کیوں کہ اپنی زندگی کے بارے میں خواتین کے شعور، احساسات اور تجربات کا فیصلہ تب ہی ہو سکتا ہے جب یہ دیکھا اور سمجھا جائے کہ معاشرہ ان سے کیا توقعات وابستہ کرتا ہے۔ اور انہیں سانس لینے اور سوچنے کی کس قدر آزادی میسر ہے۔ اس سلسلے میں بہت عرصے سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں جن میں سے کچھ سوالات یوں ہو سکتے ہیں۔

1۔ کیا خواتین کی اکثریت کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں؟
2۔ کیا ان کی محنت کو سراہا جاتا ہے چاہے اس کی نوعیت گھریلو ہو یا دفتری؟
3۔ کیا ان کی ذہانت اور عقل و دانش کو تسلیم کیا جا تا ہے۔ کتنے فیصد لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ عورتوں کے سر میں بھی ایک دماغ ہوتا ہے جس میں ہر طرح کی سوچ پنپ سکتی ہے؟
4۔ وہ کون سی وجوہات اور عوامل ہیں جن کی بنا ء پر اسے مرد سے کمتر سمجھا جاتا ہے؟
5۔ اگر وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہونا چاہے تو معاشرہ کس حد تک مددگار ہے؟

یہ اور کچھ ایسے ہی دوسرے سوالوں کو جب بحث کا موضوع بنایا گیا تو جو ردِ عمل سامنے آیا وہ خاصا مایوس کن تھا۔

ایک صاحب کہنے لگے یہ آپ کے مسائل تو نہیں لگتے آپ تو ایک پڑھی لکھی خود مختار خاتون ہیں۔ ایک اور صاحب کا خیال تھا کہ ہمیشہ خواتین کے حقوق کا ڈھنڈورا کیوں پیٹا جاتا ہے۔ تیسرے صاحب بولے کہ کیا مردوں کو ان کے سارے حقوق مل گئے ہیں!

کیا مرد کا استحصال نہیں ہوتا اور کیا آپ ایسا خیالی معاشرہ قائم کرنا چاہتی ہیں جہاں خواتین ہر طرح کے ظلم و ستم سے آزاد ہوں یا آپ چاہتی ہیں کہ یورپ کی پیروی میں ہم اپنے گھر کی عورتوں کو بالکل آزاد چھوڑ دیں۔

اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی بھی بات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اتنا شور ڈالا گیا کہ اصل سوال پس نوشت ہو جائیں اور بظاہر ایک ہی مقصد سامنے آئے کہ ہمیںیہ فضول باتیں پسند نہیں لہذاٰ آپ ہمارا وقت ضائع نہ کریں

ہم ایک ایسے روایتی معاشرے میں زندہ ہیں جہاں عورت کے لیے ایک آسودہ خانگی زندگی اس کی کامیابی کی انتہا سمجھی جاتی ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد ایک بہترین ماں اور ایک اچھی بیوی بننا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے اعتمادِ ذات، شعور کی پرداخت، صلاحیتوں کا استعمال، فکری بالیدگی اور عزتِ نفس کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ اگر کسی لڑکی کی مناسب عمر میں شادی ہو جائے اور اسے گھر چلانے کے لیے کوئی جدوجہد نہ کرنی پڑے تو یہ اس کی خوش نصیبی کی معراج ہے۔ کئی دفعہ لڑکی کی شادی کر کے یوں سکھ کا سانس لیا جاتاہے گویا ایک بحران تھا جو ٹل گیا۔ انہیں ناقص العقل صرف کہا نہیں جاتا بلکہ ثابت کرنے کے لیے پورا زور بھی لگا دیا جاتا ہے۔ ظلم کو چپ چاپ سہہ جانا، جسمانی و ذ ہنی تشدد برداشت کرنا، سوال نہ کرنا اور جواب نہ دینا اضافی خوبیاں شمار کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ ماؤ نے کہا ہے کہ ’’ مرد پر اگر تین قدغنیں ہیں تو عورت پر چار ہیں جن میں سے ایک مرد ہے ‘‘

ایسے میں سوال اٹھانا یا سوچنے پر آمادہ کرنا آسان کام نہیں۔ مغرب میں بھی یہی صورتحال پیش آ چکی ہے۔ جب خواتین کے برابری کے حقوق کی بحث کا آغاز ہوا تو ابتدائی ردِ عمل وہاں بھی منفی ہی تھا۔ اخباروں میں مضامین کی سرخیاں یوں لگا کرتی تھیں۔

IF you are a man : you must die
Only a dead man is a good man

اب مغرب تو بہت سے مسائل سے آزادی پا گیا اور بہت آگے نکل گیا مگر ہمارے ہاں کا پدرسری نظام جس کی جڑیں مختلف سماجوں رسوم و رواج اور مختلف ادوار تک پھیلی ہوئی ہیں اس میں بھی ہر دور کے حقائق پہلے سے مختلف ہیں جس نے عورتوں کی جدوجہد کو نئے نئے سانچوں میں ڈھالا ہے۔ عورتیں اب اپنے ماحول، تعلیم، کلاس اور شعور کے مطابق پدر شاہی کو سمجھنے، اس سے نجات حاصل کرنے اور ایک غیر استحصالی معاشرہ قائم کرنے کے مراحل سے گزر رہی ہیں۔ اب اس سفر میں کتنے دھکے کھانے پڑیں گے کتنے نشیب و فراز کا سامنا ہو گا یہ سب وقت اور حالات ہر منحصر ہے۔

مگر ایک بات تو طے ہے جب تک خواتین کو کم تر اور کم عقل سمجھا جاتا رہے گا۔ گھریلو اور ملکی سطح پر فیصلہ سازی میں شریک نہیں رکھا جائے گا۔ اپنے حق کے لیے لڑنا اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا نہیں سکھایا جائے گا۔ ایک بہتر اور کار آمد معاشرے کی توقع اور امید محال ہے۔ بنیاد کی ٹیڑھ درست کیے بغیر ایک اونچی اور مضبوط عمارت کا خواب دیکھنا صرف احمقوں کا کام ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).