کیا عورتیں سامانِ لذت کے سوا اور کچھ نہیں؟


قائد اعظم محمد علی جناح نے 1938 میں خواتین کے حقوق کی بات کی تھی جس کا مفہوم ہے کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک ان کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام نہ کریں۔ اس ملک میں خواتین کے لیے کسی قابل رحم حالت کی اجازت نہیں ہے۔

لیکن آج حقیقت کیا ہے؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بدرِ شاہی حکومت کا راج ہے۔ یہ ملک اور اس کے قوانین کسی کمزور کے لیے ہرگز نہیں ہیں۔ کسی عورت کی اوقات ہی کیا ہے یہاں؟ یہ معاشرہ اور اس کے ٹھیکدار عورت کو کیا سمجھتے ہیں؟ کھلونا؟ کٹھ پتلی؟ یا پھر مال غنیمت؟

کسی بھی عورت کے لیے اس بدرِ شاہی حکومت کے فرمودات ہی کم نیں کہ اس معاشرے کے بھوت بھی ڈرانے آ جاتے ہیں۔ اگر کوئی خاتون کسی مجبوری یا شوق کی وجہ سے گھر سے نکل ہی پڑتی ہے تو باہر کی دنیا کے مگرمچھ اس کو ہڑپ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ کچھ حضرات تو نہ اپنی عمر کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی تعلیم و تربیت کا۔ نازیبا الفاظ بولتے وقت یا ناپسندیدہ حرکات کرتے ہوۓ نہ تو ان کو اپنے عہدوں کا خیال آتا ہے اور نہ خاندانی وقار کا۔ کیونکہ خاندان اور معاشرے کی تمام تر اقدار تو عورت کو پابند کرنے کے لیے ہیں۔ ان بھیڑیوں کو تو کھلا چھوڑ رکھا ہے معاشرے نے۔ کالجز اور یونیورسٹیز ہوں یا آفسز سب جگہوں پر خواتین کو اخلاقی یا جنسی ہراسمینٹ کا سامنا ہے۔ یہ مرد اتنے دل پھینک کیوں ہوتے ہیں؟ لڑکی دیکھی نہیں کہ رالیں ٹپکنی شروع ہو جاتی ہیں ان کی۔ کیا اپنے کھر کی خواتین کو دیکھتے ہی بالکل ایسے ہی احسسات ہوتے ہیں یا کچھ مختلف ہوتا ہے؟

ہراساں کرنے کے لیے ایسے حربے استعمال کرتے ہیں کہ اگر ملکی ترقی کے لیے کریں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔ کبھی پڑھائی کے نام پر مدد کرنا کرنے کا حربہ تو کبھی جاب دلوانے یا جاب پر پروموشن کا لالچ۔ ایسے بہانوں کی لمبی فہرست ہے۔ لیکن ان ساری سماجی خدمات سے ان کی اپنی خواتین مستشنی ہیں۔ یہ نام نہاد بھائی اور انکلز کو ورکرز یا کلاس فیلوز کے لیے ہوتے ہیں اور اگر وہ تھوڑی بہت خوش شکل ہوں تو خدمات کی رفتار کافی تیز ہو جاتی ہے۔ ہم ان پڑھ یا جاہل حضرات سے تو ایسی حرکات کی امید کر سکتے ہیں لیکن جب اعلی تعلیم یافتہ حضرات ایسا چھچھوراپن کرتے ہیں تو بات سمجھ سے بالا ہو جاتی ہے۔ اب ایسے ماحول میں کیسے کام ہو سکتا ہے مردوں کے شانہ بشانہ؟

کچھ روز قبل میری ایک دوست کو ورک پلیس پر ان کے باس ہراساں کر رہے تھے۔ ان صاحب کی آفرز میں ایک اچھی جاب، مہنگے کپڑے اور پرفیومز، ڈنرز، لانگ ڈرائیوز، تفریحی مقامات کے ٹورز وغیرہ شامل تھے۔ وہ اور بھی کافی کچھ کر سکتے تھے اگر میری دوست ان سے دوستی کرتی یا سیدھے الفاظ میں کہوں تو ان کی ہوس کی بھینٹ چڑھتی۔ یہ حالات ہیں اس معاشرے کے مردوں کے۔ اگر کوئی لڑکی اپنی مجبوری کی وجہ سے گھر سے نکل ہی آتی ہے تو کیا مرد حضرات کو ٹھیکہ مل جاتا ہے اس پر جھپٹنے کا، اس کو نگلنے کا؟ ہم کیوں اتنے بے حس اور بے شرم ہو گۓ ہیں کہ ہمیں دوسروں کی عزتیں اچھالنا پسند ہو گیا ہے؟ جب ایسے ٹھرکی حضرات کو شرم دلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ان کی وضاحتیں توجہ فرماییٔں، آپ کیوں سامانِ لذت بن کر گھومتی ہیں؟ تو وہ کیا کریں؟؟ خود کی نظریں درست نہیں کرنی اور شکار پر الزام تراشی۔ بہت سی نقاب پوش اور برقع اوڑھنے والی عورتوں کو بھی اس ہراسانی کا سامنا ہے تو وہ کہاں جاییٔں؟

تو کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خواتین کے لیے بھی کوئی جگہ ہے؟ کاش کوئی قائد ہم عورتوں کو اس قابل رحم حالت سے نکالنے آ جاۓ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments