تبلیغی جماعت اور ہمارا رویہ


ایکسپریس وے کے ساتھ ضیاء مسجد ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے اپنے ذاتی پیسوں سے بنوائی تھی۔

بیس یا بائیس سال پہلے اس کے ساتھ کافی بڑی جگہ خالی تھی جس میں کرکٹ کی چار یا شاید پانچ وکٹیں تھیں۔

اب چھٹی کے دن کیونکہ سارا دن کھیلنا ہوتا تھا اس لیے ہر ٹیم کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ سب سے پہلے گراؤنڈ میں پہنچا جائے اور اچھی والی پیچ پہ قبضہ کر لیا جائے۔ اسی لیے صبح صبح ہی سارا گراؤنڈ بھر جاتا تھا۔

سردیوں کی ایک صبح ہم لوگ گراؤنڈ جانے کے لیے نکلے، ہمیں پورا یقین تھا کہ ہم سب سے پہلے پہنچیں گے۔ واقعی ہوا بھی یہی، جوں ہی ہم نے مسجد کو کراس کیا سامنے گراؤنڈ تقریباً خالی تھا جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ تھا کہ ایک بہترین دن ہمارا انتظار کر رہا تھا۔

عین اسی وقت بائیں طرف سے تین یا شاید چار لوگ نمودار ہوئے، اتنا یاد ہے کہ ان کے سروں پہ ٹوپیاں تھیں اور وہ باریش تھے۔ انہوں نے ہمیں روکا اور گفتگو شروع کر دی۔ ہم میں سے زیادہ تر کی رائے یہ تھی کہ ان کو جلدی سے ”مکایا“ جائے اور جس کام کے لیے ہم آئے ہیں اسے کر لیا جائے یعنی پہلے گراؤنڈ میں جایا جائے، کچھ کا خیال یہ تھا کیونکہ ہم بہت جلدی آئے ہیں اس لیے کچھ دیر مذہب کی بات سننے میں کوئی حرج نہیں۔ خیر ہم لوگ رک گئے۔ گفتگو روزمرہ کے معاملات سے شروع ہوئی، مذہب سے ہوتی ہوئی عبادات اور ان کے فضائل تک پہنچی اور ظاہر ہے اس میں کچھ وقت بھی گزر گیا۔ ان لوگوں کی گفتگو اس قدر پر اثر تھی کہ تقریباً ہر لڑکے نے سچے دل سے وعدہ کیا کہ ظہر(یا شاید جمعہ) کی نماز ہم لوگ اسی ضیاء مسجد میں ان کے ساتھ ادا کریں گے۔ الوداعی سلام کے بعد جب ہم گراؤنڈ کی طرف مڑے تو گراؤنڈ تقریباً بھر چکا تھا۔ شدید مایوسی اور دکھ سے کچھ دیر تو ہماری آواز ہی نہیں نکلی۔ کیونکہ ہمیں اندازہ تھا کہ اب پورا دن دوسری ٹیموں سے منتیں ترلے کرتے گزرے گا۔

آخر کار جب حواس بحال ہوئے تو سب سے پہلے تو ہم نے اس کو دھو دیا جو سب سے زیادہ ان کی باتیں سننے پر اصرار کر رہا تھا۔

پھر ایک بھائی ان تبلیغیوں کے بارے میں نقطہ نکال کر لائے کہ یہ بے وقت کی تبلیغ ہے، صرف نماز کے وقت لوگوں کو ”گھیرنے“ نکلا کریں۔ ایک بھائی نے جو تبلیغیوں​ کے بارے میں سنے سنائے قصے سنانے شروع کیے تو بس۔

کل میں نے بازار کی ایک مسجد کے باہر دو لڑکوں کو کچھ تبلیغی جماعت والوں سے ہاتھا پائی اور گالم گلوچ کرتے دیکھا تو یہ واقعہ یاد آیا اور یہ بھی سمجھ آئی کہ اجتماعی طور پر ہم اپنے رویوں میں اس قدر متشدد واقع ہوئے ہیں کہ اپنے مزاج یا عقیدے کے خلاف بات سننے کے روادار نہیں اور اپنے ذہنوں کو شکوک سے بھر کر رکھتے ہیں کہ کب کسی کے کام یا بات کو شک کی نظر سے دیکھنا پڑ جائے۔

بھائیو، ہم سے تو ایک دن کے کھیل کا ناغہ برداشت نہیں ہوتا اور وہ لوگ پتہ نہیں تین دن سے، چالیس دن سے یا شاید چار ماہ سے ہر قسم کی دنیاوی کاموں کو چھوڑ کر، پلے سے پیسے لگا کرایک نیک کام کر رہے ہیں۔

شاید تبلیغیوں سے ہمیں یہی مسئلہ ہے کہ وہ یہ کیوں کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).