سعودی عرب کی شطرنج اور ٹرمپ کی ترپ کی چال


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر اپنا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا کیا ہے – یہ ایک معنی خیز بات ہے – یہ دورہ دونوں ممالک کے لئے کامیاب رہا ہے – اس سلسلے میں تین باتیں میرے خیال میں زیادہ اہم ہیں –

1۔ حالیہ امریکی انتخابات سے باخبر احباب جانتے ہیں کہ ہیلری کلنٹن پر ایک بڑا الزام یہ تھا کہ اس کی الیکشن مہم کو سعودیہ فنڈنگ کر رہا ہے جس طرح ٹرمپ پر یہ الزام لگتا رہا کہ اسے روس فنڈنگ کر رہا ہے – ہیلری کلنٹن کو سعودی فنڈنگ کے بارے میں ٹرمپ کو بھی یقین تھا- ٹرمپ کی کامیابی کے بعد سعودی عرب کے لئے یہ ایک مشکل صورتحال تھی جس سے نمٹنے کے لئے سعودی ولی عہد نے امریکہ کا دورہ کیا اور یہ دورہ کامیاب رہا – اسی دورہ کے تسلسل میں موجودہ کامیاب دورہ کیا گیا ہے –

2. امریکہ اور ایران کے درمیان نیوکلیئر ڈیل خطہ کے لئے گیم چینجر بتائی گئی تھی – یہ اوباما کی اس خارجہ پالیسی کا حصہ تھا کہ امریکہ زیادہ دوست بنائے، امریکی خارجہ پالیسی کو ایکٹو کے بجائے passive خطوط پر استوار کیا جائے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں نئے محاز قائم کرنے سے پرہیز کیا جائے- امریکہ ایران ڈیل اور امریکہ کیوبا ڈیل اسی سلسلے کی کڑی تھی – اس ڈیل کے بعد سعودی عرب نے یہ سمجھا کہ اب وہ بقول فرید زکریا امریکی کمبل سے نکالا جا چکا ہے جہاں اب ایران نے جگہ حاصل کر لی ہے – اس کے بعد سعودی عرب اپنی فارن پالیسی میں نئے اتحادیوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا – روس و اسرائیل اور چین سے اس سلسلے میں تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی گئی مگر خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے جس کے اسباب پر پھر کبھی بات ہو گی – دوسری طرف سعودی عرب نے اپنے بین الملکی عزائم کی تکمیل کے لئے خود پر انحصار کرنے کی زیادہ کوشش کی – بحرین میں اپنی فوج بھیجی گئی – سیسی کو فل سپورٹ کیا گیا – شام میں اپنی من پسند پالیسی قائم کی گئی – مگر یمن کے محاذ نے سعودیہ کو پھنسا دیا ہے جس سے نکلنے کے لئے مسلم ممالک کی فوج کا طریقہ اس لئے بھی ناکام رہا کہ یہ نیٹو ٹائپ اتحاد دوسرے ممالک کے لئے زیادہ اسٹریٹجک مفادات نہیں رکھتا تھا ، اب امریکہ کی سرپرستی اس کی اسٹریٹجک اہمیت بڑھا دے گی یوں اس کی کشش میں اضافہ ممکن ہے – پاکستان نے بھی اس اتحاد کی طرف گرم جوشی کا مظاہرہ اس وقت کیا جب یہ دیکھا گیا کہ سعودی شہزادے کے کامیاب دورہ کے بعد امریکی سرپرستی سعودی عرب کو حاصل ہو گئی ہے –

 جہاں تک ایران کی بات ہے اس سلسلے میں دو باتیں اہم ہیں – امریکہ ایران نیوکلئیر ڈیل سے واقف دوست جانتے ہیں کہ اس سلسلے میں روحانی گورنمنٹ بہت گرم جوش تھی جب کہ سپریم لیڈر کی طرف سے سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا – اس ڈیل کے بعد ایران نے شام و عراق کے مسئلہ میں امریکہ کو کسی قسم کی رعایت دینے سے انکار کر دیا جس کی وجہ فارن پالیسی پر سپریم لیڈر اور پاسداران انقلاب کا غلبہ ہے- اس صورتحال نے امریکی خارجہ پالیسی کو خوب دھچکا دیا کیونکہ امریکی اس توقع میں تھے کہ ایران کی شکل میں انہیں خطے میں نیا مؤثر اتحادی ملا ہے جو عراق و شام میں ان کا مددگار ہو سکتا ہے – امریکی میڈیا اوباما پر سب سے بڑا الزام یہ لگاتا رہا کہ مڈل ایسٹ میں اب ہمارا کوئی دوست نہیں کیونکہ ہم پرانے دوستوں کو بھی چھوڑ چکے ہیں – یوں سعودیہ سے دوستی کی بحالی کی یہ موجودہ کامیاب کوشش اوباما سے پہلے کی خارجہ پالیسی کی طرف امریکہ کا رجوع ہے –

دوسرا امریکہ ایران نیوکلئیر ڈیل کی جہاں تک بات ہے اسے میرے خیال میں کوئی خطرہ نہیں – اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یورپی یونین میں امریکہ کے اہم ترین اتحادی اس ڈیل کے ضامن ہیں – ایرانی مکمل طور پر مطمئن ہیں کہ اس ڈیل پر عمل ہو گا- روحانی کا دوبارہ اقتدار میں آنا بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ جمہوری حکومت محاذ آرائی سے احتیاط برتے گی – ایران نے اس ڈیل کے بدلے ہتھیار نہیں مانگے تھے بلکہ APL طرز کی شپنگ لائن، مسافر بردار طیارے ، عالمی مالیاتی نظام میں شمولیت ، نیوکلئیر ٹیکنالوجی اور دوسری اس طرز کی چیزیں مانگی ہیں جن پر پیش رفت جاری ہے – سعودیہ نے وہی مانگا ہے جو اس کی ترجیحات میں سرفہرست ہے اور ایران نے وہ جو اس کی ترجیحات میں سرفہرست ہے –

3. ٹرمپ کی پوزیشن امریکہ کی داخلہ صورتحال میں کافی کمزور ہے – اس کی مقبولیت تیزی سے گر رہی ہے – ایف بی آئی اس کے روس کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں پوچھ گوچھ کر رہی ہے اور حالیہ انکشاف جس میں ٹرمپ نے خود بھی اعتراف کیا ہے کہ اس نے اسرائیل سے متعلق حساس معلومات روس کو فراہم کی ہیں نے ٹرمپ کو قومی سلامتی کے ضمن میں سیکورٹی رسک قرار دے دیا ہے – امریکیوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ جلد ہی ٹرمپ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کانگریس میں لائی جائے گی – داخلہ محاذ پر ناکامی ٹرمپ کو خارجہ محاذ پر زیادہ aggressive (مہم جو اور سخت گیر ) بنا دے گی اور یوں وہ چاہے گا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کا کوئی نیا محاذ کھول لے یا اس پالیسی میں ایسی کوئی تبدیلی لائے کہ امریکی رائے عامہ کی توجہ فورا اس جانب مبذول ہو جائے – اس کا عملی مظاہرہ ٹرمپ نے اس وقت کیا جب شام کے ایک غیر معروف فوجی اڈے پر بمباری کی گئی تھی – اس کا رسپانس امریکہ میں یہ دیکھنے میں آیا کہ سارا میڈیا ایک دم سے ٹرمپ کے حق میں چلا گیا – امریکی رائے عامہ ایمرجنسی کی صورتحال میں فورا حکومت کو سپورٹ کرنے لگ جاتی ہے –

ٹرمپ نے سعودی عرب میں دوران خطاب یہ کہا کہ دہشتگردی کو کسی عقیدہ سے نہیں جوڑا جا سکتا – یہ ایک حیران کن بات تھی کیونکہ ٹرمپ اس سے پہلے خاص طور پر انتخابی مہم کے دوران لفظ اسلامی دہشتگردی استعمال کرتا رہا تھا – اب ٹرمپ سے اس طرح کا کوئی زیادہ خطرہ نہیں رہا کہ وہ امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف کوئی سخت پالیسی بنا سکے کیونکہ اب اس کا موقف خارجہ پالیسی کے بدلنے سے بدل گیا ہے وگرنہ اس طرز کے تضاد کا وہ سامنا نہیں کر سکے گا کہ ایک طرف آپ مسلم دنیا کے سب سے بڑے اتحادی ہو دوسری طرف دہشتگردی کی سرکاری سطح پر حمایت کا الزام بھی لگا رہے ہو ؟

یہ درست ہے کہ عرب بادشاہتوں کے استحکام کا بڑا سبب امریکہ ہی ہے اور امریکہ کا مشرق وسطی اور اسلامی دنیا سے متعلق خارجہ پالیسیوں کا انحصار دوبارہ سے عرب بادشاہتوں کی طرف منتقل ہونے سے انہیں دوبارہ استحکام مل گیا ہے – اب عرب دنیا میں سعودی عرب اور مصر کا کردار پھر سے وسیع ہو گیا ہے یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے موجودہ دورہ سعودی عرب کے دوران سعودیہ کے ساتھ ساتھ مصر بھی آگے آگے تھا – قطر اور اسرائیل کی پوزیشن کم ہو گی – پاکستان کی بھی پوزیشن کم ہو گی جس میں اس وقت اضافہ ہوا تھا جب سعودی عرب نے امریکہ ، روس اور چین کی سرپرستی کے بغیر محض اپنی قوت پر مہم جوئی کی پالیسی بنائی تھی مگر پاکستان نے گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا – اپنی پوزیشن بحال ہونے پر سعودیہ بھی پاکستان سے متعلق گرم جوش نہیں رہا – زیادہ امکان ہے کہ شام کا مسئلہ جلد حل ہو جائے کیونکہ اردگان اور ٹرمپ کے درمیان بھی گرم جوشی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے –

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan