کچھ باتیں پنجابی کی


اکثر لوگوں کو یہ کہتے پایا کہ پنجابی سکھوں کی زبان ہے، پر اپنا تجربہ کچھ اور ہی کہانیاں سناتا ہے، اور موجودہ زمانے کی پنجابی میں مسلمانوں کا خاصہ ہاتھ بتاتا ہے۔ سوچا ہے کہ جو کچھ یاد ہے پیش کردوں، ہو سکتا ہے قارئین میں کچھ حضرات اس طرف متوجہ ہو کر اس سلسلے میں معلومات میں اضافہ کا باعث ہوں۔ قبل اس کے کہ میں اپنی قطعی طور پر غیر کتابی اور محض اکتسابی معلومات کا مظاہرہ کرنا شروع کروں مناسب لگتا ہے کہ مختصرالفاظ میں یہ بیان کردوں کہ، میری ناچیز رائے میں، پنجابی سکھوں کی زبان کیوں کر کہلا ئی۔

بات یہ ہے کہ پنجابی صرف اس کی زبان ہے جو اس کو بولے، بالکل دوسری زبانوں کی طرح۔ آج کی پنجابی سے ملتی جلتی زبان شمالی ہند وستان کے کئی علاقوں میں بولی جاتی تھی اور حضرت بابا گورو نانک سے بہت پہلے سے بولی جاتی تھی۔ وہ علاقے اب سکڑ کر محض مشرقی اور مغربی پنجاب ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس کو پڑہے لکھوں کی زبان میں کچھ یوں کہیں گے کہ پنجابی انڈو یوروپین زبانوں میں سے ایک زبان ہے۔

جن ودوانوں نے پنجابی کے ڈانڈے یوروپین زبانوں سے ملائے ان کے پاس بہت سے ثبوت ہوں گے، پر اگرمیں ان ثبوتوں کی تلاش میں نکلا تو ڈر ہے کہ گم نہ ہو جاوں، کہ یہ میرا مضمون نہیں ہے اور نہ ہی اس کا اس بات سے کوئی تعلق ہے جو میں کہنے جا رہا ہوں۔ دوسرے، بڑے بڑے ودوانوں کی باتوں کو سن کر بس سر ہلا دینا چاہیے۔ میں تو بس یہی کرتا ہوں ادھر کسی بڑے ودوان یا نکتہ دان کی بات سنی ادھر سر ہلا دیا، بز اخفش کی طرح، یہ سوچے بغیر کہ بز اخفش کے تو سر میں بھیجا ہی نہیں تھا۔

بات سے بات نکلے توبات کہاں سے کہاں تک پہنچتی ہے، اس کا تجربہ بس یہ سطور لکھنے میں ہوا۔ تو بات یہ ہو رہی تھی کہ پنجابی سکھوں کی زبان کیوںکر کہلائی۔ لگتا ہے کہ یہ یوں ہوا کہ حضرت بابا صاحب گو کہ فارسی بھی جانتے تھے، کہ ملک کی سرکاری زبان تھی اور شاید عربی بھی جانتے ہوں، پر پنجابی ضرور بولتے تھے، کہ پنجاب کے علاقے میں پیدا ہوئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جب انہوں نے اپنی تعلیمات کا پرچارشروع کیا تو وہ بھی پنجابی ہی میں تھا کیوںکہ ان کے مخاطب سب پنجاب ہی کے رہنے والے تھے۔

حضرت بابا صاحب نے اپنی مومنانہ فراست سے یہ اندازہ لگا لیا کہ ان کو زبانی کلامی سمجھاتے رہیں تو یہ سر ہلاتے رہیں گے، بز اخفش کی طرح، اور بھر بھول جائیں گے، سو ان کو لکھ کر دو۔

کہنا آسان ہے کہ لکھ کردو کرنا خاصہ مشکل کہ اس زمانے میں جو بھی پنجابی لکھتا تھا وہ فارسی رسم الخط میں لکھتا تھا اور سچی بات تو یہ ہے کہ فارسی مسجدوں اور سرکاری دفتروں سے کبھی باہر نہ نکل پائی اس لئے فارسی رسم الخط میں اپنے پندو نصائح لکھنا ان کو گویا ایک خاص طبقے تک محدود کرنا تھا۔ اور پنجابی کا کو ئی رسم الخط اس وقت رائج نہیں تھا۔ سو اس کے لئے خدا تعالی نے رہنمائی فرمائی اور بابا صاحب نے گورمکھی ایجاد کی۔ بس پھر کیا تھا گرنتھ صاحب لکھی گئی، تحریر میں آجانے کی وجہ سے گوربانیاں زبان زد عام ہوئیں اور گورمکھی میں لکھے پنجابی لٹریچر کی بنیاد پڑ گئی۔

تو اگر کوئی صاحب یہ کہیں کہ پنجابی سکھوں کی زبان ہے تو وہ اس حد تک درست کہیں گے کہ گورمکھی کی وجہ سے پنجابی ”لہجہ“ میں لکھنے کا رواج پڑا اور گور مکھی میں زیادہ تر سکھ حضرات ہی لکھتے ہیں۔ پر پھر وہی بات کہ پنجابی گورمکھی کے ساتھ تو پیدا نہیں ہوئی تھی۔ پنجابی تو اس وقت سے ہے، کسی نہ کسی شکل میں، جب سے ادھر یورپ کی طرف سے لوگ آنا شروع ہوئے۔

یورپ سے آنے والے لوگوں، یعنی آریوں، ہنوں اور جاٹوں نے جب شمالی ہندوستان کے دراوڑیوں سے لین دین کیا، ان کی عورتیں اپنے گھروں میں ڈال لیں اور ان کو جنوبی علاقوں میں دھکیل دیا تو جو لسانی ملغوبہ وجود میں آیا اسے پنجابی کی لکڑنانی کہا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض اردوکی تاریخ سے واقف حضرات چونکیں کہ ارے اس طرح تو اردو وجود میں آئی تھی۔

اردو کا فارسی اور ترکی بولنے والےفوجیوں کی مقامی لوگوں سے میل جول اور کاروبار کی کوشش کے نتیجے میں وجود میں آنا تو گویا کل کی بات ہے گو کہ لگتا ہے، وہ عورتیں گھر میں ڈالنے والی بات گو کہ کم ہوئی لیکن ہوئی ضرور ہوگی، ورنہ حسن نثار صاحب اتنے دکھی نہ ہوتے۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو میں نے پنجابی کے معرض وجود میں آنے کا جو سماں باندھا ہے وہ بس اردو کی پیدائش ہی سے تھوڑے سے فرق کے ساتھ مشتق ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اور بہت سی زبانیں مثلا سواحلی، ماریشس میں بولی جانے والی بروکن فرنچ، پجن انگلش جو کہ انیسویں صدی میں چینیوں اور برطانیوں کے لین دین سے وجود میں آئی۔ یہ نام تو اس قدر مقبول ہوا کہ اب بہت سے ملکوں کے ساتھ ایک پجن انگلش کی قسم، مثلاً نائجیرین پجن انگلش منسلک ہے دم چھلے کی طرح۔

تو صاحبو زبانیں اسی طرح بنتی ہیں میل جول کےاور لین دین کے نتیجے میں۔ پنجابی بھی اسی طرح بنی تھی، اور یہ زبان اتنی قدیم ہے کہ پرانی زبانوں کے ماہرین اس کو انڈو یوروپین یا انڈو جرمینک زبانوں میں شمار کرتے ہیں۔ تو پھر یہ تو طے ہے کہ پنجابی صرف سکھوں کی زبان نہیں، بلکہ جیسا کہ میں نے کہا، پنجابی ان کی زبان ہے جو اسے بولتے ہیں۔

دوسری طرف یہ بھی طے ہے کہ گورمکھی نے پنجابی کو بہت فائدہ دیا۔ پر وہ بات جو ان سطور کےلکھنے کا باعث ہوئی وہ یہ ہے کہ آجکی پنجابی پر مسلمان صوفیوں کا گہرا اثر ہے، اتنا گہراثر کہ سکھ مذہب خود کم از کم ایک یعنی حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے ابیات اور ان کی بانیوں سے خوشہ چینی کرتا نظر آتا ہے۔ حضرت بابا گورو نانک بہت متاثر تھے حضرت گنج شکر کے فلسفہ اور معرفت سے، اتنے کہ بابا صاحب کے پرچار میں حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کا کلام جا بجا ملتا ہے۔

یہ اطلاع میرے لئے تو بے حد حیرت انگیز تھی کہ گرنتھ صاحب میں حضرت باوا فرید الدین گنج شکر کے سو سے زیادہ ابیات اور بانیاں ہیں اور کہ ان میں بعض پر حضرت باوانانک صاحب اور ان کے بعد کے گورووں نے تفسیریں بھی لکھی ہیں۔ حیرت کی وجہ کچھ یہ ہے کہ آج کوئی غلطی سےبھی یہ کہہ دے کہ حضرت باوا گورو نانک صاحب اسلام سے بہت متاثر تھے توبعض سکھ حضرات مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے پرانے بزرگ بہت وسیع القلب اور وسیع النظر تھے۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ باوا نانک تو باوا فرید الدین، 1173۔ 1266، کے بعد یعنی 1469میں پیدا ہوئے تھے، اور ان کے زمانے میں کوئی انٹرنیٹ وغیرہ بھی نہیں تھا کہ آدمی یہ سمجھ لے کہ کہیں سرچ کرتے میں نظر پڑ گئی ہوگی اور پھر وہیں سے انہوں نے باوا فرید کا کلام گرنتھ صاحب میں اٹکا لیا ہوگا۔ تاریخ دانوں کے مطابق بابا نانک خود گئے اور بابا فرید کی درگاہ کے متولی صاحب سے دو بار ملے۔ اور یوں گرنتھ صاحب کے 112 اشلوک حضرت بابا فرید کے کلام سے آئے۔ پتا چلتا ہے کہ بعد کے گورووں نے بھی حضرت بابا فرید کے کلام سے نہ صرف استفادہ فرمایا بلکہ اس پر مضامین بھی لکھے، زیادہ ترمنظوم تبصروں کی صورت میں۔

یہ تو تقریبا وہ صورت ہو گئی کہ الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔ یعنی ہم میں سے بعض حضرات جو پنجابی کو سکھوں کی جھولی میں یہ کہ کر ڈالنے کو تیار بیٹھے رہتے ہیں کہ پنجابی سکھوں کی زبان ہے ان کو اب کوئی اور بہانہ تلاش کرنا چاہیے پنجابی نہ بولنے کا۔ تو پھر یہ تو طے ہے کہ وہ زبان کہ جس کو پنجابی کہیں جاروب کشی کر چکی ہے خانقاہوں میں۔

بابا فرید اور بابا نانک کے بعد بھی پنجابی صوفیانہ کلام پھلتا پھولتا رہا۔ اس سلسلے میں قابل ذکر نام ہیں: شاہ حسین، 1538۔ 1599، سلطان باھو، 1628۔ 1691، شاہ شرف، 1640۔ 1724
اور بلھے شاہ، 1680۔ 1757، اور پھر تقریبا انہی بزرگوں کے آخر کے زمانے میں منظوم قصے کہانیوں کا دور شروع ہو گیا۔ مثلا ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال جن میں کہانی کی ساتھ ساتھ کچھ ٹوٹکے کچھ پند و نصائح گویا ملے جلے ہوتے تھے گو کہ صوفیانہ کلام کی گہرائی ان میں نہیں تھی۔

اس کے بعد گویا صوفی شاعروں اور قصہ گوووں کا دور ختم ہوا اور اور کچھ نام، خاص طور پر انگریزوں کے دور میں، اس قسم کے آنے لگے: نانک سنگھ، ویر سنگھ اور اس کے بعد امریتا پریتم۔ اور ہو سکتا ہے کہ اسی آخری دور میں یہ خیال جڑپکڑ گیا ہو کہ پنجابی سکھوں کی زبان ہے۔ ایک زمانے میں میرا اپنا بھی یہی خیال تھا۔ لیکن جب ایسے شواہد کی تعداد ایک خاص حد سے بڑھ گئی تو سوچا کہ دیکھنا چاہیے اور نتیجہ برا بھلا جو بھی ہے آپ کے سامنے ہے۔

مضمون کچھ تشنہ رہ جائے گا اگر میں ان شواہد میں سے کچھ پیش نہ کروں۔ اور میں طول طویل فہرست پیش کرنے نہیں جا رہا کہ قارئین کھونے کا ڈر ہے، صرف بطور مشتے از خروارے کچھ پیش کر دیتا ہوں۔

ہم یہ تودیکھ چکے کہ پنجابی ادب کی ابتدا ہی کچھ یوں ہوئی کہ حضرت شیخ فریدالدین، جن کو میں اب تک بابا فرید کے نام سے پکارتا آیا ہوں، نے اپنی کیفیات کے اظہار کے لئے یا پندو نصائح کے طور پر جو اشعار کہے ان میں بعض اوقات عربی اور فارسی الفاظ استعمال کیے۔ مثال کے طور پر:

1۔ فریدا، جے توں عقل لطیف کالے لکھ نہ لیکھ اپنے گریوان میں سر نیواں کر ویکھ
کہ اے فرید تجھ میں اگر عقل لطیف ہے تو کالے اعمال اپنے اعمال نامے میں شامل نہ کراور دوسروں پر انگشت نمائی سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لو۔

2۔ فریدا خاک نہ نندیے خاکو جیڈھ نہ کوئی جیوندیاں پیراں تھلے مویاں اوپر ہوئی۔
کہ اے فرید خاک کو معمولی نہ جانوکہ اگر یہ تمہارے جیتے جی تمہارے پیروں کے نیچے ہے تو موت کے بعد تمہارے اوپر ہو گی۔

۔ 3۔ بڈھا ہویا شیخ فرید کنبن لگی دیہہ جے سو ورھیا جیونا تن ہو سی کھیہ
شیخ فرید بڈھا ہوا توگاؤں کے لوگ اس سے گھبرانے لگے اگر سو برس بھی جی گیا توبھی اس کا تن تو مٹی میں ہی ملے گا۔
حضرت بابا صاحب کے بہت سے اشعار ٹھیٹھ پنجابی میں بھی تھے جن میں کہیں ہندی کے الفاظ بھی جڑے نظر آتے تھے، گو کہ مضامین صوفیانہ ہی بندھے ہوتے تھے۔

4۔ فریدا میں جانیا دکھ مجھ کو دکھ سبھا ایہہ جگ اچے چڑھ کے دیکھیاتاں گھر گھر ایہا اگ
کہ اے فرید میرا خیال تھا کہ میں دکھی ہوں اور یہ دنیا میرے لئے دکھوں کا گھر ہے پر ذرا اپنے حالات سے بالا ہوکر دیکھا تو ہر گھر میں یہی آگ لگی تھی۔

5۔ کوک فریدا کوک، جیویں راکھا جوار جب لگ ٹانڈا نہ گرے تب لگ کوک پکار
یعنی اے فرید شور مچا اس طرح جیسے جوار کی فصل کا رکھوالا شور مچاتا ہے اور اسی کی طرح اس وقت تک شورمچاتا رہ جب تک کہ فصل کٹ نہ جائے۔ یعنی جب تک کہ خا تمہ بالخیر نہ ہو جائے۔

ان اشعار سے یہ پتا چلتا ہے کہ پنجابی ادب میں بہت سے عربی اور فارسی الفاظ مستعمل تھے جن میں سے بعض بعد کو متروک ہو گئے۔ اور اس بات کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعض الفاظ کی ہیئت ہی بدل گئی نطق کے فرق کی وجہ سے۔ بس یہ سمجھ لیں کہ قادیان کا ابتدائی نام فتح پور قاضیاں تھا اور اس کو فتح پور قاضیاں سے ”کادیاں“ بننے میں ایک صدی سے بھی کم عرصہ لگا تھا اور یہاں تو کئی صدیاں بیت چکی ہیں۔

اب یہ حالت ہے کہ کبھی کبھار ایک آدھ لفظ یا ایک آدھ فقرہ ایسا سامنے آجاتا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے۔ مثلا کسی بچے یا بڑے سے نقصان ہو جائے تو اردو میں کہا جاتا ہے ”کوئی بات نہیں“ پر پنجابی مین اس کے لئے فقرہ ہے ”اوہ جانے“۔ ایک بار جو توجہ ہوئی تو خیال آیاکہ ہو نہ ہو یہ فقرہ کسی صوفی کے منہ سے نکلا ہوگا جس نے نقصان کو پورا کرنے والے کی طرف اشارہ کہ وہ یعنی اللہ جانے کہ یہ نقصان کیوں کر پورا ہوگا۔

ایک بظاہر پنجابی لفظ ہے گتاوا۔ یاد رہےکہ پنجابی میں بھوسہ اور چوکر کے ملغوبے کو گتاوا کہا جاتا ہے، اور بعض اوقات کسی بھی ملغوبے کو۔ اب ذرا نوٹ کریں کہ ہندوستانی زبانوں میں غین اور گاف کو اکثر متبادل کے طوراستعمال کیا جاتا ہے۔ تو گویا گتاوا، غتاوا ہوا۔ اب دیکھیں کہ یہ لفظ غثاء کے کتنا قریب ہے غثاء کے لفظی معنی بھی تقریبا ملغوبہ ہی بنتے ہیں، ایسا ملغوبہ جس میں تنکے بھی ہوں۔ مزہ دوبالا ہو جائے اگر آپ کو یہ یقین آجائے کہ عربی نطق میں ث کی آواز ت کے اتنا قریب ہوتی ہے کہ بعض عربوں کو بھی ادائیگی میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور وہ ث کو ت ہی بول جاتے ہیں۔

اوپر بیان کردہ دوسرے شواہد کی موجودگی میں آخری دو شواہد اس چیز کو ثابت کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ پنجابی بول چال اور اور لکھت پڑھت پر مسلمان صوفیاء کا گہرا اثر ہے۔ ان دو شواہد کے شامل کرنے کی وجہ میری یہ جاننے کی خواہش ہے کہ کیا کوئی ایسی پنجابی لغت کی کتاب موجود ہے جس میں کہ الفاظ اور فقرات کی یا تاریخی کنہ بھی ساتھ دی گئی ہو؟ etymology

اس تعلق میں میں میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اگر کسی صاحب علم کی نظر میں کوئی ایسی کتاب ہے جس میں کہ پنجابی میں عربی اور فارسی سے درآمد شدہ الفاظ کی فہرست ہے تو جواب آں مضموں کے تحت کسی آئندہ شمارے میں اس کا ذکر فرمادیں ورنہ مجھ ایسے کم علم لوگ اٹکل سے کام لیتے رہیں گے اور مضامین لکھتے رہیں گے۔

میں نے اس مضموں کے لکھنے میں کچھ اپنی یادداشت سے اور کچھ ذیل کے لنکس سے مدد لی تھی۔

 

http://en.wikipedia.org/wiki/Fariduddin_Ganjshakar
https://en.wikipedia.org/wiki/Guru_Nanak
https://en.wikipedia.org/wiki/Punjabi_language


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).