مسلمانوں لیڈروں کا امریکی ڈھولک پر رقص


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کا دو روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد اسرائیل پہنچ چکے ہیں جہاں انہوں نے اسرائیل کو امریکہ کا خصوصی دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین کا تنازعہ اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں کے درمیان براہ راست بات چیت کے ذریعے ہی طے ہو سکتا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی اس مسئلہ کا حتمی حل تلاش کرنے کےلئے پیش رفت ہوگی تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ انہیں ابھی پتہ نہیں ہے کہ یہ کیسے ہوگا۔ اس سے قبل کل رات ریاض میں مسلمان و عرب ملکوں کے سربراہوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےانہوں نے دہشت گردی ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور مسلمان ملکوں پر واضح کیا کہ انہیں خود اس جنگ کو لڑنا ہوگا اور مذہب کے نام پر خوں ریزی کرنے والوں کو اپنے معاشروں اور اس دنیا سے نکال باہر کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک صرف امریکہ پر انحصار نہیں کر سکتے بلکہ انہیں خود یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ کیسا مستقبل چاہتے ہیں اور کس ماحول میں اپنے بچوں کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ عقائد ، فرقوں یا مختلف تہذیبوں کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ ایسے مجرموں کے خلاف لڑائی ہے جو مذہب کے نام پر معصوم لوگوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ یہ نیکی اور بدی کے درمیان تصادم ہے۔ تاہم ان کی تقریر کی بنیاد ایران کو دہشت گردی کا سرپرست قرار دینے پر تھی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ایران دنیا بھر میں فرقہ واریت ، تنازعات ، دہشت اور تباہی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اسی کی مدد سے شام کے بشار الاسد نے ناقابل بیان جرائم سرزد کئے ہیں۔ اس لئے جب تک ایرانی قیادت اپنا طرز عمل تبدیل نہیں کرتی تو تمام باضمیر اقوام کو اسے تنہا کرنے کےلئے متحد ہو جانا چاہئے۔ امریکی صدر کا یہ پیغام سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے اس موقف کے مطابق تھا کہ ایران دہشت گردی کا سرچشمہ ہے۔

یوں تو سعودی عرب کے دورہ کے دوران امریکی صدر کی تقریر میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں تھی لیکن ایسے سیاسی لیڈر کو جو ایک سال قبل اسلام اور مسلمانوں کو امریکہ کا دشمن قرار دیتا تھا اور مسلمانوں کے امریکہ داخلے پر مستقل پابندی لگانے کا دعویدار تھا، اب مسلمانوں کی طرف دوستی اور محبت کا ہاتھ بڑھاتے دیکھ کر حیرت ضرور ہوتی ہے۔ تاہم اس حیرت کا جواب اربوں ڈالر کے معاہدے ، سعودی عرب کو جدید امریکی اسلحہ کی فروخت کے وعدے اور عرب اور دیگر مسلمان ملکوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران دشمن ایجنڈے پر اکٹھا کرنے کی کوششوں کی صورت میں سامنا آجاتا ہے۔ صدر ٹرمپ، سعودی شاہ اور دیگر عرب لیڈروں نے داعش ، القاعدہ یا دہشت گردوں کے دیگر گروہوں کا ذکر کرنے کی بجائے ایران کو اسلام اور دنیا کا دشمن قرار دینے اور دنیا کے مسائل کا مرکز بتانے پر اپنی پوری صلاحیتیں صرف کیں۔ کسی عرب یا مسلمان رہنما کو صدر ٹرمپ سے یہ استفسار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ صرف سال بھر قبل وہ کس بنیاد پر اسلام کو امریکہ سے شدید نفرت کرنے والا مذہب قرار دے رہے تھے اور اب ایسی کون سی تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ وہ صرف اس لئے سب سے پہلے سعودی عرب کے غیر ملکی دورے پر تشریف لائے ہیں کہ وہاں اسلام کے مقدس ترین مقامات موجود ہیں۔

ان سے یہ سوال بھی نہیں پوچھا گیا کہ گزشتہ برس تو وہ اسلام اور مسلمانوں کی امریکہ اور مغرب سے شدید نفرت کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی بات کرتے تھے لیکن اب وہ مسلمان لیڈروں کے درمیان خوشی سے جھومتے ہوئے انہیں اپنا دوست اور ہمنوا کیوں کر قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ سوال کوئی ایسا لیڈر پوچھ سکتا ہے جو اپنے عوام کی حقیقی نمائندگی کرتا ہو۔ بیشتر مسلمان ملکوں کے لیڈر امریکہ جیسے بڑے ملک کی سرپرستی کے خواہاں رہتے ہیں تاکہ وہ اپنے ملکوں کے عوام پر مسلط رہ سکیں۔ امریکہ بھی خواہ وہاں کسی بھی ذہنی سطح اور علمی استعداد کا صدر موجود ہو، ایسے رہنماؤں کی تلاش میں رہتا ہے جو اپنے علاقے میں اس کے مفادات کا تحفظ کرنے کےلئے تیار ہو۔ اسی لئے ٹرمپ کو سعودی عرب یا دیگر عرب ملکوں میں نہ تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی دکھائی دی اور نہ ہی صنفی تعصب کے بارے میں بات کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔ وہ خالص سیاسی اور اقتصادی مقصد سے سعودی عرب آئے تھے اور کسی حد تک وہ یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

دنیا کے 50 سے زائد مسلمان و عرب ملکوں کے رہنماؤں کے جھرمٹ میں کسی کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ سوال کرنے کا حوصلہ بھی نہیں ہوا کہ ایران کی سیاست کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کیا وہ اسرائیلی حکومت کے اقدامات کو ظلم اور انسانیت کے خلاف جرم کہنے کا حوصلہ بھی کریں گے۔ کیا وہ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو سے یہ سوال کریں گے کہ انہوں نے غزہ کے دس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو انسانیت کے کس اصول یا محبت کے کون سے پیغام کے تحت محصور کیا ہوا ہے۔ یا مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں آباد کرکے وہ عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سے باز رہے۔ صدر ٹرمپ کے منہ سے فلسطینیوں کے حق میں کوئی کلمہ خیر ادا نہیں ہوا۔ لیکن ایران کے ساتھ حماس اور حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دینا ضروری سمجھا گیا۔ انہیں شام میں انسانوں پر ہونے والے مظالم تو یاد رہے لیکن یمن میں سعودی عرب کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکت اور ملک کی تباہی پر انہیں کوئی تردد نہیں ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں یا اسلامی ملکوں کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ اپنے کج رو عالمی تصور کی روشنی میں دنیا کو تقسیم کرنے اور اپنے نامزد کردہ دشمن کے خلاف محاذ آرائی کےلئے نئے حلیف تلاش کرنے اور پرانے حلیفوں کے ساتھ تجدید عہد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس موقع پر موجود تمام مسلمان اور خاص طور سے عرب لیڈروں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ انہیں مسلمانوں کے مفادات ، امن کے قیام یا فلسطینیوں کے مسئلہ کو حل کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ صرف اپنی حکمرانی مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کےلئے امریکی صدر کی اعانت حاصل کرنے کےلئے وہ کوئی بھی قیمت ادا کر سکتے ہیں اور کسی بھی بے ضمیری کو برا نہیں سمجھتے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ دہشت گردی کے خاتمہ کےلئے مسلمان ملکوں کو بیدار کرنا چاہتے تھے لیکن وہ اس کے ساتھ ہی ان میں تفرقہ ڈالنے اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کا پیغام بھی دے رہے تھے۔ وہ ایران کو فرقہ واریت اور دہشت گردی کا سرپرست کہتے ہوئے یہ بھول رہے تھے کہ جن دو گروہوں القاعدہ اور داعش نے گزشتہ پندرہ برس کے دوران امریکہ کے ساتھ اعلان جنگ کیا ہوا ہے اور کسی بھی قیمت پر اسے نقصان پہنچانے کا اعلان کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے سعودی عرب کی کوکھ سے ہی جنم لیا تھا۔ وہ یہ تسلیم کرنے میں بھی ناکام رہے کہ اس وقت دنیا جس نام نہاد اسلامی دہشت گردی کا سامنا کر رہی ہے ، وہ شدت پسند سنی عقیدہ رکھنے والے گروہوں کی برپا کی ہوئی ہے۔ القاعدہ ہو یا داعش ، طالبان ہوں یا بوکو حرام یا مشرق وسطیٰ سمیت دیگر ملکوں میں ابھرنے والے دیگر ایسے گروہ جو اپنے ملکوں کے علاوہ مغربی ممالک اور امریکہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ان میں سے کسی کا تعلق شیعہ عقائد سے نہیں ہے۔ لبنان کے گروہ حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دے کر ۔۔۔۔۔۔ جو اس علاقے میں اسرائیل کی سیاسی و فوجی زور زبردستی کے خلاف مزاحمت کی تحریک کے طور پر سامنے آنے والا گروہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ان سب دہشت گرد گروہوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا جو نہ صرف یہ کہ سنی عقائد سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ان میں سے اکثر مخالف مسالک اور عقائد کے خلاف جنگ کرنا اور ان سے وابستہ لوگوں کو ہلاک کرنا بھی جائز سمجھتے ہیں۔

امریکہ کے پرجوش اور اسلام سے محبت کے نئے دعویدار صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جن چھ ملکوں کے باشندوں پر امریکہ میں داخلہ پر پابندی لگانے کے حکم نامہ پر دستخط کر رکھے ہیں اور جس پر عدالتی حکم کی وجہ سے عمل درآمد رکا ہوا ہے ۔۔۔۔۔ ان میں سے ایران کے سوا باقی سارے ملک سنی العقیدہ اور عرب ہیں۔ ابھی تک ٹرمپ حکومت اپنے اس فیصلہ پر عمل کروانے کے لیے مصر ہے اور اعلیٰ عدالت میں صدارتی حکم کی حمایت میں دلائل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود صدر ٹرمپ کو اسلامی ملکوں سے خطاب کرتے ہوئے صرف ایران اور شیعہ گروہ دہشت گردی کا سبب دکھائی دیئے۔ دنیا میں دہشت گردی کے خاتمہ کےلئے جس وسیع النظری اور سیاسی و گروہی مفادات سے بالاتر ہو کو اشتراک عمل پیدا کرنے کی ضرورت ہے، صدر ٹرمپ اس کا اظہار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ واشنگٹن میں سنگین سیاسی صورتحال کا سامنا کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو ریاض میں ایسے مسلمان لیڈر میسر آ گئے تھے جو انہیں دنیا کی اچھوتی شخصیت اور ناممکن کو ممکن بنا دینے والا شخص قرار دینے کےلئے بے چین تھے۔ اور ٹرمپ اس تعریف و توصیف سے مغلوب یہ اقرار کر رہے تھے کہ ’’ہاں بس آپ نے ہی مجھے پہچانا ہے۔ میں ہی ہوں جو ہر مسئلہ چٹکی بجاتے حل کر سکتا ہوں‘‘۔ تو اس میں کیا عجب ہے کہ امریکہ کا صدر مصر کے صدر کو اپنا عزیز دوست قرار دیتے ہوئے اس کے پاپوش کی تعریف میں رطب اللسان تھا۔

پاکستان اور اس کے وزیراعظم نواز شریف اس سارے عرب اسلامی امریکی اتحاد میں خاموش تماشائی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ ایران پاکستان کا ہمسایہ ہے لیکن نواز شریف ایک ایسے اتحاد میں اپنے ملک کو دھکیلنے کا سبب بن رہے ہیں جو ملک کی سفارتی و سیاسی حیثیت میں تو اضافہ نہیں کرے گا لیکن اس کے ایک بااثر ہمسایہ ملک کو دشمن بنانے کا سبب ضرور بن جائے گا۔ پاکستانی لیڈر اپنی قوم کو مصائب و مشکلات پر قابو پانے کی بے پناہ صلاحیت کا حامل قرار دیتے رہتے ہیں۔ لیکن ماضی قریب کے تجربات کی روشنی میں بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس ملک کے لیڈر ان مصائب و مشکلات کو دعوت دینے کا سبب بنتے رہے ہیں جنہیں وہاں کے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے نواز شریف بھی اپنے پیش روؤں کے نقش قدم پر ہی چل رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali