تعلیم کے معاملے میں حکمرانوں کی بے حسی


(انور بلوچ)۔

کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے بہترین تعلیمی نظام ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوا کرتا ہے اگر اس سے بھی زیادہ کہا جائے تو بلکل بھی مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں اور کرتی آرہی ہیں جنہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا کاغذ اور قلم کو بنایا ہے آج مغرب جس تیزی سے ترقی کر رہا ہے نئے نئے تجربات، سیاسی میدان میں نئی ایجادات سب تعلیم کے مرحونِ منت ہے۔ بہترین نظام تعلیم ہی طالب علم کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ دنیا میں اپنے ملک کانام روشن کرسکے اور ان ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہوسکے۔ اس ملک کا تعلیمی نظام کس قدر لولا لنگڑا سے اس بات کا اندازہ حال میں کیے گئے سروے سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی سو بہترین جامعات میں پاکستان کی جامعہ کا نام بھی نہیں جبکہ پڑوسی ملک کی دس جامعات کو بہترین یونیوسٹی کا اعزاز حاصل ہے۔

کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی یہ رپوٹ مجھے بار بار لکھنے پر مجبور کر رہی تھی سوچا چھپ ہی رہوں تاکہ صاحب کے چاہنے والے کہیں ناراض نہ ہو جائیں لیکن یہ بات بھی مجھے ڈسنے لگی کہیں تو بھی جانبدار صحافیوں کی طرح ضمیر کو مردہ کرنے پر طلوع ہونے تو نہیں چلے؟
خیر ہم اتنے بڑے لکھاری تو نہیں لیکن صاحب مردہ ضمیری بھی سے ہضم نہیں ہوتی۔

یہ ہے پی بی۔ حلقہ 26 شہر کا واحد گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول ڈیرہ اللہ یار جس کی تعمیرکو کئی دہائیاں ہوگئی ہیں۔ مگر عمارت خستہ حالی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسکول میں طلباء کی تعداد 1700 ہے جبکہ کلاس رومز کی تعداد صرف 19 ہے۔ باقی کے طلباء سخت گرمی میں یا برآمدوں اور دیوار کے سائے میں بیٹھتے ہیں۔ اسکول میں سائنس لیبارٹری، لائبریری، کمپیوٹر لیب ایک خواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس کا شاید طلباء کو معلوم ہی نہیں کہ یہ کیا بلا ہے۔ ہماری حکومت وقت، حلقہ کے ایم پی اے سے مطالبہ ہے کہ اسکول جو کہ ان کی بیٹھک کے بلکل قریب واقع ہے کی تعمیر کے لیے فنڈز مختص کرے اور اسکول کا دورہ کر کے حالات کا خود جائزہ لے کر ہنگامی بنیادوں پہ ایکشن لیں۔

اس رپورٹ سے تعلیمی نظام کی بگڑی شکل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ہمیشہ قومیں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہی ترقی کرتی آ رہی ہیں تعلیم انسان کی تخلیق کاری کو مزید تقویت دیتی ہے،

لوگ مغرب کی طرف دیکھ کر تعریف کرتے ہیں لیکن ہم اپنے اردگرد کی بھی تعریفیں کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس تعلیم جیسی طاقت ہے، اور ہمارے پاس ایسی کوئی قابل تعریف چیز نہیں ہے،

ہر بندے کی خواہش ہے کہ میں گھر میں رہوں تاکہ باقی کام کاج کے ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی وقت دے سکوں ہر ملازم کا شوق ہوتا ہے کہ میں اپنے علاقے میں نوکری کر کے اپنے علاقے والوں کے لیے کچھ کام کر سکوں اسی طرح ہر طالب علم کا بھی شوق ہوتا ہے کہ میں اپنے علاقے میں پرسکون ماحول میں تعلیم حاصل کر سکوں لیکن بدقسمتی سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ان سب خواہشمندوں کو مجبورا باہر سفر کرنا پڑتا ہے۔

پورے پاکستان کو دیکھا جائے تو چند شہروں کے علاوہ باقی سب تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔

اور ان بدنصیبوں میں بلوچستان کو شرف اول حاصل ہے۔

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ تو ہے لیکن یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہاں آبادی کم ہے اس کم آبادی کی وجہ سے ہر شعبے کے بجٹ میں بلوچستان کو باقی صوبوں کی نسبت کم تعلیمی بجٹ بجی کم رکھا جاتا ہے لیکن افسوس کہ ان کے پاس تعلیم جیسی نعت کو مزید مضبوط بنانے کے لیے بجٹ یا پھر کوئی اور منطق پیش کرکے پیچھے چھوڑا جا رہا ہے۔

سونا چاندی گیس اور بے شمار وسائل سے مالا مال بلوچستان کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی صرف کوشش ہی جاری ہے پچھلے 60 سالوں سے اور بڑے بڑے ٹی وی ٹاک شوز پر سیاسی رہنما اور ادیب و شاعر سب اپنی اپنی پسند کی منطق پیش کرکے وہاں کے باشندوں کو uncivilised کہہ کر آسانی سے نام و نشان مٹا دینے پر گامزن ہیں۔

پورے بلوچستان میں 2 سے 3 انجیرنگ یونیورسٹیاں ہیں اور ایسے ہی میڈیکل کالجز ہیں۔

میرا تعلق بلوچستان کے اس بد نصیب علاقے سے ہے جہاں تعلیم تو دور کی بات ہے زندگی کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں۔
صحت کے حوالے سے گدان نما سے بلڈنگ کھڑی کر کے بھوتار کے یار دوستوں کے ریسٹ ہاؤس بنا دیا گیا ہے خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آئے تو سندھ کے شہر لاڑکانہ تک مریض کے ساتھ تندرست انسان بھی موت کو گلے لگاتا ہے۔

پانی جیسی نعمت کے لیے لوگ ترستے ہیں اور مجبورا گندے تالابوں سے انسان اور جانور ایک ساتھ ہی پانی پیتے ہیں۔

نصیرآباد ڈویژن بلوچستان کا سب سے بیک ورڈ ایریا ہے اور بد قسمتی سے اس ڈویژن کو بلوچستان اسمبلی سے لے کر وفاق تک رسائی حاصل ہے لیکن وہاں کے موجودہ اور سابقہ وزراء نے عوام کو ہاؤ سائیں ہاؤ سائیں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔

نصیر آباد ڈویژن کولپور سے شروع ہو کر سندھ کے سرحدی علاقوں پر ختم ہوتی ہے جس میں بولان، جھل مگسی، جعفرآباد، نصیرآباد، صحبت پور شامل ہیں۔
اور یہ بلوچستان کا واحد بڑے پیمانے پر میدانی علاقہ ہے جسے گرین بیلٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

نصیرآباد و جعفرآباد، صحبت پور اور جھل مگسی میں گندم، چاول، چنا، اور بہت سی فصلیں کاشت کرتے ہیں۔
ایگریکلچر کے حوالے سے سب سے زیادہ کاشتکاری انہی علاقوں میں ہوتی ہے۔
لیکن افسوس آج تک ایگریکلچر کالج کا نام سننے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آیا۔

نصیرآباد ڈویژن وہ واحد ڈویژن ہے جس میں دو ڈگری کالجوں کا نام سننے میں آئے ہیں وہ بھی نام کے علاوہ اور کچھ نہیں باقی زنانہ کالجوں کو آج تک فائلوں اور اخباری بیانات کے علاوہ کہیں بھی نہیں پایا۔

البتہ پی پی پی کے دور حکومت میں یاد ہے اوستہ محمد کے ایرا کیٹل فارم میں بیوٹمز یونیورسٹی کی برانچ کا افتاح کیا گیا تھا اور یہ اس ڈرامے کے قسط آنا بھی بند ہوگئی، ایسے ہی کومسٹیٹس یونیورسٹی کی برانچ بھی کھلنے والی تھی لیکن پیسے ہضم کرکے اس فائل کو بھی لاچار کرکے شیلفز میں بند کردیا گیا ایک کیڈٹ کالج بنا کر اس پر بھی شاہی خاندان کی حکومت نافذ کر دی گئی اب صرف بلڈنگ اور نام کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

ایسے بہت سے تعلیمی ادارے بند ہیں لیکن انتظامیہ کی جانب سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا نہ معلوم کہ حاکم کی روز افزوں اضافہ ہوا یا ان کی اپنی ناقص کارکردگی ہے۔
ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے اداروں نے ابھی تک اخباری بیانات پر ہی اکتفا کر رکھا ہے۔

نصیرآباد ڈویژن وہ واحد ڈویژن ہے جس میں یونیورسٹی بننا ایک خواب کی حیثیت رکھتی ہے اور حاکم وقت صرف اپنے ذاتی معاملات میں سے وقت نکال کر دعوتوں، تعزیتوں اور شادی بیاہ جا کر اپنا فرض پورا کرتے ہیں۔

اوچ پاور پلانٹ سے بجلی پیدا کر کے باقی صوبوں تک لے جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ تم لوگوں کے وزراء کرپٹ ہونے کے ساتھ نالائق بھی ہیں۔

قوم پرست جماعتیں جب مسائل و وسائل کی بات کرتی ہیں تو ان علاقوں کو ایسے نظر انداز کرتی ہیں جیسے یہاں بسنے والے ان کے دشمن ہوں۔

جن کے لیے کوہ سلیمان کے بچھڑے علاقے کی حیثیت رکھتی ہے ان سے میری درد مندانہ اپیل ہے کہ یہاں بھی نظر ثانی کریں کیونکہ گزرنا تو یہاں سے ہی ہے۔
جب آپ یہاں پر سیاسی لوگوں کے ساتھ اپنی ذاتی خواہشات کے لیے سمجھوتہ کر سکتے ہیں تو کوہ سلیمان کو حاصل کرنے کے بعد دودھ کی نہریں بہنا مشکل نہیں ناممکن ہے۔

ڈیرہ اللہ یار کو اوستہ محمد سے ملانے والی شاہراہ 1998 سے زیر تعمیر ہے لیکن افسوس کہ مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔

اور جناب اس ڈویژن کو وفاق میں اہم منصبی کا اعزاز حاصل ہے لیکن نجانے کیا دشمنی ہے ان لوگوں کو عوام سے کہ سوائے شاہی خاندان کو ایک ایک کمیونٹی حال کا باقی کچھ نہیں دیتے ہیں۔

جناب اعلی بلوچستان سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ ایک سرکاری خرچہ کرکے کسی کی دعوت قبول فرما کر ثواب دارین حاصل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).