سوشل میڈیا سے خائف اشرافیہ (2)


اظہار پر جب بندشیں عائد ہوجائیں تو سعید آفندی اور جان ٹوائن جیسے دانشوروں کے لیے محدود اجازت بھی کھلی فضا کی مانند ہوتی ہے۔ یوں بھی صاحبِ ادراک کو پاوں رکھنے کی جگہ درکار ہوتی ہے۔ در آنے کی سبیل وہ خود کرلیتا ہے۔ چٹان کے سینے پرمسلسل ٹپکنے والے پانی کے قطرے کی طرح۔ سعید آفندی نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر”نفرت انگیز” لٹریچر نکالا، شائع کیا۔ پیسے دو پیسے بھی مل جاتے اور سچائی کی ترویج کا مقصد بھی حاصل ہوجاتا۔ ایک جگر آزما صبر کے بعد سعیدآفندی نے اس جرم کا ارتکاب کر ہی دیا جس کا ارتکاب انگلستان کے پبلشر نے کیا تھا۔  سعید نے ایک ناقابلِ اشاعت کتاب شائع کرکے بیچ  کتب خانےلاکر رکھ دی۔ آج کے تناظر میں دیکھا جائے تو نہایت بے ضرر سی کتاب ہے، مگر اپنے وقت کے حساب سے یہ شیخ و شاہ کو آدابِ امامت وقیادت سکھانے کی ایک ناپاک جسارت تھی۔ یوں کہیے کہ طے شدہ امور کو چھیڑنے کی ایک ناقابل معافی جرات تھی۔ سلطان احمد سوئم کو ذاتی طور پر یر تو یہ  کتاب  زیادہ ناگوار نہیں گزری مگر مذہبی اشرافیہ،سیاسی اشرافیہ اور وزارت داخلہ  ایک پیج پر پائی جاتی تھی۔  شیخ الاسلام  کو اشرافیہ نے دارالحکومت کی ایک مسجد میں خود پال رکھا تھا۔ وہ کچھ بھی کہنے کے مجاز تھے۔چاہیں تو بیچ شہر میں آگ لگادیں چاہیں تو برقعہ اوڑھ کر امان میں آجائیں۔ان کے کہے اور وزیر داخلہ کے کہے میں شق اور آرٹیکل جتنا ہی فرق  ہوتا تھا۔ ایف آئی اے کے افسران ان کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔شیخ الاسلام مشکبو زنان خانے سے نکل کردیوانی چھت پر آئے۔ پرانا فتوی پھر سے دوہرایا اور ایک اشتعال انگیز تقریر کرڈالی۔ اس تقریر کی ایک ایک سطر سے اسٹبلشمنٹ کوخاموش  اتفاق تھا۔ مشتعل مسلمان منہ میں آگ لیے نکل پڑے۔فسادات پھوٹ پڑے۔ ابراہیم رعد کی طرح سعید آفندی کا پرنٹنگ پریس بھی دیکھتے ہی دیکھتے دھواں ہوگیا۔ سعید آفندی ضعیف العمر والد کو لے کر قبرص  کی طرف بھاگا ۔چھوٹے پبلشر بھی چاپے خانوں کو تالے لگا کر چھاوں میں بیٹھ گئے۔ کوئی سوال کرتا تو اہام الطبع دانشور کہتے، جب عدالتیں اپنا کام نہیں کریں گیں تو پھر ایسا تو ہوگا۔معاملات اس قدر کشیدہ ہوگئے کہ سلطان احمد سوئم کو اقتدار سے اور ان کے وزیراعظم کو جان سے ہاتھ دھونے پڑگئے۔   فتوی دینے والے اور فتوی سہنے والے ، دونوں زمین کی پاتال میں اترگئے۔ پرنٹنگ پریس  اور شائع ہونے والا سچ مگر زمین کے اوپرآج بھی موجود ہے۔یعنی سعید آفندی موجود ہے۔

پاکستان میں سوشل میڈیا نے مکالمے کی روایت کو استحکام بخشا ہے۔ جو سوالات مسندوں کے نیچے اور قلمدانوں کے پیچھے چھپادیے جاتے تھے وہ پوچھے جانے لگے ہیں۔ تنقید کی جس ثقافت پر بندشیں عائد ہوتی تھیں ، وہ اپنا منہ آپ چڑا رہی ہیں۔ جبرکے جھوٹ کو صبر کا سچ شکست دے رہا ہے۔ ایسے میں اگر دو ہی اشرافیہ کو پریشانی لاحق ہوگئی ہے تو یہ دنیا کی معلوم تاریخ کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ طاقت کے تمام غیر جمہوری مراکز ایک صفحے کی ایک سطر پر کھڑے ہیں۔ شیخ کا فتوی ، قاضی کا فیصلہ اور شاہ کا حکم پہلو بہ پہلو سامنے ہیں۔ مختلف سیاسی نقطہ نظر رکھنے والوں کے لیے احتساب کاحربہ موجود ہے۔ یہ حربہ  عدالت تک پہنچنے کی مہلت ضرور دیدیتا ہے۔ مختلف فکری نقطہ نظر رکھنے والوں کے لیے توہین مذہب کا حربہ بروئے کار ہے۔ یہ حربہ  عدالت تک پہنچنے کی مہلت  بھی نہیں دیتا۔ انسان ہے تو موقع پر سنگسار کردیتا ہے۔ ادارہ ہے تو کھڑے کھڑے جلاکر خاکستر کردیتا ہے۔

کل کے تقریبا تمام ہی روزناموں میں سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ  صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے۔بہت اہم کام درپیش نہ ہو تو ضرور پڑھیے۔ اپنے مضمون میں وہ فکرمند پائے گئے ہیں کہ عالمی طاقتیں پاکستانی نوجوانوں  کی فکر میں خرابی پیدا کررہی ہیں۔ مرزا صاحب کو تشویش ہے اس بات پر کہ نوجوان اب  مذہبی عقیدے اور سیاسی نقطہ نظر میں فرق روا رکھتے ہیں۔انہیں فکر لاحق ہے کہ پہلے کی طرح آج کا پاکستانی افغانستان کو برادر اسلامی ملک کہنے کی بجائے صرف پڑوسی ملک کیوں کہتا ہے۔  مرزا صاحب کو یقین  ہے کہ جب تک عالمی قوتیں نہ چاہیں تب تک کسی انسان کی فکر میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی۔اپنے مضمون کے آخر میں وہ مشال خان کے قتل کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ بتاتے ہیں کہ آگے پاکستان کس طرح کے خطرات سے دوچار ہونے والا ہے۔ مرزا صاحب کی یہ پریشانی آزادیِ افکار و اظہار کے پرستاروں کے لیے  توبہت خوش آئند ہے۔ البتہ مرزا صاحب جس چمن کی شاخ  پُربہارپر بیٹھ کر نغمہ سرا ہیں ، اس  چمن کے باغبانوں  کے لیے یہ وقت لمحہ فکریہ ہونا چاہییے۔ انہیں سوچنا ہوگا کہ ارتقا کا پہیہ سست روی کا شکار تو کیا جاسکتا ہے، روکا نہیں جاسکتا۔ امتدادِ زمانہ نےتو مصر کے سینے پر صدیوں سے ایستادہ ابوالہول کے خد وخال  کو نہیں بخشا، اس سوچ کو کیسے بخش دے جس کی نمو ہی رواں دواں بہاو میں ہوتی ہے۔ جیسے پانی کو بہنا ہوتا ہے، سوچ  کو بڑھناہوتا ہے۔  ہاتھ پیر باندھ کر اسے 80 کی دہائی میں اکڑوں نہیں بٹھایا جاسکتا۔ سوچ سماجی کارکن نہیں ہوتا کہ لاپتہ کردیا جائے۔ سوچ این جی او بھی  نہیں ہوتی کہ فنڈ پر چلا کرے۔ لوگ سولی چڑھ کر تہہِ خاک اتر جاتے ہیں۔ پرنٹنگ پریس شکلیں بدلتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے اورفکر رائج ہوجاتی ہے۔ قافلہ تو گزر کر ہی رہے گا۔ رستہ دیجیے، قافلہ دل وجاں سلامت گزرنا چاہتا ہے۔  نہیں، تو پھرجو مزاج ِ یار میں آئے۔ سو بسم اللہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).