دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگرکھلا


پانچویں کلاس سے میٹرک تک ہمارے لاتعداد قلم، کتابیں اور نئی نویلی بال پوائینٹس گم ہونے کی حقیقت تب کھلی جب ہمارے اس دوست کہ جن کا واحد مشغلہ ہمارے جیسے یاروں کی چیزیں مذاقاً گم کرنا تھا نے خود یہ اعتراف کیا۔ ہمارے اس لیڈر (یہ آج تک ان کا تکیہ کلام ہے) نے مذاق ہی مذاق میں ہمارے وہ پرزے اڑائے کہ بس سنتا جا شرماتا جا۔ ہماری سائیکل پانچ منٹ کے لئے ادھار مانگی اور بقول شاعر۔

؎ ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔

ہمیں اپنے گھر شاندار قسم کی دعوت کا لالچ دے کر بلایا اور گھنٹوں انتظار کے بعد چائے کے ساتھ پاپے پیش کردیے۔ تھوڑے بہت پیسوں کا ادھار تو ان کے بقول بینک میں جمع ہوجاتا تھا جو انہوں نے سود کے سا تھ ہمیں ابھی تک واپس کرنا ہے۔ سب سے بڑی خوبی ان کی یہ کہ چاہے وہ آپ کے ساتھ وہی سلوک کریں جو انگریزوں نے مغلیہ خاندان کے آخری فرمانروا کے ساتھ روا رکھا تھا پر آپ ان سے ناراض ہو کر دکھائیں۔ پانچ منٹ کے اندر اندر وہ ایسی درفنطنی چھوڑیں گے کہ آپ کے دانت آپ کے دل کا ساتھ دینا چھوڑ دیں گے۔

ریاضی سے تو ان کا اینٹ کتے کا بیر تھا، میٹرک تک ریاضی میں اس لیے فیل ہوتے رہے کہ ریاضی کے پیپر کی تاریخ ان کی عقل سلیم سے محو ہو جاتی تھی۔ مگر میٹرک میں غیر متوقع طور پر بائیالوجی کے پیپر میں فیل ہونے کی تمام تر ذمہ داری اس جلاد صفت نگران پر عائد ہوئی کہ جس کی وجہ سے وہ حسب معمول ہمارا پیپر کاپی کرنے میں ناکام رہے تھے۔

اگست کی ایک حبس زدہ دوپہر کو ہمیں بلایا اور ایک پیر صاحب کی مدح سرائی شروع کردی کہ جن کے حلقۂ ارادت میں وہ تازہ تازہ داخل ہو کر آئے تھے۔ پیر سائیں کے قبضے میں موجود جنات اور ان کی بہت سی کرامات کے تو وہ دل سے قائل تھے لیکن جس دن سے پیر سائیں نے اپنی روحانی طاقت سے انہیں پولیس میں انسپکٹر بھرتی کروانے کی خوشخبری سنائی تھی، تب سے وہ پیر سائیں کی خدمت عبادت سمجھ کر کرنے لگے۔ صبح شام کا کھانا تو رہا ایک طرف انھوں نے بصد ِ احترام پیر سائیں کی مٹھی چاپی بھی شروع کردی۔ پیر سائیں کی شہرت کا ڈنکا بھی ہمارے لیڈر ہی نے بجایا۔ حلقہ ٔ اِرادت وسیع ہوا تو پیر سائیں کی جادو نگری سے قسم قسم کی کرامات کے کرشمے بھی پھوٹنے لگے۔ کبھی پتھروں کے نیچے سے رقم برآمد ہوئی تو کبھی دشمنوں کےکیے ہوئے تعویز دھاگے مریدوں کے سامنے گرنے لگے۔ آپ کی کمر پر ایک کالا تِل ہے کی پیشین گوئی کرکے تو انہوں نے ہم جیسےگمراہوں کو بھی قائل کرلیا۔ رہی سہی کسر سائیں جی نے ہمارے لیڈر کی فائل اپنی روحانی طاقت سے لاہور بھجوا کرپوری کردی۔ یوں پیر سائیں کی دھاک تو بیٹھی ہی بیٹھی ان کے لیے ہمارے لیڈر کی عقیدت میں بھی بے پایا ں اضافہ ہوگیا۔

پیر صاحب کی کرامات اور بہت پہنچے ہوئے پیر ہیں قسم کے وِرد تو ہم سنتے ہی آئے تھے۔ پر لیڈر ایک دن ہمیں بھی پیر سائیں کی بیعت کے لیے ان کی بابرکت محفل سے فیضیاب کرانے لے گئے۔ ہمارے دو چار جاہلانہ سوال سن کر جب مرشد پر ہماری بدعقیدگی کا راز کھلا تو ہمیں گمراہ قرار دے کر لیڈر کو ہم سے دور رہنے کی تلقین فرمائی۔ قصہ مختصر، ہمارے لیڈر کو تو شاید پولیس کی وردی فِٹ نہ آ سکی پر پیر سائیں کی خبر ضرور آگئی جو اپنے معتقدین سے سونا، چاندی، نقدی اور دو چار عدد گائیں، بھینسیں لے کر چِلّہ کاٹنے کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہوگئے تھے۔

صاحبو! ایک ہمارے لیڈر پر ہی کیا موقوف۔ آپ لاہور سے ملتان یا کراچی سے خیبر، جس بڑے شہر کے سفر کا قصد فرمائیں خدمت ِ خلق کے یہ استعارے ہر دیوار پر اپنی خدمات کا پیغام عام کرتے نظر آئیں گے۔ اِن کے پاس ہر مرض کی دوا اور ہرمسئلے کا حل موجود ہے، کاروبار میں بندش ہو کہ نوکری میں رکاوٹ، شادی کروانی ہو یا رکوانی، کالا جادو کروانا ہو کہ اس کا توڑ شوہر کی بے رخی ہو یا گھریلو ناچاقی۔ یہ ہر کام آپ کو منی بیک گارنٹی سے کرکے دیتے ہیں، اور پھر سب سے بڑھ کر نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکنیں بے ترتیب کرتا یہ پیغام محبوب آپ کے قدموں میں۔ آپ کسی اتوار کو کوئی سا بھی سنڈے میگزین تھامیے آپ کو یہ جان کرحیر ت ہو گی کہ بھارت، برما، بھوٹان، سری لنکا اور بنگال کے سارے بابے اپنے اپنے جنات، مؤکلات اور ہمزادوں سمیت وطنِ عزیز کو رونق بخشےتن من دھنسے دکھی انسانیت کی خوب خدمت میں مصروف ہیں۔ کالے علم کی کاٹ پلٹ کے ماہر یہ پروفیسر بنگال اور آسام کے جنگلوں کا کشٹ کاٹ کر اور نیپال کے سنگلاخ پہاڑوں میں کوہکنیکے بعد اپنی روحانی طاقت سے اچھے خاصےپڑھے لکھوں پر ان کی قسمت بدلنے کا نسخۂ کیمیا آزما رہے ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی کے طوفان نے جہاں ہر شعبۂ زندگی میں انقلاب برپا کیا وہاں ان خدائی خدمت گاروں نے بھی ٹال فری نمبرز اور خصوصی ہیلپ لائیں قائم کیں۔ آپ بس ایک کال کریں، اپنا مسئلہ بیان کریں، موکلات کے لئے دس، بیس ہزار کا صدقہ بابے کے دیے گئے اکاونٹ میں ٹرانسفر کریں اور آپ کا مسئلہ فوراً گول یعنی حل ہوجائے گا۔ ہندومت، سکھ مت، مسیحیت اور اسلام سے تعلق کے دعوے دار اپنے اپنے وقت کے یہ قلندرآپ کو لاٹری کا صحیح نمبر بھی بتائیں گے اور پرچی جوا کا آکڑہ بھی، میچوں کا نتیجہ بھی آپ ان سے معلوم کریں اور پرائز بانڈ زسے لاکھوں کروڑں کا انعام بھی مفت جیتیں۔ اگر آپ کے ذہنِ نارسا میں یہ فضول سوال سر اٹھا رہا ہے کہ دوسروں کو لاکھوں کا فائدہ بہم پہنچاتے یہ سائیں لوک انعامی بانڈز خود کیوں نہیں خرید لیتے تو پھر اپنی عقل پہ ماتم کیجئے کہ بھلا مخلوق ِ خدا کے۔ فلاح کاروں کا دنیا داری سے کیا واسطہ۔

اگر آپ ناقص العقل واقع ہوئے ہیں یا تاریخ سے بے بہرہ ہیں تو ہم بتائے دیتے ہیں کہ ہمارے تمام حکمرانوں نے تعویزات و عملیات کی ترویج و ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے دو عدد وزرائے اعظم نے تو مانسہرہ کے بابے تنکے سے کافی ڈنڈے بھی کھائے ہیں۔ توبس پھر آپ بھی اپنے اکابرین کے نقش ِ قدم پر چلیے اور ان عاملینِ بے مِثل کی اس دعوت فی سبیل اللہ پر لبّیک کہتے ہوئے پہلی فرصت میں کسی بابے کے آستانہ عالیہ پر حاضری دے کر فیض حاصل کیجیے لیکن اس کے باوجود بھی اگر آپ کی تِیرہ بختی، روزِ روشن میں تبدیل نہیں ہوتی تو اسے تقدیر کا لکھا جانیے کہ جہاں ہمارے بڑے بڑے لیڈر بصد ِشوق ڈنڈے کھاتے ہوں وہاں اگر ہماری اور آپ کی قسمت میں بھی ڈنڈے ہی ہیں۔ تو تعجب کیسا؟

قمر زما ن بلو چ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).