کیا کلاشنکوف کی اس دنیا میں کوئی منڈیلا کا وارث بھی ہے؟


دنیا میں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے وہ سیاسی واقعات اور معمولات کا عمومی سفر نہیں ہے، کچھ نیا ہونے جا رہا ہے، کوئی صف بندی ہورہی ہے، ایک دہشت خیز تاریکی پھیل رہی ہے جس کو صرف اوریا مقبول جان کے ”اہل نظر“ اور ہارون الرشید کے ”صاحب دل“ ہی نہیں بلکہ ہر کھلی آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ جنگوں کی معیشت کو خونریزی کی آکسیجن چاہیے اور معیشت کی جنگوں کو بہانے کی تلاش ہے، لگتا ہے اک نئی دنیا جنم لے رہی ہے جس کے لیے موجودہ دنیا کو ہڈیاں چٹخنے والے درد زہ سے گزرنا پڑ رہا ہے۔

جنوبی افریقہ کے ایک سیاہ فام بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے کہا تھا ”کہ جب مسیحی مبلغین آئے تو ان کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس زمین۔ انہوں نے کہا کہ آؤ دعا مانگیں۔ ہم نے دعا مانگنے کو اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ جب ہم نے اپنی آنکھیں کھولیں تو ہمارے پاس بائبل تھی اور ان کے پاس زمین“۔

دو بڑی جنگوں کی تباہ کاریوں نے انسانیت کو بہت بڑے سبق دیے، جنگ سے بچاؤ کے لیے عالمی ادارے وجود میں آگئے اور جنگ سے نفرت سکھانے والا عظیم الشان علمی اور ادبی لٹریچر بھی، مگر یہ دوائی صرف صحتمند لوگ ہی کھارہے ہیں اس سے نہ طاقت کی سرشت بدلی جاسکی اور نہ انسان کی ہوس کی بھوک بجھائی جاسکی۔

دو بڑی جنگوں کی تباہ کاریوں نے انسانیت کو بہت بڑے سبق دیے، جنگ سے بچاؤ کے لیے عالمی ادارے وجود میں آگئے اور جنگ سے نفرت سکھانے والا عظیم الشان علمی اور ادبی لٹریچر بھی، مگر یہ دوائی صرف صحتمند لوگ ہی کھارہے ہیں اس سے نہ طاقت کی سرشت بدلی جاسکی اور نہ انسان کی ہوس کی بھوک بجھائی جاسکی۔

ہمارے کرم فرما اور آئرلینڈ میں مقیم ماہرنفسیات ڈاکٹر اخترعلی سید تک ہماری رسائی ہوتی تو یہ خاکسار ان سے پوچھ لیتا کہ انسانی ذہن ایک واقعے سے ماضی کے کسی دوسرے واقعے کو کیسے منتقل ہوتا ہے مگر دنیا کی جاری صورتحال کو دیکھ کر میرا ذہن پتہ نہیں کیوں جون 2013 کی کسی تاریخ کے روزنامہ جنگ میں الجھ سا گیا ہے۔ اس دن جنگ میں دو عدد ایک کالمی خبریں پہلو بہ پہلو شائع ہوئی تھیں۔ ایک خبر یہ تھی کہ مشہورزمانہ آتشیں اسلحے کلاشنکوف کا موجد میخائل کلاشنکوف بیماری کے باعث جاں بلب ہے جبکہ دوسری خبر یہ تھی کہ انسانی مساوات کے لیے عظیم الشان جدوجہد کرنے والے نیلسن منڈیلا بھی ہسپتال میں داخل ہے۔

عہد حاضر کے یہ دونوں متضاد کردار پھیپڑوں کی ایک ہی نوعیت کی بیماری کا شکار تھے۔ دونوں کی بیماری کا زمانہ بھی ایک ہی تھا اور دونوں کا انتقال بھی ایک ہی مہینے دسمبر 2013 میں ہوا۔
مگر ان قدرتی اتفاقات سے ہٹ کر دونوں کا طرز فکر، حکمت عملی اور میراث ایک دوسرے سے بالکل متضاد تھے۔ 1941 میں جرمن نازیوں کے خلاف لڑتے ہویے میخائل کلاشنکوف کے زخمی ہونے سے قبل ان کا ارادہ تھا کہ وہ اپنے تخلیقی استعداد کو کسانوں کی سہولت کے لیے کارآمد کسی آلے کی ایجاد میں صرف کریں گے، مگر زخمی ہونے کے بعد ان کا ارادہ بدل گیا اور انہوں نے نسل پرست نازیوں کے پاس موجود ہتھیار ایس ٹی جی 44 کے مقابلے کے لیے کلاشنکوف کے نام سے آتش بار آلہ ایجاد کیا مگر میخائل کلاشنکوف کے علم میں یہ بات شاید نہ تھی کہ اس کی آٹومیٹک گن کلاشنکوف کا نشانہ بننے والے تمام انسان نہ تو نازی ہوں گے اور نہ ہی ان میں سے ہر ایک کے ہاتھوں میں ایس ٹی جی 44 ہو گی۔

مسٹر کلاشنکوف نسل پرست جرمن نازیوں کی جارحیت سے اپنی سرزمین کا دفاع کرتے ہویے زخمی ہوئے تھے اور ہسپتال کی ہولناک خاموشی سے ان کے ذہن میں جارحیت کا سائینٹفک آلہ تخلیق کرنے کا خیال پیدا ہواتھا۔ نیلسن منڈیلا بھی افریقن نیشنل کانگریس کے محاذ سے نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔ اسی جرم کی پاداش میں انہیں 27 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑے مگر 1990 میں جب وہ رہا ہوئے تو ان کے ذہن میں کسی تباہ کن ہتھیار کی ایجاد یا استعمال کا ارادہ نہیں تھا بلکہ وہ پرامن جدوجہد اور مظلومیت کو اپنا ہتھیار بنانے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ منڈیلا کی قوم کو صرف اس طاقتور مفروضے کی سزا مل رہی تھی کہ ”کچھ لوگ پیدائشی مجرم ہوتے ہیں۔ ان کی نسل، زبان، مذہب، خطہ اور شناخت ہی ان کا جرم ہوتے ہیں“۔

انسانی مساوات کے لیے نیلسن منڈیلا کی اس شاندار جدوجہد کے باوجود آج بھی مہذب انسانیت مساوات کو ترس رہی ہے۔ کمزور اقوام کی خود مختاری، حق حاکمیت، سرحدات اور زندگیاں کچھ بھی لائق تکریم نہیں ہیں۔ تاریخ کے دردناک تجربات کے بعد کچھ امید ہوچلی تھی کہ سانحات کہلانے والی مکروہ کھیل تماشے اب صرف ماضی کی رزمیہ داستانوں میں ہی پڑھنے کو ملیں گے، مگر اے بسا حیف کہ ایسا دکھائی نہیں دے رہا۔ یونان کے کلاسیکل شاعر یوری پیڈیز کا یہ شعر آج بھی لگتا ہے کسی ننھے منے شامی، عراقی، افغانی یا وزیرستانی شہید کے لیے لکھا گیا ہے کہ

”کوئی شاعر کیسے کتبہ لکھے گا جس میں یہ کہانی بیان ہو سکے؟
یہاں ایک بچہ محو خواب ہے جس سے اہل یونان کو خوف تھا
اور اسی لیے انہوں نے اسے مار ڈالا“

تقریبا پچاس سال تک انسانی تہذیب کی سرشت و ارتقا کی کہانی لکھنے کے لیے تاریخ کی خاک چھاننے کے بعد ول ڈیورانٹ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ انسان اور پست درجے کے جانوروں میں بہت کم فرق ہے اور زیادہ تر لوگ یہ فرق بھی مٹادیتے ہیں۔ آج مادی ترقی کے لحاظ سے اپنی تاریخ کی ”مہذب ترین“ بلندی پر کھڑا انسان اخلاقی لحاظ سے جنگلی درندے کے مقام پر کھڑا ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جب تک طاقت اور کمزور کا تصور موجود ہے اس وقت تک غالب اور مغلوب اور فاتح و مفتوح کی تقسیم باقی رہے گی۔ اٹلی کی معروف صحافی اور ادیبہ اوریانا فلاسی نے اپنی کتاب ”ایک خط۔ کبھی پیدا نہ ہونے والے بچے کے نام“ میں ماں کے رحم میں جینے والے بچے کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”اس دنیا میں آزادی اور مساوات سوائے اس مقام کے جہاں آپ جی رہے ہیں کہیں اور وجود نہیں رکھتی“۔

دنیا ایک بار پھر نفرتوں کی دہکتی ہوئی آگ میں جل رہی ہے۔ بدمست زور آور انسانی مساوات کے ہر قرینے کو ماننے سے منکر ہیں۔ آج کی اس دنیا میں میخائل کلاشنکوف کی یاد جرم کا ہر وہ واقعہ تازہ کرتی رہے گی جس میں کلاشنکوف کا استعمال ہو۔ دنیا کا ہر وہ شخص ان کی اس ایجاد کا محافظ ہے جو یا تو اسے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری سمجھتا ہے یا دوسروں کی زندگی کو غیر محفوظ کرنے کے لیے، مگر نیلسن منڈیلا کی مساوات اور امن دوستی کا پرچم اٹھانے والا کون ہے؟ امتیازی، استحصالی اور ہمہ گیر تسلط حاصل کرنے کے لیے سر پکڑ کر پالیسیاں بنانے والی طاقتور قوموں کی نرغے میں آئے ہوئے اس کرہ ارض پر نیلسن منڈیلا کا وارث اور جانشین تو کہیں بھی نظر نہیں آتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کو 20 مختلف اعزازات اور نوبل امن انعام سے نوازنے والوں میں بھی وہ دکھائی نہیں دیا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).