ہمیں اپنے گھر کی فکر کرنی چاہئے


دہشت گرد مخالف اسلامی اتحاد تو محض کاٹھ کی ہنڈیا ثابت ہوا۔ نہ اس کا کوئی انتظامی ڈھانچہ مرتب ہو سکا اور نہ اس میں شریک ممالک کی ذمہ داریوں اور اختیارات کا تعین ہو سکا۔ اگر یہ دفاعی اتحاد ہے تو اس کے عسکری زاویے بیان نہیں کیے گئے ۔ اگر یہ مسلم اکثریتی ممالک کا اجتماع تھا تو اس میں چین، روس جیسی عالمی طاقتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکی صدر کی رونمائی کا کیا جواز؟ ایران اور کچھ دوسرے مسلم اکثریتی ممالک کو شمولیت کی دعوت نہ دینے سے کیا نتیجہ نکالا جائے؟ اس اجتماع میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی متفقہ تعریف تک طے نہیں کی گئی۔ اس اتحاد میں شامل تمام ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں۔ یہاں اقوام متحدہ کے ساتھ ادارہ جاتی تعلق کا کوئی ذکر ہی نہیں ہوا۔ بہر صورت جلسہ برخاست ہو چکا، پنڈال سمیٹ لیا گیا ہے اور بنددروازوں کے پیچھے طے پانے والے امور کے سیاہ و سفید میں کم از کم پاکستان کا کوئی حصہ نہیں۔ چنانچہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جزیرہ نما عرب میں منعقد ہونے والے اس میلے سے ہٹ کر اپنے وطن کے بارے میں غور و فکر کیا جائے۔
پاکستان اپنی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ چند ہفتوں میں مردم شماری کے نتائج سامنے آجائیں گے اور زیادہ امکان یہی ہے کہ معاشی اور سماجی تبدیلی کے سب اشاریے بدل کر رہ جائیں گے۔ کم از کم تین ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات مخاصمت کا شکار ہیں۔ موجودہ حکومت نے توانائی، انفراسٹرکچر سمیت منتخب شعبوں میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے لیکن معیشت کا کوئی جامع نقشہ مرتب نہیں ہو سکا۔ منتخب حکومت اور ریاستی اداروں میں اتار چڑھائو کی مشق جاری ہے۔ گزشتہ دو برس میں انتہا پسندی کے خلاف موثر اقدامات کئے گئے ہیں لیکن ان کارروائیوں کا بنیادی ہدف فعال دہشت گرد افراد اور تنظیمیں رہی ہیں۔ ملک کی مجموعی سیاسی اور تمدنی تصویر میں انتہا پسندی کی جڑیں بدستور موجود ہیں۔ جمہوری عمل اپنے دس برس مکمل کر رہا ہے۔ بہتر ہو گا کہ یہاں رک کر سوچ لیا جائے کہ ہمیں قوم کو درپیش بنیادی سوالات کو کشتیوں کے ہنگامی پل باندھ کر چلانے کی روش جاری رکھنا ہے یا اپنے تشخص اور حکمت عملی میں نئے زاویے دریافت کرنا ہیں۔
2018 ء میں دوسری دفعہ مسلسل آئین کے مطابق انتخابات کا انعقاد ایک خوشگوار پیش رفت ہو گی۔ تاہم پچھلے دس برس ہم نے جمہوریت اور آمریت کے ایک دیدہ و نادیدہ دنگل میں گزارے ہیں۔ اگر قومی افق پر آمریت ایک امکان کے طور پر موجود رہتی ہے تو جمہوریت کو مستحکم نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس سے نہایت خطرناک نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ منتخب حکومتوں کی حقیقی جواب دہی نہیں ہو سکتی۔ اگر سارا وقت طالبان سے مذاکرات، ڈی چوک دھرنوں، پاناما کی طلسم ہوشربا اور عسکری قیادت میں تبدیلی پر افواہ سازی کرنا ہے تو معمول کی قانون سازی کب ہو گی۔ تعلیمی پالیسی کب بنے گی۔ زرعی پیداوار پر غور و فکر کب کیا جائے گا۔ مصنوعات کے شعبے میں فروغ کا راستہ کیسے نکالا جائے گا۔ حزب اختلاف متبادل پالیسیاں کب پیش کرے گی۔ ہمیں اب سقوط جمہوریت کے حادثے کا انتظار ختم کر دینا چاہئے۔ آئین میں پارلیمانی جمہوریت اور انتقال اقتدار کے سوال طے کر دئیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں کرنے کا کام یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات پر سنجیدگی سے کام کیا جائے۔
ہمیں اب سیکورٹی اسٹیٹ یا فرنٹ لائن اسٹیٹ وغیرہ کی بحث ترک کر دینی چاہئے۔ ممکن ہو تو فلاحی ریاست کا خواب بھی کچھ دیر کے لئے ایک طرف رکھ دینا چاہئے۔ سیکورٹی اسٹیٹ جمہوری ریاست نہیں ہوتی۔ فلاحی ریاست کے وسائل جمہوریت کے تسلسل ہی سے پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ صرف یہ دیکھ لیجئے کہ پچھلے بیس برس میں ہندوستان میں زرمبادلہ کے ذخائر اور کلی داخلی پیداوار میں کس قدر اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت مثالی ہے اور نہ ریاست فلاحی ہے لیکن بھارتی جمہوریت میں گزشتہ 65 برس میں کبھی تعطل نہیں آیا۔ ہمیں بھی عسکری سوچ اور فلاحی خوابوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے جمہوری عمل کو وقفہ گل کی بجائے معمول قرار دینا چاہئے۔ غربت ہمارا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ غربت ان دیکھے طریقوں سے شہریوں کے معیار زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بچوں کی غذائیت اور زچہ بچہ کے خوفناک اشاریوں سے لے کر نفسیاتی رویوں تک غربت کے اثرات پہنچتے ہیں۔ غربت دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی عمل کا رخ شخصی الزام تراشی، قبائلی عصبیت، تہذیبی نرگسیت اور منفی ہتھکنڈوں کی بجائے معیشت کی طرف موڑا جائے۔ معیشت بجلی کا بلب نہیں جس کا بٹن دبانے سے اجالا ہو جائے۔ اس کے لئے عشروں تک تحمل کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ سی پیک اور گوادر کی بندرگاہ اہم سنگ میل ہیں لیکن یاد رہے کہ پچاس برس پہلے ہم نے تربیلا اور منگلا کے ڈیم بھی بنائے تھے۔ اسٹیل مل قائم کی تھی۔ شاہراہ قراقرم تعمیر کی تھی۔ پسماندگی کے وسیع صحرا میں اتفاقیہ نمودار ہونے والے نخلستان معاشی شعور کی گواہی نہیں دیتے۔ صنعت، تجارت، زراعت، خدمات اور انفراسٹرکچر کے بنیادی زاویوں سے جڑا ہوا بنیادی سوال یہ ہے کہ ہمیں تعلیم کو معیشت کا انجن بنانا چاہئے۔ ہمارا تصور علم دراصل اپنی اجتماعی نرگسیت کی بنیاد پر ہمعصر علم کی مزاحمت کا ہے۔ ہم تعلیم کو محض ملازمت اور روزگار کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ہم خواندگی اور اعلیٰ تعلیم کے دو نشانات کے درمیان اندھا دھند بھاگتے رہتے ہیں۔ ہماری خواندگی اور اعلیٰ تعلیم یکساں سطح پر تشویش ناک ہیں۔ ہم نے علم کو ایک تمدنی زیبائش سمجھ رکھا ہے۔ خواندگی کی شرح کو بڑھا نا اور معیاری تعلیم کو یقینی بنانا محض تمدنی ہدف نہیں۔ معیشت کے میدان میں کوئی کامیابی معیاری تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ موجودہ عہد میں معیشت کی بنیاد تعلیم پر ہے۔ جب ہم اپنے علمی سرمائے کی کم مائیگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو مہربان بلھے شاہ سے شاہ لطیف بھٹائی تک شاعروں کی ایک فہرست گنوا دیتے ہیں۔ فلسفہ، ادب اور تاریخ کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن ہماری تعلیم کو معیشت کے لئے درکار ہنر اور صلاحیت کا ذخیرہ فراہم کرنا چاہئے۔ تعلیم کے بغیر جمہوریت مستحکم ہو سکتی ہے اور نہ معیشت ترقی کر سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ تعلیم پر علم دشمن عناصر کا اجارہ ختم کیا جائے۔ یہ علم دشمن عناصر دنیا پر غلبے کے خواب دیکھتے ہیں۔ خود راستی کے اس درجے پر ہیں کہ دوسروں کو صرف غلط ہی نہیں، گردن زدنی بھی سمجھتے ہیں۔ تعلیم اور معیشت میں نامیاتی رشتہ قائم کرنے سے ان عناصر کی جڑ کٹ جائے گی جو نعرے، تفرقے اور اشتعال کی مدد سے ایک ناخواندہ قوم کو گمراہ کر کے ناجائز مفادات کی فصل کاٹتے ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ معیشت اور علم ہماری بنیادی ترجیحات قرارپا گئیں تو شہری آزادیوں اور حقوق کو آئین کی کتاب سے نکال کر گلی کوچوں میں رائج کرنا ہو گا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کو اپنے عقائد اور اقدار کا جذباتی اعلان کرنے سے شغف ہے۔ یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ مختلف ادوار میں جو اصطلاحات آئین میں داخل کی گئی تھیں ان کی واضح تعریف کرنا ہو گی۔ قومی سلامتی کے معاملات میں ہر شہری کو ذمہ دار ہونا چاہئے لیکن ہمیں واضح کرنا چاہئے کہ 12اکتوبر 1999 ء کو آئین توڑنے کی مزاحمت کرنا قومی سلامتی کے اداروں کی مخالفت شمار ہو گا یا نہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ملک میں آمریت کا ظہور کچھ طالع آزما افراد کا ذاتی فیصلہ تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان طالع آزما افراد پر تنقید کو اداروں کے وقار کا سوال کیوں بنایا جاتا ہے۔ اسلام جیسا عظیم مذہب دنیا کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے لئے ایمان کا درجہ رکھتا ہے۔ ہم نے آزادی اظہار کی شق میں بغیر کسی مذہبی امتیاز کے تمام شہریوں پر ’عظمت اسلام ‘کی ذمہ داری کیوں عائد کی۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ مسلم اور غیر مسلم گروہوں سے قطع نظر یہ مبہم اصطلاح تو فرقہ وارانہ اشتعال میں بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ اقدار کی بات اچھی کہی۔ دنیا کے کسی معاشرے میں سب شہریوں کا رہن سہن، خیالات اور اقدار ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ شق 19کا مقصد ہی اس صوابدیدی اختلاف کا احترام کرنا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے مفکر چوہدری نثار علی خان ہیں اور ہمارے عظیم دانشور چوہدری اعتزاز احسن اپنی جیب میں وکلا تحریک کی دھمکی اٹھائے پھرتے ہیں۔

بشکریہ جنگ نیوز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).