رمضان آرڈیننس نہیں ایمانداری اور سچائی کا آرڈیننس لاگو ہونا چاہیے


جس طرح رمضان آرڈیننس میں کھانے پینے پر سزا اور جرمانہ عائد کیا گیا ہے اسی طرح منافع خور، ذخیرہ اندوزوں اور ملاوٹ خوروں کے خلاف بھی اسی طرح کا آرڈیننس ہونا ضروری ہے۔ کم از کم سال کے ایک مہینے تو ہمیں بھی ایمانداری اور سچائی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں سستے رمضان بازار تو لگ گئے ہیں مگر وہاں پر جو اشیا خور و نوش، سبزیاں اور پھل بیچے جا رہے ہیں ان کو دیکھ کر تو ا یسا لگ رہا ہے کہ جیسے ہمارے ساتھ سستے رمضان بازاروں کے نام پر دھوکا کیا جا رہا ہے۔ قیمت کنٹرول اور جرمانہ عائد کرنے والے افسران یا تو غائب ہیں یا پھر سارے ملے ہوئے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ سچائی اور دیانتداری تو جیسے ختم ہی ہو گئی ہے۔ سارا معاشرہ ہی جیسے بے ایمان ہو گیا ہے۔ جعلی چیزوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ یہ سچائی کی باتیں اور ایمانداری کے قصے کہانیاں ہم بچپن سے اپنے بڑے بوڑھوں سے سنتے آ رہے ہیں کہ کوئی دور تھا جب دودھ میں پانی ملانا تک ایک گناہ سمجھا جاتا تھا۔ جب سچ بول کر لوگوں کو خوشی محسوس ہوتی تھی اور ہر طرف سچائی کا بول بالا تھا۔ جب انسانوں میں انسانیت اور ایمانداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ جب مزدور، کسان، مستری، نوکر پیشہ، افسر، کلرک، سیاستدان سبھی نیچے سے اوپر تک ہمیں ایماندار اور وفادار نظر آتے تھے۔ پھر کیا ایسا ہوا کہ دودھ پورے کا پورا پانی ہو گیا۔ پانی بھی اچھا تھا مگر ہمارا دودھ تو کیمیکل زدہ ہو گیا۔ جب معاشرے کی ایسی صورتحال ہو تو پھر کیوں نہ ہو ہمارا نوجوان سست اور کاہل ہو، پھر کیوں نہ اگائے ہمارا کسان گندے اور آلودہ پانی میں سبزیاں جو تندرستی دینے کی بجائے بیماری کا باعث بنیں۔

پھر کیا قصور ہے ہماری کار، موٹرسائیکل کے مستری کا جو ہر وقت ہمیں گولی دینے کو تیار رہتا ہے۔ ہمارے ہاں جب بھی ایمانداری اور سچائی پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے لوگ گوروں کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ مسلمانوں کی یہ ایمانداری، سچائی، عقل اور ایجادات انگریز لے گئے اور ہمیں اپنے ساری برائیاں دے گئے۔ بھائی انگریز تو کب کے چلے گئے۔ یہ ہمارا میڈیا جو ہر روز معاشرے کی بے ایمانی، لالچ اور دھوکے بازی کی جو تصویر دکھا رہا ہے یہ سب کچھ ہمارے اندر کی گندگی ہے اس میںبے چارے انگریز کاکیا قصور۔ دیکھا جائے تو ایسا بھی نہیں کہ ہمارے ہاں سارے ایماندار، دیانتدار ختم ہو گئے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ موجود تو ہیں مگر ہمیں نظر نہیں آتے۔

پرانے زمانے کا قصہ ہے کہ صبح سویرے دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر دو لوگ بیٹھ کر نہاتے تھے ان میں سے ایک چور تھا اور دوسرا درویش تھا۔ چور سمجھتا تھا کہ دوسرے کنارے پر موجود وہ درویش اسی کی طرح کا ایک چور ہے اور چوری کرنے کے بعد آ کے دریا پر نہاتا ہے۔ دوسری طرف درویش سمجھتا تھا کہ دوسرے کنارے پر موجود شخص اسی کی طرح کوئی درویش ہے جو پورے رات کی عبادت کے بعد دریا پر نہانے کے لئے آتا ہے۔ بات صرف اپنی اپنی سوچ کی ہے۔ اگر ہم خود جھوٹ بولتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ سارے لوگ ہی جھوٹ بولتے ہیں۔ اگر ہم سچ بولتے ہیں تو سب ہی ہمیں سچے نظر آتے ہیں۔ اس معاشرے میں ایماندار نہ سہی، کم بے ایمان بھی اگر مل جائے تو اسے ہی غنیمت سمجھ کر کام چلائیں۔ ضروری نہیں ہر با ریش یا نمازی ایماندار بھی ہو۔ جھوٹ کا یہ عالم ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھر کے بڑے بچوں کو جھوٹ کا عملی مظاہرہ کر کے دکھاتے ہیں اور پھر بچوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ سچ بولیں۔ جس طرح ہم ملاوٹ شدہ چیزوں سے گزارا کر رہے ہیں اور کہنے پر مجبور ہیں کہ اصلی یا دیسی چیزیں ہمیں ہضم نہیں ہوتیں۔ اسی طرح ہم ملاوٹ والی چیزوں کے استعمال کے لئے بھی تیار ہیں اور کم بے ایمانی پر بھی شکر ادا کر رہے ہیں مگر پانی والے دودھ کی طرح کم بے ایمانی بھی ناپید ہوتی جا رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئیگا جب ہم ملاوٹ شدہ چیزوں اور کم بے ایمان لوگوں کے لئے بھی ترسیں گے۔ اس لئے رمضان آرڈیننس سے زیادہ سچائی اور ایمانداری کے آرڈیننس کی ہمیں زیادہ ضرورت ہے تاکہ ہم سال کے ایک مہینے تو بے ایمان اور منافع خوروں کو سزا اور جرمانہ کر پائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).