سراج الحق صاحب کی باتیں اور ہمارے تبصرے


’ہم سب‘ کی ٹیم کے سوالوں کے جواب میں آپ کا یہ فرمانے کا بہت شکریہ کہ:

1۔ معاشرتی برائیاں یا خوبیاں قیادت کی وجہ سے پھیلتی ہیں۔ یہ کہہ کر آپ نے ہماری اس حالت زار کا الزام حکمرانوں پر دھرا ہے اور عام آدمی کو بے قصور ٹھہرایا ہے۔ بہت خوب!

2۔ طلبا یونین پر بین غلط ہے۔ ہاں البتہ سیاسی جماعتوں کو طلبا تنظیموں سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ یہ انتظام کرنا حکومت کا فرض ہے۔

3۔ آپ نے سارے پاکستانیوں کے خون کو ایک جیسا مقدس کہا۔ آپ نے سارے مذاہب کی عبادت گاہوں اور آثار قدیمہ کے تحفظ کی بات کی۔ یہ سب باتیں بہت اہم ہیں اور اس پر آپ کا سٹینڈ قابل تعریف ہے۔

4۔ آپ نے خواتین کی تعلیم اور ان کے وراثتی حق کی بات کی ہے اور ریاستی معاملات میں ان کی رائے لینے کو جائز قرار دیا ہے۔ آ پ نے معاشی اور علمی میدان میں ان کے کنٹری بیوشن کو اہم قرار دیا ہے۔ یہ قابل ذکر تبدیلی ہے کہ کوئی خاتون اب جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کی ممبر بن سکتی ہے۔ یہ ساری باتیں بہت اہم ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ الیکشن میں جہاں بھی عورتوں کو ووٹ دینے سے روکا جائے گا، جماعت اسلامی اس کی مخالفت کرے گی۔

5۔ گو کہ بلاسفیمی کے قانون اور اس کے نتیجے میں ہونے والے بھیانک واقعات پر آپ کا رویہ خاصا معذرت خواہانہ ہے لیکن پھر بھی آپ کا یہ کہنا بہت اچھا ہے کہ ہجوم کا عدالت اور جلاد بن جانا بہت غلط ہے۔

6۔ آپ نے بڑی زبردست بات کی ہے کہ ’مسلمان ہونا یا نہ ہونا یہ انسان کا اپنا فیصلہ ہے۔ وہ اپنے آپ کو سمجھتا ہے تو وہ ہے اگر وہ نہیں سمجھتا تو وہ نہیں ہے۔‘ اگر جماعت اسلامی نے یہ سمجھنا شروع کر دیا ہے تو یہ پاکستان کے حق میں بہت اچھا ہے۔ یہ سیکولر ہونے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔

یہ بڑی امید افزا باتیں ہیں اور ایسی باتیں کرنے پر ہم آپ کے بہت مشکور ہیں۔

البتہ ’ہم سب‘ کے ساتھ آپ کی کہی ہوئی کچھ باتوں پر سوال اٹھتے ہیں۔ جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کرنا کہ جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبا کی سرپرست نہیں ہے، جھوٹ لگتا ہے۔ آپ جمعیت اور صرف جمعیت کے سرپرست ہیں۔ اسے قبول کریں۔

2۔ یہ تاثر کہ، جمعیت کی وجہ سے لڑکیاں پنجاب یونیورسٹی میں محفوظ ہیں، بہت نا مناسب ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے علاوہ باقی یونیورسٹیوں میں پھر لڑکیاں اور ان کے والدین کیسے گزارا کرتے ہیں۔ اس تاثر کی آڑ میں جمعیت یونیورسٹی کے انتظامی معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لیتی ہے اور اپنے مخالفوں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ یہ غلط فہمی بہت سارے مسئلوں کی جڑ ہے۔

3۔ کشمیر کے حوالے سے سوال بہت اچھا تھا۔ لیکن آپ کا جواب مبہم سا تھا۔ صرف اتنا اعتراف کر دینا کافی نہیں ہے کہ باہر سے اگر کوئی گیا بھی ہے تو وہ اپنی مرضی سے گیا ہے۔ لوگوں کی ترغیب، بھرتی اور تربیت کے الزامات کا دھیان بھی رکھنا ہو گا۔

4۔ اب تک تو آپ کو یہ علم ہو جانا چاہیے کہ بیرونی جنگجو نہ صرف آزادی کی جدوجہد کی قانونی ساکھ اور اخلاقی جواز کو بری طرح متاثر کرتے ہیں بلکہ اس ملک یا خطے کی بربادی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ افغانستان کی مثال لے لیں، ستر اور اسی کی دہائی میں اگر افغان حکومت سوویت یونین کو فوجی امداد کی درخواست نہ کرتی اور مجاہدین اگر امریکی ڈالر اور اسلحہ اور غیر ملکی جنگجوؤں کو قبول نہ کرتے تو افغانستان کی یہ بربادی نہ ہوتی جو ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے کشمیر پر جماعت اسلامی کو اپنی پالیسی کو بدلنا ہو گی ورنہ کشمیر بھی افغانستان کی طرح کھنڈرات میں تبدیل ہو جائے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انڈیا کو اس کا بہانہ مہیا نہ کریں۔ پہلے بھی، اسی بہانے سے، بھارتی فوج کشمیری عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑتی ہے۔

5۔ سیکولرازم بھارت کے لیے کیوں اچھا ہے اور ہمارے لیے برا ہے۔ یہ پاکستانی عوام کو ’نظریاتی‘ ریاست ہونے کی سزا کیوں دی جائے۔ بھارت میں مختلف عقائد کے لوگ رہتے ہیں اس لیے سیکولرازم ضروری ہے تو کیا پاکستان میں ایک سے زیادہ عقیدے کے لوگ نہیں رہتے۔ یہاں بھی بہت لوگوں کو مذہبی بنیاد پر امتیازی سلوک کی شکایات ہیں۔ آپ نے خود ہی کہا ہے کہ ہندو پاکستان کو چھوڑ کر بھارت جا رہے ہیں۔ تو اس صورت حال کو بدلنے کے لیے جماعت اسلامی کی کیا پالیسی ہے؟

ان ساری باتوں سے بھی آگے، کچھ سوال ابھی باقی ہیں، جو شاید کسی اگلے انٹرویو میں پوچھے جا سکیں۔ وہ سوال کچھ یوں ہیں۔

1۔ کیا پاکستانی عورت جماعت اسلامی کی امیر ہو سکتی ہے۔ کیا عورت پاکستان کی وزیر اعظم، صدر، چیف جسٹس یا چیف آف آرمی سٹاف بن سکتی ہے۔ کیونکہ ٹریفک سارجنٹ سے لے کر لڑاکا پائلٹ اور جنرل تو وہ بن چکی ہیں۔

2۔ آپ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کو ایک سیکولر ملک ہی بنانا تھا تو انگریزوں سے آزادی لینے کی کیا ضرورت تھی۔ تو عرض ہے کہ بھارت سمیت دنیا کے کوئی پچاس ممالک نے انگریزی تسلط سے آزادی لی تھی۔ کیا وہ سب نظریاتی ریاستیں بننے کے لیے آزاد ہوئے تھے؟ بالکل بھی نہیں۔

3۔سعودی عرب نے مودودی صاحب کی کتابوں پر بین کیوں لگایا ہے؟ کیا اس کا تعلق ان کتابوں میں بیان کیے گئے جہاد کے فلسفے سے ہے جو نوجوانوں کی غلط رہنمائی کا باعث بنتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہمارے نوجوان کو بھی اس حقیقت کا علم ہونا چاہیے۔

4۔ جماعت اسلامی کے آپ سے پہلے امیر جناب منور حسن صاحب طالبان کی جانب سے جاری دہشت گردی کی وارداتوں کو جائز سمجھتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں طالبان شریعت کے نفاذ کے لیے یہ سب کر رہے تھے۔ اور اگر کوئی طالبان دہشت گردی کی واردات کے دوران مارے جاتے تو مولانا صاحب انہیں شہید سمجھتے تھے۔ انہوں نے پاکستانی فوج کے خلاف جنگ میں مارے جانے والے طالبان کو بھی شہید کہا تھا۔ کیا اب جماعت اسلامی نے اپنی پالیسی بدل لی ہے؟

5۔ جماعت اسلامی نے جنرل ضیاالحق، سعودی عرب اور امریکہ کے اتحاد میں افغانستان کی جنگ جیسے لڑی اس کے نتیجے میں افغانستان نے کیا کھویا اور کیا پایا، پاکستان نے کیا کھویا اور کیا پایا اور اسلام نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ یہ تو ماضی قریب کی باتیں ہیں اس لیے بات شواہد کے ساتھ کی جانی چاہیے۔

یہ آخری سوال بہت اہم ہے کیونکہ اس آخری سوال کا جواب جب تک ٹھیک نہیں آئے گا تب تک عام پاکستانی طالبان اور داعش جیسے دہشت گردوں کو اصلی اور سچا مسلمان سمجھتے رہیں گے۔ اور عوام کے اندر سے ان کی حمایت جاری رہے گی۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik