فحاشی، تذبذب اور تلوار


صاحبو، کسی زمانے میں میدان کالم نویسی کی ایک نابغہ روزگار اور مقبول شخصیت اِس بات مصر تھیں کہ فحاشی ہی اس ملک کو درپیش سب سے سنگین مسئلہ ہے۔ ہمارے ممدوح ارفع ترین جذبات کی ترجمانی کرتے اشتہارات سے بھی فحاشی کے عناصر ڈھونڈ نکالتے تھے،اور اُن کے حامی یوں اتراتے، جسے اُنھوں نے سمندر سے کوئی نایاب موتی ڈھونڈ نکالا ہو۔ فقیر نے کبھی ان سے اختلاف کی جرات نہیں کی کہ فقیر مقبول و معروف افراد سے بہت ڈرتا ہے۔ تو ہم فحاشی کو مملکت خداداد کو درپیش مسائل میں بلند ترین استھان عطا کرتے ہیں، اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔

بھائیو، اس اسلامی ریاست میں کچھ مسائل ایسے بھی ہیں، جنھیں پاناما، ڈان لیکس اور روزہ نہ رکھنے والے بدبختوں سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ جی، پہلے بھی لکھا تھا، ہمیں پانچ گھاٹیاں درپیش ہیں۔ ناخواندگی، ناانصافی، بے روزگاری، عدم تحفظ اور شعبہ صحت کی بدحالی۔ انھیں عبور کیے بغیر ترقی کاہر دعویٰ وہ غبارہ ہے، جس میں ہوا بھرنے کے بعد منہ پر گانٹھ نہیں لگائی گئی۔ دعویٰ نٹ کھٹ غبارے کے طرح کچھ دیر ہوا میں تیرتا ہے،شور مچاتا ہے، اور لجلجا سا ہو کرزمین پر آن گرتا ہے۔ بدقسمتی سے، دنیا کی ہر نااہل حکومت کی طرح، ہماری کسی سرکار نے کبھی ناخواندگی، ناانصافی، بے روزگاری، عدم تحفظ اور شعبہ صحت کی جانب توجہ نہیں دی۔ اور کیوں دیتیں، اِس سے اُن کے مفادات جو وابستہ نہیں۔ اور جس سے اپنا مفادات وابستہ نہ ہووے، اس پر سوچ بچار کرنا پاپ ہے۔

اچھا، ان پانچ گھاٹیوں سے زیادہ ہولناک مسئلہ ہے، وہ تقسیم، جو ہمیں دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ لسانی، سیاسی، مذہبی، صنفی، جغرافیائی تقسیم۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم بٹتے جارہے ہیں۔ ایک دوسرے سے دُور ہورہے ہیں۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے، جس سے نمٹے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس تقسیم کو بڑھاوا دیتا ہے تذبذب۔ کنفیوژن۔ الجھن۔

دیکھ لیجیے، ایک سمت جمہوریت کو بہترین نظام قرار دیا جاتا ہے، دوسری جانب سیاست دانوں کوکرپٹ تصور کیا جاتا ہے ۔ ہم آمروں کے گرویدہ ہیں، مگر آمریت کو بگاڑ کی جڑ ٹھہراتے ہیں۔ سائنس اورلڑکیوں کی تعلیم سے متعلق بھی متذبذب ہیں۔ یہی معاملہ دولت اور دنیا کا ہے۔

تازہ واقعات میں اس ابہام کی جھلک دیکھ لیجیے، جو اس ریاستی بیانیہ کی راہ میں چٹان بنا کھڑا ہے، جسے رائج کرنے کی خواہش تو بار بار دہرائی گئی، مگر اُس کے نفاذ کے لیے سنجیدہ اقدامات دکھائی نہیں دیے۔ ملالہ یوسف زئی کا کیس سامنے ہے۔ ملالہ سے متعلق رائے عامہ بری طرح منقسم ہے۔ حامی اور مخالفین دو انتہاﺅں پر کھڑے ہیں۔ ہود بھائی کا معاملہ تازہ تازہ ہے۔ کشتوں کے پشتے لگ گئے تھے۔ ادھر قندیل بلوچ پر فلم بننے کی خبر آئی، ادھر سوشل میڈیا پر گھمسان کا رن پڑا۔ ایک دوسرے کے بخیے ادھیڑ دیے گئے۔

اسی تذبذب کا ہم تب شکار ہوتے ہیں، جب اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملہ ہوتا ہے،جب بھٹے پر کام کرنے والے مسیحی جوڑے کو جلا دیا جاتا ہے، جب لعل شہباز قلندر کے مزار پر دھماکا ہوتا ہے،شہری متذبذب نظر آتے ہیں۔ وہ مذمت کرتے ہیں، مگر کھل کر مذمت نہیں کرتے۔ مذمت میں اگر، مگر چوں کہ، چنانچہ کی بھرمار ہوتی ہے۔اچھا، مشال خان کیس کو بھی اسی میں شامل کر لیجیے، گو اس میں کچھ اقدامات ایسے ہوئے، جو امید افزا تھے۔ (کیسا المیہ ہے، یہاں موت سے امید افزا اقدامات جنم لیتے ہیں)

 تو یہ تذبذب ہے، جو ہمیں تقسیم کر رہا ہے یہ تذبذب ہے، جو فساد کی جڑ ہے یہ تذبذب ہے،جو ہمیں درپیش سب سے بڑا مسئلہ ہے، جس کے خلاف ہمیں تلوار اٹھانی چاہیے، جس پر ہمیں تیر برسانے چاہییں۔

 یہ تذبذب ختم ہوگیا، تو فحاشی فوبیا بھی دم توڑ دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).