جمائما کے لاکھوں ڈالرزکی کہانی


حنیف عباسی کی عمران خان کی نا اہلی کے لئے دائر درخواست کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے وکیل نعیم بخاری کو مخاطب کرکے کہا کہ دو سوال ہیں، ایک یہ کہ نیازی سروسز کمپنی الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اثاثوں کی تفصیلات میں ظاہر نہیں کی گئی، دوسرا یہ کہ عمران خان نے انکم ٹیکس گوشواروں میں کمپنی ظاہر نہیں کی۔ وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ عمران خان نیازی سروسز کمپنی کے شیئر ہولڈریا ڈائریکٹر نہیں تھے۔ کمپنی کی شیئرز ہولڈرز اور ڈائریکٹرز ان کی بہنیں علیمہ اور عظمی تھیں۔ اسی وجہ سے عمران خان قانونی طورپر کمپنی کو بطور اثاثہ ظاہر کرنے کے پابند نہ تھے۔ جس ملک میں کمپنی تھی وہاں قانون کے مطابق عمران خان کو کمپنی کا مالک ظاہرکیا گیا تھا، جب وقت عمران خان نے ٹیکس استثنا کی اسکیم سے فائدہ اٹھایا لندن فلیٹ ظاہر کیا جس سے سب اثاثے سامنے آگئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کہتے ہیں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں آنے سے عمران خان کو مکمل استثنا مل گیا۔ وکیل نے کہا کہ کمپنی ظاہر نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا جس پر عمل کیا گیا، اور چونکہ کمپنی کی مالیت صرف نو پاؤنڈ تھیں اس لیے اہمیت نہیں دی گئی، اسی طرح جس وقت عمران نے ٹیکس استثنا اسکیم سے فائدہ اٹھایا وہ عام شہری تھے۔ جسٹس عمر عطا نے کہاکہ کیا قانون صرف اسی وقت لاگو ہوگا جب بطور امیدوار معاملہ الیکشن کمیشن کے سامنے جائے گا۔

نعیم بخاری نے کہا کہ بیس کروڑ لوگوں میں سے صرف دس لاکھ افراد ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں، آف شور کمپنی کے معاملے پر چونکہ ایف بی آر نے عمران خان کو نوٹس جاری کیا ہے اس لیے سپریم کورٹ اس معاملے کا پہلے فیصلہ نہ کرے جو ایف بی آر دیکھ رہا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ یہ آپ خود اپنے ہی دلائل کی نفی کررہے ہیں۔ نعیم بخاری نے کہاکہ نیازی کمپنی ظاہر نہ کرنا غلطی ہے بددیانتی نہیں۔ اگر انکم ٹیکس نہ دیا ہوتا تب الگ بات ہوتی اور نادہندہ ہونے پر نا اہلی ہوسکتی تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نیازی کمپنی کے پاس صرف ایک اثاثہ فلیٹ تھا جس کی فروخت ہوگئی اس کے بعد اس کمپنی کو زندہ کیوں رکھا گیا۔ وکیل نے کہا کہ فلیٹ کے آخری کرایہ دار سے وصولی کے لئے کمپنی کو زندہ رکھا گیا جس کے لئے عدالت نے فیصلہ دیا تھا تاہم عمران خان نے کرائے سے زیادہ رقم وکیلوں کو دیدی مگر پھر بھی کرایہ وصول نہ کیا جا سکا۔ کمپنی کو دو ہزار پندرہ میں تحلیل کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کمپنی کو فلیٹ بیچنے کے بعد بھی زندہ رکھنے کی یہی ایک وضاحت سامنے آسکی ہے۔

وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ اب بنی گالہ اراضی خریداری پر دلائل دوں گا، جمائما اس حوالے سے پرانی دستاویزات اکٹھی کررہی ہیں جیسے ہی موصول ہوئیں عدالت میں پیش کردیں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پہلے مرحلے میں معاہدہ دیکھیں گے، اسے پڑھ لیں آپ کو یاد ہوگا۔ نعیم بخاری نے مزاحیہ انداز میں فقرہ ادا کیا کہ فیض کا کوئی مصرع بتا دیں تو جواب میں دوسرا مصرع نہ بتاؤں تو مجرم قرار دیا جاؤں۔ معاہدے کو بھی دیکھ لیں گے۔

پھر بولے، تیرہ مارچ دو ہزار دو کو تین سو کنال زمین خریداری کا معاہدہ چار کروڑ پینتیس لاکھ میں کیا گیا۔ پہلی ادائیگی تیس لاکھ نقد، دوسری ایجنٹ کو تین لاکھ ادائیگی جبکہ تیسری پینتیس لاکھ کا چیک ہے۔ اس کے بعد گیارہ اپریل دو ہزار دو کو ایک کروڑ پینتالیس لاکھ جمائما نے راشد خان کو بھیجے جو اراضی کے مالک کو دیے گئے۔ یکم اگست دو ہزار دو کو ایک کروڑ جبکہ تیرہ ستمبر کو پچیس لاکھ ادا کیے گئے، دو اکتوبر دوہزار دو کو پینتیس لاکھ اور تئیس جنوری دوہزار تین کو ستاون لاکھ کی ادائیگی کی گئی، آخری ادائیگی آٹھ لاکھ روپے نقد کی گئی مگر اس کی رسید اورتاریخ نہیں مل رہی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ادائیگی عمران خان کے ٹیکس گوشوارے سے معلوم ہوسکتی ہے۔ وکیل نے کہا کہ زمین بیچنے والے کو ادائیگی کے حوالے سے آج تک کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ جسٹس فیصل عرب نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ زمین بیچنے والا بھی عباسی ہے یعنی حنیف عباسی کی برادری کا ہی بندہ ہے۔

اس کے بعد وکیل نے جمائما کی جانب سے بھیجی گئی رقم کی تفصیلات پیش کیں، کہا کہ گیارہ اپریل دو ہزار دو کو دو لاکھ اٹھاون ہزار تین سو تینتیس ڈالرز بھیجے جن کو تبدیل کیا گیا تو ایک کروڑ چون لاکھ بائیس ہزار چارسو اسی روپے بنے۔ ڈالر کاریٹ انسٹھ روپے ستر پیسے تھا۔ اسی طرح یکم اگست کو جمائما نے راشد خان کے اکاؤنٹ میں دو لاکھ پچہتر ہزار چھ سو اٹھہتر ڈالرز بھیجے جن کو تین مختلف دنوں میں پاکستانی روپے میں تبدیل کیا گیا۔ اس کے بعد بیس ہزار پاؤنڈز بھی جمائما نے راشد کے اکاؤنٹ میں ڈالے۔ سولہ ہزار ڈالرز دوسری مرتبہ، پانچ پانچ ہزار ڈالرزتیسری اور چوتھی مرتبہ بھیجے گئے۔ پھر جمائما نے ایک لاکھ ڈالرز بھیجے، اس طرح جمائما کی جانب سے کل چار کروڑ آٹھ لاکھ اڑتالیس ہزار چار سو تریسٹھ روپے موصول ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ دو اپریل دوہزار تین کو ایک لاکھ دس ہزار ڈالرز بھی راشد خان کے اکاؤنٹ میں آئے۔ وکیل نے کہا کہ راشد خان عدالت میں موجود ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ رقم جمائما نے نہیں بھیجی تھی، وہ کاروباری شخص ہیں دوسرے ذریعے سے آئی تھی، جبکہ آخری بیس ہزار ڈالرز اکاؤنٹ میں کس ذریعے سے آئے راشد خان ابھی تک یاد کرنے میں ناکام ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ بنی گالہ کی اراضی کس رقم سے خریدی گئی؟ وکیل نے کہا کہ پہلی والی دستاویزات نامکمل تھیں اس لیے کنفیوژن ہوئی اب دستاویزات واضح ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کیا آپ ریکارڈ سے یہ دکھا سکتے ہیں کہ یہ تمام رقم جمائما نے ہی بھیجی؟ وکیل نے کہا کہ یہ تمام باتیں ریکارڈ اور دستاویزات سے ثابت کرنا میری ذمہ داری ہے۔

سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے آج کے اخبارات کی شہ سرخیوں کا گلہ کیا، کہاکہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ، وہ کچھ منعکس نہیں کرتا جو میں نے کہا تھا۔ صحافیوں سے بہت محبت کرتے ہیں، معلوم نہیں اتنی بڑی ہیڈ لائن کیسے لگی؟ پھر بولے، ہم صرف تحقیق کررہے ہیں۔

گزشتہ روز چیف جسٹس نے وکیل نعیم بخاری سے پوچھا تھا کہ اگر منی ٹریل ثابت نہیں ہوتی تو اس کے نتائج کیا ہوں گے اس کے بارے میں بھی آپ نے ہمیں بتانا ہے۔ جبکہ آج کے اخبارات میں شائع ہوا کہ ”اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے“۔

آخر میں عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ تحریک انصاف کے غیرملکی ممنوعہ فنڈز کے معاملے پر اپنے دلائل دینے کی تیاری کریں اور بتائیں کہ فنڈز کا معاملہ کس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اور اگر یہ کیس الیکشن کمیشن کے سامنے بھی زیر التواء ہے تو کیا سپریم کورٹ عوامی مفاد کے قانون کے تحت سن سکتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).