کابل سے کوئٹہ، خوست سے پاڑا چنار تک بکھرا لہو


کل کابل میں ایک بہت بڑا بم دھماکہ کیا گیا ہے جس میں سینکڑوں کی تعداد میں معصوم شہری ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔ دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ رمضان کے مقدس مہینے میں مسلمان شہریوں پر اس قسم کا حملہ مزید المناک ہے۔ دہشت گردی خواہ کابل میں ہو یا کوئٹہ میں، خوست میں ہو یا پاڑہ چنار میں، قندھار میں ہو یا کوئٹہ میں، ہلمند میں ہو یا لاہور میں، اس کی یکساں مذمت کی جانی چاہیے۔

یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جن کو ہم ’اچھے طالبان‘ کہتے ہیں وہ افغانوں کے لئے ’برے طالبان‘ ہیں اور جن کو ہم ’برے طالبان‘ کہتے ہیں وہ افغانوں کے لئے ’اچھے طالبان‘ ہیں۔ اب داعش بھی دونوں ممالک میں سرگرم ہونے لگی ہے جو دونوں ملکوں کے لئے ان کے برے طالبان سے کہیں زیادہ بری ہے۔ دونوں ملکوں کو دہشت گردی کرنے والوں کو یکساں برا سمجھنا ہو گا تو پھر ہی امن کی صورت بنے گی۔

پاکستان کے خلاف افغان عوام کے جذبات بھڑکے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان افغانستان میں دراندازی کا مجرم کیوں ٹھہرایا جاتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کی کھلے عام یا ڈھکے چھپے مدد کرنے والا قرار دیا جاتا ہے؟ وجہ ان دونوں ملکوں کی تاریخ میں چھپی ہے۔

کچھ مدت پہلے افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ ’گزشتہ برس کیے گئے پاکستان کے دورے کے وقت سے میں کہہ رہا ہوں کہ ہمارے درمیان ایک غیر علانیہ جنگ جاری ہے، ایک غیر علانیہ عداوت ہے اور ہمیں اس کو ختم کرنا ہو گا‘۔ لیکن بدقسمتی سے یہ جنگ ختم ہونے کی بجائے شدت اختیار کر رہی ہے۔ دہشت گردی سے نجات پانی ہے تو افغانوں اور پاکستانیوں کو اس معاملے پر کسی سمجھوتے پر پہنچنا ہو گا اور ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت کو یقینی بنانا ہو گا۔

حالیہ تاریخ سے تو ہم واقف ہیں کہ افغان سوویت جنگ کے دوران پاکستان نے وہاں سوشلسٹ حکومت کے خلاف جنگ کرنے والوں کی بھرپور مدد کی۔ ان کو روپیہ، پیسہ، ہتھیار اور لڑنے کے لئے بیس تک پاکستان نے فراہم کیے۔ جنرل ضیا اور ان کے ساتھیوں نے اسی زمانے میں ’تزویراتی گہرائی‘ نامی نظریہ بھی نکالا تھا کہ گویا جب افغانستان میں یہ حکومت مخالف جنگجو جیت جائیں گے تو انڈیا کے خلاف جنگ کی صورت میں ہم افغان سرزمین اپنی مرضی کے مطابق ایسے استعمال کر سکیں گے جیسے افغانستان ہمارا اپنا صوبہ یا مفتوحہ علاقہ ہو۔

آنے والے وقت نے اس نظریے کے خالقوں کو احمقانہ حد تک غلط ثابت کر دیا۔ جس وقت پاکستان کی دوست ترین شخصیت یعنی طالبان کے امیر ملا عمر کی حکومت بھی افغانستان میں تھی تو وہاں پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں تک کو پناہ دی جاتی رہی۔ ملا عمر کی حکومت بھارت کی مخالف تھی مگر پاکستان کے حلقہ اثر میں بھی نہیں تھی۔

کیا آپ نے سوچا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان افغانستان کے مختلف گروہوں کی حمایت کیوں کرتا ہے؟ اس وجہ کا نام ہے ڈیورنڈ لائن۔

افغانستان ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم نہیں کرتا ہے اور اٹک تک کے پاکستانی علاقے کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ انگریز سرکار سے ہوا تھا اور انگریزوں کے جانے کے بعد یہ معاہدہ ختم ہو گیا۔ ایک دعوی یہ کیا جاتا ہے کہ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ محض سو سال کے لئے تھا اور وہ 1993 میں ختم ہو چکا ہے۔ ان دعووں کی بحث میں جائے بغیر یہ کہنا کافی ہو گا کہ افغانستان نے آج تک ڈیورنڈ لائن کے معاہدے کو کسی بین الاقوامی فورم پر نہیں اٹھایا ہے۔ وہ یہ معاملہ صرف اپنے عوام کے جذبات بھڑکانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔

لیکن پاکستانی سرزمین پر اپنے اسی دعوے کے باعث روز اول سے افغانستان پاکستان کو دشمن قرار دیتا رہا ہے۔ افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی مخالفت کی۔ 1955 میں افغانستان میں پاکستان مخالف فسادات ہوئے۔ کابل میں پاکستانی پرچم کو نذر آتش کر دیا گیا اور کابل اور جلال آباد میں پاکستانی سفارت خانوں پر حملہ کر کے لوٹ مار کی گئی۔ ایک دن بعد ہی پاکستانی پرچم دوبارہ جلایا گیا اور پاکستان نے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دی۔ لیکن پھر ترکی، سعودی عرب، مصر اور ایران درمیان میں پڑے، اور ساڑھے تین مہینے بعد تیرہ ستمبر کو پاکستان نے افغانستان کی معذرت کو قبول کر لیا اور کابل کے پاکستانی سفارت خانے پر پاکستانی پرچم دوبارہ لہرانے لگا۔ ایک بار پھر، ستمبر 1961 سے لے کر مئی 1963 تک تعلقات اس حد تک بگڑے ہوئے تھے کہ پاکستان نے افغانستان سے سفارتی، تجارتی اور ٹرانزٹ تعلقات منقطع رکھے۔

افغانستان نے اپنی باضابطہ اور بے ضابطہ فوج کو قبائلیوں کے بھیس میں پاکستانی علاقوں میں لڑنے کے لیے بھیج دیا تھا۔ پاکستان نے پہلے تو اگست 1961 میں سرحد بند کی، اور پھر ستمبر مِں سفارتی تعلقات منقطع کر دیے گئے۔ اس جنگ جویانہ پالیسی کے باعث افغان معیشت تباہ ہونے لگی۔ یہ نظر آنے لگا کہ یا تو پاکستانی صدر ایوب خان اقتدار سے ہٹیں گے تو پاک افغان تعلقات بہتر ہوں گے، یا پھر افغان وزیراعظم سردار داؤد کو گھر جانا ہو گا۔ مارچ 1963 میں افغان بادشاہ ظاہر شاہ نے سردار داؤد کو گھر بھیج دیا اور ڈاکٹر محمد یوسف کو وزیراعظم مقرر کر دیا۔ مئی 1963 میں دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات بحال ہو گئے اور پاکستان نے پاک افغان بارڈر کھول دیا۔

ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کا اقتدار سنبھالا۔ انہیں پشتونستان کے مسئلے میں افغان حکومت کی کارستانیوں نے ستایا تو انہیں افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے تحت اسلام کو خطرہ نظر آنے لگا۔ انہوں نے افغان طلبا احمد شاہ مسعود، گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی سمیت پانچ ہزار مجاہدین کو کفر کی اس یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے تربیت اور اسلحہ دیا اور پہلی مرتبہ افغانستان کی پالیسی کو افغانستان پر ہی الٹا دیا۔ چالیس پینتالیس برس گزر گئے ہیں، لڑائی افغانستان میں ہی ہو رہی ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ المیہ یہ ہے کہ اگر پاکستان جوابی کارروائی کے طور پر افغانستان میں دخل اندازی بند کرتا ہے تو افغانستان پاکستان میں یہ کام شروع کر دے گا۔ بداعتمادی کی یہ فضا دونوں ملکوں کے عوام کو لہو میں نہلاتی رہے گی۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ جب تک ڈیورنڈ لائن پر افغانستان اپنے دعوے سے دستبردار نہیں ہوتا اور اسے بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کرتا، اور اسے بین الاقوامی سرحد کے طو ر پر پاسپورٹ اور ویزے کی پابندی کے تحت نہیں لایا جاتا، خاک اور خون کا یہ کھیل جاری رہے گا۔

لیکن ظاہر شاہ سے لے کر اشرف غنی تک کسی افغان حکمران نے یہ بات نہیں سمجھی ہے۔ طالبان امیر ملا عمر کا موقف بھی ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر وہی تھا جو سردار داؤد کا تھا۔

دونوں ملکوں کے امن پسند شہری اس نہ ختم ہونے والی مسلسل دہشت گردی پر بس تاسف ہی کر سکتے ہیں۔ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ کابل میں بہنے والا خونِ مسلم بھی اتنا ہی محترم ہے جتنا کوئٹہ میں بہنے والا خون، خوست پر ہمیں اتنا ہی افسوس ہوتا ہے جتنا پاڑا چنار پر، ہلمند پر ہم اتنے ہی غمزدہ ہوتے ہیں جتنا لاہور پر، مگر بدقسمتی یہی ہے کہ جب تک دونوں ممالک ایک دوسرے کی سالمیت کا احترام نہیں کریں گے، یہ سلسلہ جاری رہے گا اور انڈیا سے لے کر امریکہ تک سب اس چپقلش کا فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ایٹمی دور میں جنگ کے ذریعے پاکستان کی سرحد تبدیل کرنا ممکن نہیں رہا ہے اور مستقل امن کی طرف قدم نہیں بڑھایا جائے گا تو دونوں ممالک کے عوام کا خون یونہی بہتا رہے گا۔

جمعرات، جون 1، 2017

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar