سیاسی پرنس حسین کے لئے جے آئی ٹی اور مذہبی شہزادے حسان کے لئے معافی؟


27-28 مئی 2017 کی درمیانی شب موٹروے پر حافظ آباد کے تھانہ کالیکی منڈی کے قریب دو گاڑیوں میں سوار پیر حسان حسیب الرحمن نے اپنے ڈرائیور اور سات ساتھیوں کے ہمراہ دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فاضل جج مسٹر جسٹس سردار طارق مسعود کی گاڑی پر حملہ کر دیا۔
پیر حسان حسیب الرحمن راولپنڈی کی معروف درگاہ دربار عالیہ محمدیہ عید گاہ شریف کے گدی نشین پیر نقیب الرحمن کے صاحبزادے ہیں۔ حملے کا ہدف بننے والی گاڑی میں جسٹس طارق مسعود صاحب اپنے اہل خانہ سمیت لاہور سے اسلام آباد کی طرف سفر کر رہے تھے۔ جملہ ملزمان نے جج صاحب کی گاڑی کو نقصان پہنچایا اور جج صاحب اور ان کے اہل گھرانہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ جج صاحب نے قریبی تھانے میں پہنچ کر وقوعہ کی رپورٹ درج کروائی۔ جس پر پولیس نے ایف آئی آر نمبر 17/136 کا اندراج زیر دفعہ 506، 342، 147، 149 تعزیرات پاکستان اور زیر دفعہ 7 انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کیا۔ ملزم پیر حسان حسیب الرحمن کو ساتھیوں سمیت موقع پر گرفتار کر لیا گیا۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ سات ناقابل راضی نامہ ہے۔ یعنی اس جرم میں کسی نوعیت کی معافی یا صلح ممکن نہیں۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت وقوع پذیر ہونے والے جرائم کی تفتیش دفعہ 19 (1) کے تحت صرف جوانئٹ انوسٹی گیشن ٹیم ہی کر سکتی ہے۔

ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت (گوجرانوالہ) میں پیش کیا گیا جہاں جج خالد بشیر نے ملزمان کو بیس روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس موقع پر عدالت نے استغاثہ کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے مقدمے میں اقدام قتل کی دفعہ 324 کا بھی اضافہ کر دیا۔
درگار عالیہ عید گاہ شریف کے گدی نشین پیر محمد نقیب الرحمن کی طرف سے آج (جمعہ) 2 جون کو ایک قومی روزنامے کے صفحہ اول پر معافی نامے کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا گئیا ہے جس کے الفاظ درج ذیل ہیں۔
“میں پیر محمد نقیب الرحمن درگاہ عالیہ عید گاہ شریف، جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب میرے بیٹے حسان حسیب الرحمن نے جو واقعہ سپریم کورٹ کے معزز جج جناب جسٹس سردار طارق مسعود صاحب اور ان کی فیملی کے ساتھ کیا اس پر شرمندہ ہوں جس کے متعلق ایف آئی آر نمبر 136 بتاریخ 28-05-2017 بمقام تھانہ کالیکی منڈی حافظ آباد میں درج ہوئی ہے اور میرابیٹا اس سلسلے میں حوالات میں بند ہے۔ میں اپنی طرف سے اور اپنے بیٹے حسان حسیب الرحمن کی طرف سے جناب جج صاحب اور ان کی فیملی سے معافی کا خواستگار ہوں اور بطور ہرجانہ میں نے پانچ پانچ لاکھ روپے ایدھی ویلفئیر سینٹر اور فیض الاسلام یتیم خانہ راولپنڈی میں جمع کرا دیے ہیں جن کی رسیدوں کا عکس لف ہے۔ راولپنڈی ڈویژن کے وکلا کی جو دل آزاری ہوئی ہے اس کے لئے بھی معذرت خواہ ہوں“۔
اس موقع پر سوشل میڈیا اور عام افراد کی طرف سے متعدد سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

1۔ کیا اقدام قتل اور دہشت گردی کی دفعات عائد ہونے کے بعد صلح نامے یا کسی معافی نامے کی قانونی گنجائش موجود ہے؟

2۔ کسی اخبار میں اشتہار کی صورت میں چھپوائے گئے معافی نامے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

3۔ اخبار میں معافی نامہ ملزم کے باپ کی طرف سے شائع کیا گیا ہے جو متعلقہ مقدمے میں براہ راست فریق نہیں ہے۔ نیز اس اشتہار میں مسٹر جسٹس طارق مسعود کی جانب سے کسی رابطے، اتفاق یا عدم اتفاق کا کوئی اشارہ موجود نہیں۔

4۔ مذکورہ اخباری اشتہار میں راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے وکلا سے بھی معذرت کی گئی ہے۔ جب کہ ان وکلا کا اس مقدمے سے کوئی براہ راست تعلق نہیں۔
5۔ ملزم کے باپ نے اخبار میں اعلان کیا ہے کہ اس نے دو رفاہی اداروں کو 5 لاکھ روپے فی کس ہرجانے / صدقے کی مد میں ادا کر دیے ہیں۔ کسی عدالتی حکم کی عدم موجوگی میں اس طرح کے کسی ہرجانے / صدقے کی قانونی حثیت صفر ہے۔
6۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت ملزمان کو جسمانی ریمانڈ پر حوالہ پولیس کر چکی ہے۔ ریمانڈ کی مدت مکمل ہونے سے قبل مقدمے میں مزید کسی قانونی پیش رفت کی گنجائش موجود نہیں۔

7۔ قابل تصفیہ قرار دیے گئے جرائم میں بھی تصفیے کی کارروائی چالان پیش ہونے اور فرد جرم عائد ہونے سے قبل ممکن نہیں۔ جب کہ موجودہ مقدمہ میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ سات موجود ہونے کے باعث تصفیے یا معافی کی کارروائی یکسر ممکن نہیں۔

8۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کا بیٹا حسین نواز باقاعدگی سے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنی دولت کا حساب دے رہا ہے۔ عدالت بار بار اعلان کر رہی ہے کہ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں۔ چنانچہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملزم حسان حسیب الرحمن کے زیر استعمال کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں کا حساب کیوں نہ لیا جائے؟

9۔ ملزم کی تعلیمی قابلیت اور پیشہ ورانہ اہلیت کے مطابق اس کے ذرائع آمدن کی پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔

10۔ یہ امر ریکارڈ پر موجود ہے کہ ملزم باقاعددگی سے بیرون ملک دورے کرتا ہے جو کئی ہفتوں پر محیط ہوتے ہیں۔ ملزم کے سفر، قیام اور دیگر اخراجات کے ذرائع معلوم کرنا ضروری ہے۔

11۔ مارچ 2016 میں ملزم حسا ن حسیب کی شادی اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میں تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوئی۔ مناکورہ ہوٹل کے ریکارڈ سے مہمانوں کی تعداد اور طعام پر اٹھنے والی رقم کا تخمینہ بآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے۔
12۔ یہ سوال بنیادی حیثیت رکھتا ہے کہ ملزم اور اس کے باپ کے ذرائع امدنی کیا ہیں۔ نیز یہ کہ کیا ملزم اور اس کا باپ اپنی آمدنی اور جائیداد پر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اور انہوں نے حالیہ برسوں میں کتنا ٹیکس ادا کیا ہے؟

13۔ مارچ 2016 میں اسلام آباد کے ڈی چوک دھرنے میں ملزم ان علما میں شامل تھا جنہوں نے عدالت عظمیٰ، عساکر پاکستان اور منتخب حکومت کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کی تھیں جن کا دستاویزی ریکارڈ موجود ہے۔ کیوں نہ ملزم کو توہین عدالت کا عادی مجرم سمجھا جائے۔

14۔ ملزم اور اس کے باپ کے ملک کی اہم سیاسی شخصیات کے روابط موجود ہیں۔ معلوم کرنا چاہیے کہ ان روابط کی نوعیت فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی پر مبنی اور آپریش ردالفساد کے منافی تو نہیں؟

15۔ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ درگاہ عالیہ عید گاہ شریف کی تاریخی حیثیت کیا ہے۔ کیا یہاں کوئی صوفی بزرگ دفن ہیں یا محض عید گاہ پر غیر قانونی قبضہ کر کے اسے درگاہ کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں محکمہ اوقاف اور وزارت مذہبی امور سے استفسار کیا جانا چاہیے۔
16۔ حسین نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کو اسٹیٹس کو (Status Quo) اور اشرافیہ کے خلاف ایک تاریخی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں خانقاہی اور درگاہی اشرافیہ کا وجود تاریخی طور پر نواز شریف فیملی سے زیادہ قدیم ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاسی شہزادے حسین نواز کی طرح مذہبی شہزادے حسان حسیب الرحمن کے خلاف بھی شفاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ حسین نواز سے محض سیاسی انتقام نہیں لیا جا رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).