’کیا میری اوبچری لکھ رہے ہو‘


اخباروں میں یہ روایت عام ہے کہ اعلیٰ شخصیات کی اوبچری یعنی خبر مرگ پہلے سے تیار کر کے رکھی جاتی ہے۔

یہ شاید 1994 کا سال تھا جب میں بھی اسلام آباد کے ایک اخبار کے لیے آئینی اور قانونی امور کی رپورٹنگ کیا کرتا تھا تو میرے ایڈیٹر نے مجھے ایک ایسے شخص کی اوبچری لکھنے کو کہا جسے فوجی حکمرانوں کے غیر آئینی اقدام کو قانونی لبادہ پہنانے کا ماہر تصور کیا جاتا تھا۔

جب میں نے اپنے ایڈیٹر کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے سید شریف الدین کو کراچی میں فون کیا اور ان کے حالاتِ زندگی کے بارے میں بات شروع کی تو وہ ایک منٹ کے بعد سمجھ گئے کہ میں کس مقصد کے لیے ان کی زندگی کے بارے میں باتیں پوچھ رہا ہوں۔ کہنے لگے’ کیا میری اوبچری لکھ رہے ہو’ اور پھر یہ کہہ کر گفتگو کا سلسلہ منقطع کر دیا:’ابھی نہیں۔’

آج دو عشروں بعد شریف الدین اس دنیا میں نہیں رہے۔

سید شریف الدین پیرزادہ پر جب بھی فوجی حکومتوں کی حمایت کا الزام لگتا تو وہ جمہوریت کے لیےاپنی خدمات کا ذکر کرتے۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ انھوں نے 1955 میں تمیز الدین کیس لڑا۔ یہ شاید پہلا اور آخری مقدمہ تھا جب انھوں نے حکومتِ وقت کے خلاف لڑا اور اس سے انھیں ایسا سبق ملا کہ انھوں نے ساری زندگی حاکم وقت کا ساتھ دیا خواہ وہ فوجی حکمران ہوں یا جمہوری۔

سید شریف الدین پیرزادہ ساری زندگی اپنا تعلق قائداعظم سے جوڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ کبھی اپنے آپ کو بیرسٹر محمد علی جناح کا جونیئر کہا اور کبھی قائد اعظم محمد علی جناح کا سیکریٹری ہونے کا دعویٰ کیا جس پر کسی نے یقین نہیں کیا۔

جنرل ضیا الحق کے دور میں جب ریاستِ پاکستان قائد اعظم کو صوم و صلوۃ کا پابند، راسخ القیدہ مسلمان ثابت کرنے کے پراجیکٹ پر کام کر رہی تھی تو شریف الدین پیرازہ بھی ایک ایسی شہادت لے آئےجس کا کوئی دوسرا گواہ نہیں ہے۔

انھوں نے کہا جب وہ قائد اعظم کے سیکریٹری تھے تو انھوں نے ایک دن کھڑکی سے دیکھا کہ قائد اعظم اپنے کمرے میں جائے نماز بچھا کر خصوح و خشوع سے عبادت میں مصروف تھے۔

شریف الدین پیرزادہ قائد اعظم کے سیکریٹری ہونے کے دعوے کے حق میں ایک ایسی تصویر پیش کرتے تھے جس میں وہ قائد اعظم کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ جب شریف الدین نے یہ دعویٰ کیا تو اس وقت تک فوٹو شاپ سافٹ ویئر ابھی مارکیٹ میں نہیں آیا تھا لیکن بہت سے ایسے لوگوں کے مطابق جنھوں نے اسے دیکھا، وہ تصویر چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ مجھے تصویر پر تصویر رکھ کر فوٹو کاپی کیا گیا ہے۔

سید شریف الدین پیرزادہ کی وجہ شہرت تو فوجی حکمرانوں کو قانونی مدد کرنے سے ملی لیکن وہ پاکستان کے چند کامیاب ترین وکیلوں میں سے ایک تھے۔ قانون دانوں کی زبان میں انھیں قانونی حوالوں کا ماہر وکیل تصور کیا جاتا تھا۔

جب فوجی حکمران پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار چودھری کو عدالت سے نکال باہر کیا تو ان کے مقدمے کی سماعت کے دوران جب انھوں نے ملائیشیا میں ججوں اور وزیر اعظم مہاتر محمد کے مابین جھگڑے کا حوالہ دیا تو بینچ کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا’کہ آپ تو ہمیں ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔’

سید شریف الدین پیرزادہ خود تو صحافیوں سے بات نہیں کرتے تھے لیکن اپنا نام ہمیشہ اخباروں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے مجھے لائسنس دے رکھا تھا کہ جب بھی میں کسی نئے قانون یا کسی آئینی معاملے پر وکلا کا موقف جاننے کی کوشش کروں تو اس میں یہ بلا خوف تردید لکھ دیا کرو ‘کہ جب میں نے شریف الدین پیرزادہ سے اس سلسلے میں رائے جاننا چاہی تو انھوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔’

سید شریف الدین چونکہ پاکستان کےتمام فوجی حکمرانوں کے قریب رہے انھوں نے اپنے بہت سارے جونیئرز کو بطور جج تعینات کروایا جن میں کئی چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے تک پہنچے۔ ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ خبروں میں لکھا جائے کہ فلاں فلاں جج شریف الدین کے جونیئر تھے۔

سید شریف الدین پیرزادہ کا کامیاب قانونی سفر تمام ہو گیا لیکن پاکستان کی آئینی اور قانونی تاریخ میں ان کے نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

(رفاقت علی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp