کیا ہمیں ہندوستان کی اصل حکمت عملی کا ادراک ہے؟


\"asafیہ بات دسمبر 1963 کی ہے جب کامراج پلان کی آڑ میں پنڈت نہرونے ایوان اقتدار کے لئے اپنی صاحب زادی اندرا گاندھی کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے کانگریس کے سینیر رہنماوں کو وزارتی عہدوں سے مستعفی ہو کر پارٹی کی تنظیم کے لئے کام کرنے کی ہدایت کی تھی اور چھ ریاستوں کے وزراءاعلی کے ساتھ مرکز میں لال بہادر شاستری اور مرار جی دیسائی کو بھی اپنے عہدوں سے استعفی دینا پڑا تھا۔
کابینہ سے برطرفی کے بعد مرارجی دیسائی کے ایک قریبی گجراتی صحافی راج سولنکی نے مجھے اور پاکستان ٹایمز کے اسلم شیخ کویہ پیغام دیا کہ مرارجی بھائی ہم دونوں پاکستانی صحافیوںسے ملنا چاہتے ہیں۔ ہمیں سخت تعجب ہوا کہ اس وقت جبکہ سری نگر میں حضرت بل درگاہ سے موئے مقدس کے غائب ہونے پر کشمیر میں سخت ہنگامے برپا ہیں اور پورا ملک لرز اٹھا ہے ، مرارجی بھائی ہم سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔لیکن ہم نے سوچا کہ یہ بڑا اچھا موقع ہے کہ زخم خوردہ مرار جی بھائی سے یہ معلوم کیا جائے کہ ان کے استعفی یا برطرفی کے پس پشت اصل وجوہات کیا ہیں گو سب یہ کہہ رہے تھے کہ اس کا مقصد پنڈت نہرو کا اندرا گاندھی کے راستے سے سارے پرانے کانٹوں کو صاف کرنا ہے، لیکن ہم مرارجی دیسائی کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے۔
بہرحال ہم مرار جی دیسائی سے ملاقات کرنے کے لئے راشٹرپتی بھون اور وزیر اعظم کی کوٹھی تین مورتی کے درمیان واقع اراکین پارلیمنٹ کے بنگلوں میں سے ایک بنگلہ میں پہنچے۔
جیسے ہی ہم آمنے سامنے بیٹھے ، مرارجی دیسائی نے بڑے طیش میں کہا کہ پاکستان کشمیر میں ہنگامہ برپا کر ا سکتا ہے لیکن وہ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہم پاکستان میں ،مشرقی پاکستان میں ، سندھ میں، سرحد میں اوربلوچستان میں ایسے ہنگامے نہیں کرا سکتے اور پاکستان کی جان عذاب میں نہیں ڈال سکتے۔

ہم سخت پریشان تھے کہ آئے تو ہم مرارجی دیسائی کی برطرفی کی وجوہات ٹٹولنے کے لیے لیکن سامنا ہمیں مرارجی بھائی کی اس طیش آمیز دھمکی کا کرنا پڑا۔تھوڑی دےر تک تو ہم ہکابکا بیٹھے رہے ،پھر میں نے ہمت کی اور نہایت ادب سے کہا کہ کیا ہندوستان نے پاکستان میں فوجی طالع آزمائی کی کوشش نہیں کی جب تین سال قبل جنرل چوہدری کی قیادت میں ہندوستانی فوج کے دستے سرحد پار مشرقی پاکستان میں داخل ہوئے تھے لیکن انہیں پاکستانی فوج نے بری طرح سے سرحد پار دھکیل دیا تھا۔اور آپ کو سن پچاس کا وہ واقعہ تو یاد ہوگا جب ہندوستان کی فوج پاکستان کی سرحد پر جمع ہوئی تھی اور اسکے جواب میں لیاقت علی خان نے محض مکا دکھایا تھا اور ہندوستانی فوج سرحد سے واپس چلی گئی تھی۔

یہ ملاقات جس کے لئے ہم اندر کے خبر کی امید کے رتھ میں سوار ہو کر گئے تھے ، گرما گرم بحث پر ختم ہوئی۔ واپسی پر میں نے اسلم شیخ سے کہا کہ عجیب بات ہے کہ مرار جی دیسائی نے کامراج پلان اور اپنی برطرفی کا غصہ پنڈت نہرو پر اتارنے کے بجائے ہم ، بے قصور پاکستانی صحافیوں پر اتارا۔

یہی مرارجی دیسائی 1977میں وزیر اعظم بنے اور 1990میں پاکستان کے حکمرانوں نے انہیں پاکستان کے اعلی ترین اعزاز ، نشان پاکستان سے نوازا۔

ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو ہندوستان کی قدیم تاریخ، ہندوستان کے رہنماوں کے انداز فکراور ان کی حکمت عملی کے راز کا قطعی کوئی علم نہیں ہے ۔ وقتی مصلحتوں کی عینک چڑھا کر یا اپنے ذاتی مفاد میں کند فہم ہو جاتے ہیں۔ اب جب سے وزیر اعظم نواز شریف نے گجرات میں دو ہزار مسلمانوں کے قتل عام کے خون کے داغی نریندر مودی سے دوستی کی پینگیں بڑھائی ہیں اور ہندوستان سے تجارتی تعلقات استوار کرنے کے لئے بے تاب ہیں ، پاکستان کے بارے میں ہندوستان کی طویل المعیاد حکمت عملی کے بارے میں ، یکسر لا علم نظر آتے ہیں ۔

میں 1959سے 1965تک دلی میں صحافی کی حیثیت سے متعین تھا او رپینسٹھ کی جنگ کے دوران تہا ڑ جیل میں قید تنہائی گذار چکا ہوں۔ مجھے ہندوستان کی سیاست ، سیاست دانوں اور ان نظریاتی عوامل کا گہرائی میں جا کر مطالعہ کا موقع ملا ہے جن کی بنیاد پر پاکستان کے بارے میں ہندوستان کی حکمت عملی وضع ہوتی آئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں پالیسی ساز ہندوستان کے بارے میں حکمت علمی مرتب کرتے وقت بعض بنیادی حقایق نظر انداز کر دیتے ہیں۔

پورے ہندوستان میں وہ چاہے کسی ذات اور کسی سیاسی نظریہ سے تعلق رکھتے ہوں ، اعلی تعلیم یافتہ اور روشن خیال افراد ہوں یا دیہاتوں میں زندگی بسر کرنے والے ہوں ، ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ ہندوستان کا آخری سمراٹ چندر گپتا موریہ تھا جس کے بعد ہندوستان، غیر ملکی حکمرانوں کے زیر تسلط رہا ۔ یہ سلسلہ 712 میں محمد بن قاسم کی فتح سندھ سے شروع ہوا اور پھر غوری، تغلق ، لودھی، مغل، ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریزی راج تک رہا۔ ہندو قوم پرستوں کا موقف ہے کہ 1947میں آزادی کے بعد ہندوستان چندر گپتاموریہ کے دور کے بعد صحیح معنوں میں آزاد ہوا ہے۔ در اصل چندر گپتا موریہ اور اشوک کے دور کی تجدید ہندوتا کا بنیادی نظریہ ہے۔ اور اسی کے بل پر بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار نے عوام میں ہندو قوم پرستی کی آگ بھڑکائی ہے۔

چندر گپتا موریہ کی سلطنت جو ہندوستان کی تاریخ میں سب سے وسیع سلطنت تھی، بنگال سے لے کر کشمیر اور موجودہ پاکستان اور افغانستان میں وسط ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ ہندوتا کا مقصد موریہ سلطنت کی شان بحال کرنے کے لئے اس پورے علاقے کو اگر ہندوستان میں شامل نہ کیا جاسکے تو کم از کم اس پر اپنا سیاسی ، اقتصادی اور فوجی اثر مسلط کرنا لازمی ہے۔

ہندوستان میں پالیسی سازوں کو اس کا احساس ہے کہ پاکستان کے جوہری طاقت بننے کے بعد فوجی قوت کے بل پر ہندوتاکے مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے لہذا ، اس پورے علاقہ پر ہندوستان امن و آشتی اور دوستی کے ماحول میں اپنی اقتصادی قوت کی بنیاد پر سیاسی اور اقتصادی برتری قایم کر سکتا ہے ۔ گاندھی جی کے رام راج کے قیام کا نظریہ ہندوتا کے سکہ کا دوسرا رخ تھا۔ وہ پاکستان سے دوستی اور عدم تشدد کے نظریہ کی آڑ میں پورے بر صغیر پر ہندوستان کا سیاسی اور اقتصادی تسلط جما نا چاہتے تھے۔

یہ بات بے حد اہم ہے کہ آزادی کے فور بعد گاندھی جی نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہندوستان کو یک طرفہ طور پر اپنی افواج کو ختم کردینے کا اعلان کر دینا چاہئے۔ اس تجویز کے سلسلہ میں انہوں جواز یہ پیش کیا تھا کہ بر صغیر میں ہندوستان ایک بڑاملک ہے جو چھوٹے چھوٹے ملکوں سے گھر ا ہوا ہے جو ہمیشہ ہندوستان کی فوجی قوت سے خایف رہیں گے اور اس بناءپر ان ملکوں کا رویہ جارحارنہ رہے گا اور نتیجہ یہ کہ ان ملکوں کے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہیںگے جو ہندوستان کے سیاسی اثر اور اقتصادی مفادات کے لئے رکاوٹ بنیں گے۔ گاندھی جی کا استدلال تھا کہ ہندوستان اپنی افواج ترک کر کے کشیدگی کا ماحول ختم کر سکتا ہے ۔ لیکن کانگریس کے رہنماوں نے گاندھی جی کی اس حکمت عملی پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور ویسے بھی آزادی کے چھ ماہ بعد گاندھی جی آر ایس ایس کے جنونی نتھو رام گوڈسے کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔

مجھے یاد ہے کہ نومبر 1960میں سوشلسٹ رہنما جے پرکاش نارائن اور امریکا میں انڈیا لیگ کے سربراہ ، جے جے سنگھ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ہندوستان کی پالیسی کے متعلق ایک دستاویز وزیر اعظم نہرو کو پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کو فراخدلانہ انداز سے کشمیر پر پاکستان کے موقف کو من وعن تسلیم کر کے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل کردینا چاہئے کیونکہ اس میں ہندوستان کا طویل المعیاد مفا د ہے ۔ کشمیر کامسلہ حل ہونے کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی ختم ہو جائے گی ، سرحدیں کھل جائیں گی او ر ہندوستان کو پاکستان میں اپنا اقتصادی اور سیاسی اثر پھیلانے کے لئے دروازے کھل جائیں گے اور پاکستان کے راستے ہندوستان افغانستان اور اس سے آگے وسط ایشیا کے بازاروں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا۔

اس دستاویز کا بنیادی نظریہ چندر گپتا موریہ کی پالیسی پر مبنی تھا۔ 340قبل مسیح کے طاقت ور بادشاہ نے سکندر اعظم کے جانشین سیلوکس اول کو شکست دی تھی لیکن بعد میں سیلوکس کی بیٹی سے شادی رچائی تھی مقصد اس کا یونانی سلطنت کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنا اور اس کے بل پر مغربی دنیا سے رابطہ قایم کرنا تھا تاکہ ہندوستان کی تجارت کو وسعت اورفروغ دیا جا سکے۔

جے پرکاش ناراین اور جے جے سنگھ کی اس دستاویز میں رائے ظاہر کی گئی تھی کہ پاکستان کے ساتھ تمام دیواریں اور فصیلیں گرا نے کی حکمت عملی کے نتیجہ میں پاکستان میں فوج کے ہمہ گیر اثرکو زک پہنچے گی جو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی بنیاد پر اپنی قوت کو فروغ دے رہی ہے۔

بر صغیر میں ہندوستان کی برتری اور بالا دستی قایم کرنے کے لیے ہندوستان ایک دو مونہی حکمت عملی پر کار بند ہے ۔ جس میں لا محالہ پاکستان کو بے حد اہمیت حاصل ہے کیونکہ پاکستان ہی ہندوستان کی برتری کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے ، یہ دو مونہی حکمت عملی نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال نے وضع کی ہے ۔ اس حکمت عملی کا مقصد ایک طرف پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے دہشت گردوں اور علاحدگی پسندوں کی پشت پناہی اور دوسری سمت دوستی اور امن و آشتی کا پھریرا لہرا کر اقتصادی مفادات کا حصول ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ کوشش اور دباﺅ پاکستان کو واہگہ سے جلال آباد تک راہ داری کی سہولت فراہم کرنے پر راضی کرنے کے لئے ڈالا جا رہا ہے۔ جس طرح پٹھان کوٹ کے حملہ کی ایف آئی آر گوجرانوالہ میں درج کی گئی ہے اس کے بعد خدشہ ہے کہ راہ داری کے معاملہ میں بھی پاکستان کے حکمران گھٹنے ٹیک دیںگے ۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments