میری عادتیں خراب کرنے والے میرے بزرگ


میری عادتیں خراب کرنے والے مجھ سے محبت کرنے والے میرے سارے بزرگ ایک ایک کر کے چلے گئے۔ نانا، نانی، دادا، دادی وہ تو خیال رکھتے ہی تھے ان کے بہن بھائی وہی پیار دیتے تھے جو یہ بزرگ ہمیں کرتے تھے۔

ان سب بزرگوں کے خیالات بھی ملتے جلتے ہی تھے۔ ان کی زبان پر وہی ہوتا تھا جو ان کے دل میں ہوتا تھا۔ سیدھے سادے لوگ تھے جھوٹ بولنا انہیں آتا نہیں دیکھا تھا۔ ان سے پختونوں کی روایتی بہادری کے قصے سنا کرتے تھے۔ یہ لوگ معاملات میں کھرے تھے تعلق بناتے تو جان دینے کو تیار رہتے۔ کسی سے نفرت کرتے تو جان لینے کو بھی تیار رہا کرتے۔ اپنے حال میں مست رہنے والے لوگ جو چاپلوسی خوشامد سے ناواقف تھے۔ نماز روزہ ان کی عادت کا حصہ تھا۔

یہ لوگ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے۔ یہ تن آسان نہیں تھے محنتی لوگ تھے۔ یہ میری ہی کہانی نہیں ہے آپ کی بھی ہے۔ اپنے دل میں جھانکیں اپنے پیاروں کو یاد کریں جو چلے گئے ہیں۔ وہ کیسے لوگ تھے۔ آپ بھی میری طرح انہیں یاد کرنے لگیں گے۔ آپ کو ان کی باتیں یاد آئیں گی۔ ان کا سادہ انداز ان کی معصومیت یاد آ رہا ہو گا۔

ہمارے یہ جو بڑے چلے گئے ہیں لگتا ہے کہ اس دور میں مس فٹ تھے۔ موجودہ دور کی تیز رفتاری کا شاید یہ ساتھ نہ دے پاتے۔ آج جو دو نمبری ہوتی ہے جیسے جھوٹ چلتا وہ سب ان کے لیے مشکل ہوتا۔ یہ لوگ سادہ زندگی گزارتے تھے اس سادہ انداز کی وجہ سے ہی کئی بیماریوں سے محفوظ رہتے تھے۔ بلڈر پریشر شوگر اور دل کے امراض ان کے وقتوں میں عام نہیں تھے۔

میی تو سوچتا ہوں تو ان لوگوں کے فیصلے کرنے کا انداز بھی مختلف لگتا ہے۔ وہ بڑے بڑے فیصلے فوری کر گزرتے تھے ہم سوچتے رہ جاتے ہیں۔ دنیا تب ہی پرسکون رہتی ہے جب زندگی کو سادہ رکھا جائے۔

زندگی جتنی مشکل ہے جتنے چیلنج لے کر آتی ہے اتنا ہی ہمیں اپنے پیاروں کی یاد آتی ہے۔ ان کی عادتیں ان کی باتیں ہی اب راہنمائی کرتی ہیں۔ کوشش ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے اپنے بڑوں جیسا بن سکیں۔ یہ شاید ممکن نہ ہو لیکن ایسا کرنا تو ہے۔ اپنے پیاروں کو ہم یاد کرتے ہیں خدا سے دعا ہے کہ ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے اور ہمیں ان جیسا بننے کی توفیق اور ہمت دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).