قوم، ہجوم اور مہنگے فروٹ کا بائیکاٹ


ایک اچھی بات شاید ملک بھر میں پہلی بار دیکھنے سننے اور پڑھنے کو مل رہی ہے کہ پوری قوم کسی ایک بات پر متفق دکھائی دے رہی ہے اسے ایک اچھی نوید قرار دیا جاسکتا ہے مہذب ملکوں میں تو یہ ایک معمول ہے کہ کوئی بھی ایشو ہو سوسائٹی اسے بطور ”قومی مسئلہ“ لیتے ہوئے اس پر مکمل اتفاق کرتے ہوئے لا ئحہ عمل مرتب کرتی ہے ان ممالک میں جھوٹ، دھوکہ دہی، ملاوٹ کا تصور نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس طرح کی سماجی و اخلاقی برائیوں کو معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ وہاں پر آپ کو مہنگائی کا رونا روتے لوگ نظر نہیں آئیں گی کیوں؟ اس لئے کہ وہاں کئی کئی سال تک اشیاءخورد ونوش کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوتا، مذہبی تہواروں پر ضروریات زندگی سستی کر دی جاتی ہیں جبکہ ہمارئے ہاں رمضان کے مہینے کو بھی”سیزن“ کمائی کا مہینہ کہا جاتا ہے۔

غیر مسلم ممالک میں بھی ریلیف دیا جاتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا سمیت یورپ کے تمام ممالک میں اشیاء خورد و نوش سستی کردی جاتی ہیں، لیکن پاکستان وہ ملک ہے جہاں ہر شے دگنی قیمتوں پر فروخت کرکے ناجائز منافع خوری کی جاتی ہے۔ پرائس فکسنگ دراصل مارکیٹ میں موجود فریقوں کے درمیان طے پانے والا ایک معاہدہ ہوتا ہے، جس کے ذریعے اشیاء اور مصنوعات کی خرید و فروخت کی قیمتیں مقرر کر دی جاتی ہیں اور اشیاء کی فراہمی اور ان کی طلب پر کنٹرول رکھتے ہوئے طے شدہ قیمتوں کو برقرار رکھا جاتا ہے یہ کام حکومت کا ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں حکومتی مشینری نا صرف نا اہل ہے بلکہ رشوت خور بھی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر سال وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم پاکستان کو سستے رمضان بازار لگانے پڑتے ہیں اور کروڑوں روپوں کے اشتہار دینے کے ساتھ آٹے کے تھیلوں اور گھی کے ڈبوں پر اپنی تصاویر چپھوانی پڑتیں ہیں۔ اگر ملکی نظام درست ہو تو میاں صاحبان کو اپنی عزت و توقیر میں اضافے کے لئے اشتہار بازی نہ کرنی پڑے۔

اس بار رمضان میں فروٹ کی مہنگائی کے خلاف مہم زوروں شوروں پر ہے سوشل میڈیا پر ہم جیسے ’خاک نشینوں‘ کی آواز اس وقت پورے ملک کی آواز بن چکی ہے اور تین روزہ بائیکاٹ کیا گیا ہے اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں کیا کوئی فرق پڑتا ہے اس سے قطع نظر یہ ایک تواناآواز حکومت، منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں او ملاوٹ مافیا کے ایوانوں میں ہلچل مچانے کی شروعات ہے۔ اگر قوم میں یونہی اتحاد پیدا ہو گیا اور اپنے مسائل کے لئے آواز بلند کرتے رہے تو وہ دن اس ملک میں تبدیلی کا دن ہو گا۔ گو کہ منہگے فروٹ کے بائیکاٹ کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے خلاف بھی یار لوگ اس طرح کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہ ”برگر پیزا اور کافی کا بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے“ جیسے الفاظ لئے سوشل میڈیا پر وارد ہوئے ہیں لیکن انہیں پزیرائی نہیں مل سکی قوم ایک آواز کا نام جبکہ منتشر الخیالی ہجوم کا نام ہے۔

آئے دیکھتے ہیں قومیں کیسے بنتی اور ہیں اور ہجوم کی سائیکی کیا ہوتی ہے؟

تین واقعات:

پہلا واقعہ : کچھ برس پہلے سعودی عرب میں کسی وجہ سی چینی کی قیمت میں اضافہ کرنا ناگزیر ہو گیا (یاد رہے ان ممالک میں اشیاءخورد ونوش کی قیمتوں میں اضافہ شاذ ہی دیکھنے میں آتا ہے) جس کے لئے سعودی باشاہ کو قومی ٹی وی پر آکر قیمت میں اضافے کا اعلان کرنا پڑا قیمت میں اضافے کی وجوہات بتانے کے بعد ایک ریال کا اضافہ کیا اور چلے گئے لیکن کچھ دیر بعد وہ پھر ٹی وی پر آئے اور کہا کہ قیمتوں میں اضافے کا اطلاق نئی خریداری پر ہو گا پرانا سٹاک پرانی قیمت پر ہی فروخت ہو گا۔ ذرا اپنے ہاں سے موازنہ کیجیے کہ پٹرول کی قیمت میں اضافے کے اعلان کے ساتھ ہی پٹرول پمپ مالکان شہریوں کے لئے پمپ بند کر دیتے ہیں اسی طرح دیگر معامالات میں ہوتا ہے۔

دوسرا واقعہ: سویڈن میں ایک وزیر کا بیٹا اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لئے صبح کے وقت ہاکری کرتا تھا جس کے لئے وہ صبح صبح اخبار مارکیٹ جاتا اور اپنے کلائنٹ کے گھروں میں اخبار پھینک کر پھر سکول روانہ ہو جاتا اس کا یہ معمول برسوں سے جاری تھا حتکہ سکول کی چھٹیوں میں بھی اس کے لئے کوئی چھٹی نہیں ہوتی تھی اس کا باپ اپنے بیٹے کی اس قدر محنت اور جفا کشی کو آسان کرنے کی ترکیبیں سوچتا رہتا۔ ایک دن اس نے اپنے بیٹے سے کہا بیٹا تم چند دن چھٹی کر کے کسی پر فضا مقام پر اپنا وقت گزار لو تاکہ تمہیں کچھ آرام مل جائے۔ بیٹا۔ ! ڈید یہ نامکمن ہے اخبار کی کوئی چھٹی نہیں ہوتی اس لئے کیسے؟ باپ۔ ! تمہاری جگہ میں صبح اخبار پھینک دیا کروں گا۔ ! بیٹے نے ممنوں اور تشکر بھری آنکھوں سے باپ کو دیکھا اور رضامندی ظاہر کر دی۔

بیٹے نے باپ کو سارا کام سمجھایا اور خود کسی پر فضا مقام پر چند دن کے لئے چلا گیا جبکہ باپ اگلے دن سے صبح اخبار مارکیٹ سے اٹھاتا اور بیٹے کے کلائینٹس کے گھروں میں پھینک دیتا یہ معمول جاری تھا کہ ایک دن کسی ” پاپا رازی“ نے بریکینگ نیوز دیتے ہوئے وزیر صا حب کی اخبار پھینکتے ہوئے تصویر کے ساتھ خبر چلا دی بس پھر کیا تھا ایک شور ہر طرف مچ گیا شور پارلیمنٹ تک جا پہنچا اور وزیر کو طلب کر کے پوچھا گیا کہ کیا یہ سب سچ ہے؟ وزیر نے کہا جی بلکل سچ ہے (کوئی نہال ہاشمی کوئی طلال چوہدری، دانیال عزیر، نعیم علوی ٹائپ نے آگے بڑھ کر پوچھنے والے کا منہہ نہیں نوچا نہ گالی نکالی) پوچھا گیا یہ سب کرنے کی ضروت کیوں پیش آئی اس نے سارا واقع گوش گزار کر دیا لیکن اس کے باوجود اس وزیر سے استعفی لے لیا گیا جانتے ہیں کیوں۔ ؟

یہ بھی بڑی دلچسپ بات ہے ہمارے ہاں اگر کوئی وزیر اس طرح کی خدمت کرتا تو پوری قوم اسے” ولی“ کے درجے پر فائز کر دیتی۔ لیکن وہاں اس ”نیک “کام کے عوض وزیر سے استعفی لے لیا گیا۔ پارلیمنٹ کے ممبران نے کہا کہ آپ کا اقدام قابل فخر ہے اور اس کی تحسین کی جانی چاہیے لیکن آپ نے اپنے ذاتی کام کے لئے۔ سرکاری گاڑی کا استعمال کیا جو قابل معافی نہیں ہے، (اتنی سی بات پر استعفی) کہانی کار نے ایک لمبا سا سانس لیا اور کچھ دیر کے سکوت کو توڑتے ہوئے کہا قومیں اس طرح بنتی ہیں۔ اس طرح نہیں کہ ساری کی ساری ریاستی مشینری اہلکار اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے سے لے کر سبزی اور آوارہ گردی تک سرکاری گاڑیوں میں کرتے ہیں جسے بادی ا النظر میں معاشرے میں بھی برا نہیں سمجھا جاتا۔

قومیں اس طرح کی ہوتی ہیں اور ایسے ہی عملوں سے بنتی ہیں

تیسرا واقعہ:ایک بار برطانیہ میں انڈوں کی قلت پیدا ہوگئی ملکہ برطانیہ نے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ٹی وی پر آکر اعلان کیا کہ تمام شہری صبح ناشتے میں جتنے انڈے استعمال کرتے ہیں ان کو آدھا کر دیں۔

اگلے دن بنا چوں چرا اور سوال کیے تمام برطانوی شہریوں نے صبح ناشتے میں انڈوں کی تعداد کو آدھا کر دیا۔

ایک انگریز خاتوں کے ہاں ایک پاکستانی شہری بطور ”پینگ گیسٹ “رہتے تھے جب اسے صبح ناشتے میں ایک انڈہ دیا گیا تو وہ کہنے لگا مجھے تو دو انڈے ملتے تھے یہ آج کیا ہوا؟
خاتون نے کہا۔ کیا تم نے ملکہ کا اعلان نہیں سنا ملک میں انڈوں کی قلت پیدا ہوگئی ہے تمام شہری ان کا استعمال آدھا کر دیں۔
پاکستانی ”پینگ گیسٹ“ کا جواب بڑا دلچسپ اور روح کو تازہ کرنے والا تھا۔
کہا، میڈیم یہاں کون سی ملکہ دیکھ رہی ہے مجھے تو دو انڈے دو۔
خاتوں کا جواب اس سے بھی دلچسپ اور ایمان افروز تھا۔
کہا، ملکہ تو نہیں مگر خدا تو دیکھ رہا ہے ناں !
اور اسے کے بعد اس نیک خاتون نے ”پینگ گیسٹ“ کی مزید مہمانی سے معذرت کر لی۔

قوم اور ہجوم میں یہی فرق ہوتا ہے جو برطانیہ اور ہم میں ہے۔ مگر قوم بننے کی طرف یہ ایک اچھا قدم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).