تاریخ کے دھارے پر بند باندھنا ممکن نہیں


لندن میں دہشت گردی کے تین واقعات پے در پے پیش آئے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ کے قریب حملہ ہوا ، پھر مانچسٹر کے کانسرٹ میں دھماکہ ہوا اور اب لندن برج پر راہ گیروں پر گاڑی چڑھا دی گئی۔ کابل میں سفارتی عمارتوں کے قریب 80 افراد ہلاک کئے گئے اور پھر ایک جنازے کے دوران دھماکوں میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل کی جے آئی ٹی رپورٹ موصول ہو گئی ہے کہ مشال خان کو سیاسی عناد کی بنا پر منصوبہ بندی کر کے مذہبی اشتعال کا نشانہ بنایا گیا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے دنیا کو دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے ۔ کبھی یہ خطرہ بوکوحرام اور الشباب کے نام سے سامنے آتا ہے۔ کبھی طالبان اور القاعدہ کا نام اختیار کرتا ہے ۔ کبھی فرقہ وارانہ تنظیموں کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ کبھی داعش اور اسلامی مملکت کے نام پر عراق اور شام میں بربادی پھیلاتا ہے۔ قتل و غارت اور بدترین تشدد سے جنسی غلامی تک انسان کشی کی ہر صورت سامنے آ چکی ہے۔ حالیہ واقعات کے بعد برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا ردعمل معنی خیز ہے۔ انہوں نے کہا ’کافی ہو گیا ‘۔ دنیا کا کوئی معاشرہ بے یقینی اور عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ معمولات زندگی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ سمجھ لینا چاہیے کہ یورپ میں اسلامو فوبیا کا ظہور ایک ناگزیر نتیجہ تھا ۔ اب اگر کوئی اسلاموفوبیا کو دہشت گردی کا جواز قرار دے تو یہ محض خود کو بیوقوف بنانے کی کوشش ہو گی۔ سعودی عرب میں اسلامی دفاعی کانفرنس میں دہشت گردی کے معاملے پر بحث مباحثے سے معلوم ہو گیا کہ دنیا میں بہت سی ریاستیں دہشت گردی کے سوال کو دراصل اپنے قومی اور علاقائی مفادات کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ان رہنماﺅں کو دہشت گردی کی حقیقت سے آگہی نہیں لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ یہ رہنما دہشت گردی کو ختم کرنے میں ہرگز سنجیدہ نہیں ہیں۔ پاکستان میں ایک آواز سنائی دی کہ ریاض کانفرنس میں پاکستان کی خدمات اور قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ گویا ربع صدی پر پھیلے ہوئے دہشت گردی کے خون آلود نقشے میں پاکستان کے کردار کو دفتر خارجہ کی گھڑی ہوئی ایک تاویل سے ڈھانپ دینا چاہیے۔
گزشتہ صدی میں دو مرتبہ ایک پرامن دنیا کی تشکیل کا موقع سامنے آیا۔ پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی توکرہ ارض ایسی مائع حالت میں تھا کہ اسے امن ، مساوات اور ترقی کے رنگ دیے جا سکتے تھے۔ 1919 ءمیں عالمی قیادت بری طرح ناکام ہوئی۔ پہلی عالمی جنگ کے ملبے سے فسطائیت ، نازی ازم اور بالشویک استبداد برآمد ہوئے۔ اگلے بیس برس ایک پرامن دنیا کی تعمیر کی بجائے اگلی جنگ کی تیاری میں صرف ہوئے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر پھر سے ایک موقع پیدا ہوا کہ عالمی بندوبست کو پائیدار امن بخشا جا سکے لیکن اس سے سرد جنگ برآمد ہوئی ، میکارتھی ازم آیا ، پراکسی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ قومی آزادی کی تحریکیں کم و بیش ہر جگہ ناکام ہوئیں۔ اقوام متحدہ کی افادیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مزاحمت میں اقوام متحدہ کا کردار قطعی طور پر غیر موثر ہے۔
اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں ہم سرد جنگ کی غلطیوں کا خراج پیش کر رہے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران مذہب کو ایک سیاسی موقف کے طور پر سرمایہ دار دنیا نے پیش کیا تھا۔ اشتراکیت اور مغربی بلاک میں سیاسی اور معاشی نظام کی کشمکش کو عقیدے کے کمبل میں لپیٹ کر پیش کیا گیا۔ مسلم اکثریتی ممالک سرمایہ دار دنیا کا آلہ کار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سرد جنگ کے بعد کی دنیا میں پیدا ہونے والی دہشت گردی میں مذہب اسلام ایک سیاسی فریق کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں سے بہت کم لوگ دہشت گردوں کے بیانیے سے اتفاق کرتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ مسلم اکثریتی دنیا کے سیاسی اور علمی رہنماﺅں نے ان مفروضات کو رد کرنے کی جرا¿ت نہیں دکھائی جن کی بنیاد پر دہشت گردی کا مورچہ تعمیر کیا گیا ہے۔ قومی ریاستوں کی موجودگی میں خلافت کا تصور کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بلاد اسلامیہ کی اکثریت نے جمہوریت کو جائز ہمعصر سیاسی بندوبست کے طور پر قبول نہیں کیا۔ مسلم اکثریتی دنیا جمہوری اقدار کی مزاحمت پر کمر بستہ ہے لیکن جمہوریت کے ثمرات میں اپنا حصہ مانگتی ہے۔ ٹیلی ویژن اور ٹیلی فون کی حلت یا حرمت پر فقہی مباحث کرنے والے جدید ترین ہتھیاروں کی خریداری پر آواز نہیں نکالتے۔ مسلم اکثریتی ممالک میں جمہور کی حاکمیت کا تصور جڑ نہیں پکڑ سکا۔ مسلمانوں کو ایک سیاسی فریق کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ناگزیر طور پر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مسلمان مذہبی پیشوا سیاست اور معاشرت کے خدوخال طے کرنے پر اختیار چاہتے ہیں۔ مسلمان کمیونٹی علمی طور پر پسماندہ ہے، عسکری طور پر کمزور ہے ، اقتصادی طور پر محتاج ہے ۔ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان ہمعصر دنیا کے علمی اور سیاسی ڈھانچوں کو قبول کر کے ہی معیشت اور سیاست میں اپنا جائز حصہ حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن وہاں صورت یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے قدیم اقداری نظام کو بحال اور مضبوط کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔
ویسٹ فیلیا کے معاہدے (1648 ء) میں ریاست اور مذہبی پیشوائیت کو الگ الگ کر دیا گیا تھا۔ اب ایک قدم آگے بڑھ کر مذہبی آزادی کے تصور پر ازسرنو غور و فکر کی ضرورت ہے۔ عقیدے کی آزادی ایک انفرادی حق ہے ۔ اسے گروہی حق میں تبدیل کرنا فسطائیت کو دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔ یہ سمجھنا خودفریبی ہے کہ ایک مخبوط الحواس شخص اپنے ذہنی اختلال کے باعث معصوم شہریوں کو ہلاک کر رہا ہے۔ اس صورت حال کے پیچھے منظم قوتیں موجود ہیں ۔ مالیات ، اطلاعات اور منصوبہ بندی کا پورا ڈھانچہ موجود ہے ۔ اسلامی انتہا پسندی کو محض اچھی تقریروں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اب مذہبی پیشوائیت اور اس کی سرپرست قوتوں کو یکسر مسترد کرنا ہو گا۔ سیاست میں مذہب کی آمیزش کو نسل پرستی کے مترادف قرار دینا ہو گا۔ نسل کی طرح عقیدہ بھی پیدائشی اور ناقابل تبدیل شناخت ہے۔ ایسی شناخت کی بنیاد پر سیاست صرف تفرقے پر منتج ہو سکتی ہے۔ کسی مذہب کے پیروکار وں کی طرف سے دوسرے مذہبی گروہوں پر غلبہ اور بالادستی کے نصب العین کو ناجائز قرار دینا ہو گا ۔ دنیا کی کسی ریاست کو مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ رواداری اور پرامن بقائے باہمی کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تعلیمی نصاب ، سیاسی مکالمے ، قانون سازی میں مذہبی امتیاز اور تعصب کو باریک بینی سے رد کر دیا جائے۔ آزادی کے دیگر مسلمہ اصولوں کی طرح مذہبی آزادی بھی فکر و عمل کا ایک صوابدیدی دائرہ ہے ۔ کسی دوسرے فرد یا گروہ کو آزادی کے اس دائرے میں مداخلت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہم میں سے کسی کو سچائی پر اجارہ حاصل نہیں۔ چنانچہ عقیدے کے نام پر جبر اور امتیاز کی تمام صورتوں کو سنجیدگی سے ختم کرنا چاہیے۔ یہ سعودی عرب اور امریکا کے گٹھ جوڑ سے حل ہونے والا مسئلہ نہیں۔ جدید پاپائیت کا مستند نمونہ ایران کس برتے پر مذہبی انتہا پسندی کی مخالفت کرے گا۔ روس اور چین اسلامی انتہا پسندی کو محض اپنے ریاستی مفاد کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والی نریندر مودی سرکار دہشت گردی کی مزاحمت کیسے کر سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے حکمران محض اپنے غیر جمہوری اقتدار کی طوالت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹھیک 72 برس پہلے اقوام متحدہ کا منشور طے کرتے ہوئے تین اصول طے کئے گئے تھے۔ امن ، ترقی اور انسانی حقوق۔ آج کی دنیا کو دہشت گردی کی بے یقینی سے بچانے کے لیے تین اصول اپنانا ہوں گے۔ مساوات ، آزادی اور تحفظ۔ انسانی تجربہ بتاتا ہے کہ دریاﺅں پر بند باندھے جا سکتے ہیں ، تاریخ کے دھارے پر بندباندھنا ممکن نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).