ہوئے مر کے جو ہم رسوا (2)۔


آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ گنجان محلوں میں مختلف بلکہ متضاد تقریبیں ایک دوسرے میں بڑی خوبی سے ضم ہو جاتی ہیں۔ گویا دونوں وقت مل رہے ہوں۔ چنانچہ اکثر حضرات دعوت ولیمہ میں ہاتھ دھوتے وقت چہلم کی بریانی کی ڈکار لیتے، یا سویم میں شبینہ فتوحات کی لذیز داستان سنا تے پکڑے جاتے ہیں۔ لذت ہمسائیگی کا یہ نقشہ بھی اکثر دیکھنے میں آیا کہ ایک کوارٹر میں ہنی مون منایا جارہا ہے تو رت جگا دیوار کے اس طرف ہورہا ہے۔ اور یوں بھی ہوتا ہے کہ دائیں طرف والے گھر میں آدھی رات کو قوال بلیاں لڑاطرہے ہیں، تو حال بائیں طرف والے گھر میں آرہا ہے۔ آمدنی ہمسائے کی بڑھتی ہے تو اس خوشی میں ناجائز خرچ ہمارے گھرکا بڑھتا ہےاوریہ سانحہ بھی بارہا گزرا کہ مچھلی طرحدار پڑوسن نے پکائی اور

مدتوں اپنے بدن سے تری خوشبو آئی

اس تقریبی گھپلے کا صحیح اندازہ مجھے دوسرے دن ہوا جب ایک شادی کی تقریب میں تمام وقت مرحوم کی وفات حسرت آیات کے تذکرے ہوتے رہے۔ ایک بزرگ نے، کہ صورت سے خود پا بہ رکاب معلوم ہوتے تھے، تشویش ناک لہجے میں پوچھا، آخری ہوا کیا؟ جواب میں مرحوم کے ایک ہم جماعت نے اشاروں کنایوں میں بتایا کہ مرحوم جوانی میں اشتہاری امراض کا شکار ہوگئے۔ ادھیڑ عمر میں جنسی تونس میں مبتلا رہے۔ لیکن آخری ایام میں تقویٰ ہوگیا تھا۔

’’پھر بھی آخرہوا کیا؟ ‘‘ پابہ رکاب مرد بزرگ نے اپنا سوال دہرایا۔

’’بھلے چنگے تھے۔ اچانک ایک ہچکی آئی اور جاں بحق ہوگئے‘‘ دوسرے بزرگ نے انگوچھے سے ایک فرضی آنسو پوچھتے ہوئے جواب دیا۔

’’سنا ہےچالیس برس سے مرض الموت میں مبتلا تھے‘‘ ایک صاحب نے سوکھے سے منہ سے کہا۔

’’کیا مطلب؟ ‘‘

’’چالیس برس سے کھانسی میں مبتلا تھے اور آخر اسی میں انتقال فرمایا۔ ‘‘

’’صاحب! جنتی تھے کہ کسی اجنبی مرض میں نہیں مرے۔ ورنہ اب تو میڈیکل سائنس کی ترقی کا یہ حال ہے کہ روز ایک نیا مرض ایجاد ہوتا ہے۔ ‘‘

’’آپ نے گاندھی گارڈن میں اس بوہری سیٹھ کو کار میں چہل قدمی کرتے نہیں دیکھا جو کہتا ہے کہ میں ساری عمر دمے پر اتنی لاگت لگا چکا ہوں کہ اب اگر کسی اور مرض میں مرنا پڑا تو خدا کی قسم، خودکشی کرلوں گا۔ ‘‘ مرزا چٹکلوں پر اتر آئے۔

’’واللہ! موت ہو تو ایسی ہو! (سسکی) مرحوم کے ہونٹوں پرعالم سکرات میں بھی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ ‘‘

’’اپنے قرض خواہوں کا خیال ا ٓرہا ہو گا‘‘ مرزا میرے کان میں پھسپھسائے۔ ’’گناہ گاروں کا منہ مرتے وقت سؤر جیسا ہوتا ہے، مگر چشم بددور۔ مرحوم کا چہرہ گلاب کی طرح کھلا ہوا تھا۔ ‘‘
’’صاحب! سیٹی رنگ کا گلاب ہم نےآج تک نہیں دیکھا‘‘ مرزا کی ٹھنڈی ٹھنڈی ناک میرے کان کو چھونے لگی اور ان کے منہ سے کچھ ایسی آوازیں نکلنے لگیں جیسے کوئی بچہ چمکیلے فرنیچر پر گیلی انگلی رگڑ رہا ہو۔

اصل الفاظ تو ذہن سے محو ہوگئے، لیکن اتنا اب بھی یاد ہے کہ انگوچھے والے بزرگ نے ایک فلسفیانہ تقریر کر ڈالی، جس کا مفہوم کچھ ایسا ہی تھا کہ جینے کا کیا ہے۔ جینے کو تو جانور بھی جی لیتے ہیں، لیکن جس نے مرنا نہیں سیکھا، وہ جینا کیا جانے، ایک متبسم خود سپردگی، ایک بے تاب آمادگی کے ساتھ مرنے کے لیے ایک عمر کا ریاض درکار ہے۔ یہ بڑے ظرف، بڑے حوصلے کا کام ہے، بندہ نواز!

پھر انہوں نے بے موت مرنے کے خاندانی نسخے اور ہنستے کھیلتے اپنی روح قبض کرانے کے پینترے کچھ ایسے استادانہ تیور سے بیان کیے کہ ہمیں عطائی مرنے والوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نفرت ہوگئی۔

خاتمئہ کلام اس پر ہوا کہ مرحوم نے کسی روحانی ذریعے سے سن گن پالی تھی کہ میں سنیچر کو مرجاؤں گا۔

’’ہر مرنے والے کے متعلق یہی کہا جاتا ہے‘‘ باتصویر قمیض والا ٹیڈی بوائے بولا۔

’’کہ وہ سنیچر کو مرجائے گا؟ ‘‘ مرزا نے اس بدلگام کا منہ بند کیا۔

انگوچھے والے بزرگ نے شئے مذکور سے، پہلے اپنے نری کے جوتے کی گرد جھاڑی، پھر پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے مرحوم کے عرفان مرگ کی شہادت دی کہ جنت مکانی نے وصال سے ٹھیک چالیس دن پہلے مجھ سے فرمایا تھا کہ انسان فانی ہے!

انسان کے متعلق یہ تازہ خبر سن کر مرزا مجھے تخلیے میں لے گئے۔ دراصل تخلیے کا لفظ انھوں نے استعمال کیا تھا، ورنہ جس جگہ وہ مجھے دھکیلتے ہوئے لے گئے، وہ زنانے اور مردانے کی سرحد پر ایک چبوترہ تھا، جہاں ایک میراثن گھونگھٹ نکالے ڈھولک پر گالیاں گارہی تھی۔ وہاں انھوں نے اس شغف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جو مرحوم کو اپنی موت سے تھا، مجھے آگاہ کیا کہ یہ ڈراما تو جنت مکانی اکثر کھیلا کرتے تھے۔ آدھی آدھی راتوں کو اپنی ہونے والی بیواؤں کو جگا کر دھمکیاں دیتے کہ میں اچانک اپنا سایہ تمھارے سر سے اٹھا لوں گا۔ چشم زون میں مانگ اجاڑوں گا۔ اپنے بے تکلف دوستوں سے بھی کہا کرتے کہ واللہ! اگر خودکشی جرم نہ ہوتی تو کبھی کا اپنے گلے میں پھندا ڈال لیتا۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ اپنے آپ کو مردہ تصور کرکے ڈکرانے لگتے اور چشم تصور سے منجھلی کے سونٹا سے ہاتھ دیکھ کر کہتے: بخدا! میں تمہارا رنڈاپا نہیں دیکھ سکتا۔ مرنے والے کی ایک ایک خوبی بیان کرکے خشک سسکیاں بھرتے اور سسکیوں کے درمیان سگرٹ کے کش لگاتے اور جب اس عمل سے اپنے اوپر وقت طاری کر لیتے تو رومال سے باربارآنکھ کے بجائے اپنی ڈبڈبائی ہوئی ناک پونچھتے جاتے۔ پھر جب شدت گریہ سے ناک سرخ ہوجاتی توذراصبر آتا اور وہ عالم تصورمیں اپنے کپکپاتے ہوئے ہاتھ سے تینوں بیواؤں کی مانگ میں یکے بعد دیگرے ڈھیروں افشاں بھرتے۔ اس سے فارغ ہو کر ہر ایک کو کہنیوں تک مہین مہین، پھنسی پھنسی چوڑیاں پہناتے (بیاہتا کو چوڑیاں کم پہناتے تھے)۔

حالانکہ اس سے پہلے بھی مرزا کو کئی مرتبہ ٹوک چکا تھا کہ خاقانی ہند استاد ذوؔق ہر قصیدے کے بعد منہ بھر بھر کے کلیاں کیا کرتے تھے۔ تم پر ہرکلمے، ہرفقرے کے بعد واجب ہیں، لیکن اس وقت مرحوم کے بارے میں یہ اول جلول باتیں اور ایسے واشگاف لہجے میں سن کر میری طبیعت کچھ زیادہ ہی منغض ہوگئی۔ میں نے دوسروں پر ڈھال کر مرزا کو سنائی:

’’یہ کیسے مسلمان ہیں مرزا! دعائے مغفرت نہیں کرتے، نہ کریں۔ مگر ایسی باتیں کیوں بناتے ہیں یہ لوگ؟ ‘‘

’’خلق خدا کی زبان کس نے پکڑی ہے۔ لوگوں کا منہ تو چہلم کے نوالے ہی سے بند ہوتا ہے۔ ‘‘

جاری ہے۔۔۔

اگلا حصہ: ہوئے مر کے جو ہم رسوا (3)۔ 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments