ہائپو تھائی رائڈ ازم کیا ہے؟


یہ مضمون نیویارک ائر پورٹ‌ پر لکھ رہی ہوں۔ یہاں‌ سات گھنٹے کا لے اوور ہے جس کے بعد ہم لوگ اپنی انٹرنیشنل فلائٹ پکڑیں گے۔ ایک امریکی ڈاکٹر کو اوسطً سال میں‌ تین یا چار ہفتے کی چھٹی ملتی ہے۔ ایک وقت میں‌ صرف ایک ہفتہ لے سکتے ہیں۔ خاص طور پر اینڈوکرائن کلینک میں‌ تین مہینے پہلے سے لوگ اپوائنٹمنٹ لے چکے ہوتے ہیں اس لئیے کم از کم چھ مہینے پہلے سے پلان بنانا شروع کرنا ہوتا ہے۔ اس ٹرپ کے لئیے بھی کافی عرصہ سے سوچ رہے تھے۔ مارچ میں‌ جب ائرپورٹس پر ٹرمپ ڈرامے بازی شروع ہوئی تو ہم لوگ انٹرنیشنل سفر کے بجائے ڈی سی چلے گئے تھے کیونکہ کس کے پاس مسٹر ٹرمپ کی طرح‌ فالتو کاموں‌ کے لئیے فالتو وقت ہے؟ اس وقت بھی چھت کے ساتھ دو ڈسپلے ٹی وی لگے ہوئے ہیں جن پر فرید زکریا شو چل رہا ہے جس میں‌ کومی کی ٹیسٹیمونی پر تجزیاتی سرجری چل رہی ہے۔ کومی کہہ رہے ہیں‌ کہ ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں اور ٹرمپ کا کہنا ہے کہ کومی نے جھوٹ بولا۔ امریکی حکومت دنیا کے اسٹیج پر ایک مضحکہ خیز رئیلٹی ٹی وی شو بن چکی ہے۔ امریکہ سے باہر جانا امریکی بچوں‌ کے لئیے بہت اہم ہے تاکہ ان کو پتا چلے کہ دنیا کتنی بڑی ہے اور کس طرح‌ ہر ملک کی اپنی زبان، اپنے کھانے اور اپنے کلچر ہیں۔ ان کو معلوم ہوگا کہ اس غبارے کے باہر بھی ایک دنیا ہے، ان کا آسمان کشادہ ہو گا اور یہ سفر ان کے بچپن کا، ان کی شخصیت کا حصہ بن جائے گا۔ امید ہے کہ آگے چل کر وہ ان سوالوں کے جواب دینے کے لائق ہوں گے جو ابھی تک پوچھے بھی نہیں گئے ہیں۔

تھائرائڈ گلینڈ کی بیماریوں‌ کے مریض‌ ہم لوگ ہر روز دیکھتے ہیں۔ زیادہ تر کلینک میں‌ اور کبھی کبھار اس کی ایمرجنسی کے ساتھ ہسپتال میں۔ اینڈوکرنالوجی کی پریکٹس میں‌ 50 فیصد مریض ذیابیطس کے ہیں، 30 فیصد تھائرائڈ کے اور باقی دیگر مسائل کے ساتھ آتے ہیں جیسے کہ پچوٹری، ایڈرینل، آسٹیوپوروسس، ٹیسٹاسٹیرون کی کمی، پولی سسٹک اووری سنڈروم اور کیلشیم، پوٹاشیم اور سوڈیم کے غیر متوازن ہونے کی وجہ سے۔ ان میں‌ سے ہر نظام میں‌ مختلف بیماریاں‌ ہوسکتی ہیں۔ ایڈرینل گیلنڈ کی بہت ساری مختلف بیماریاں ہیں، کیلشیم کم بھی ہوسکتا ہے اور زیادہ بھی۔ کم یا زیادہ ہونے کی وجوہات کی ایک لمبی لسٹ ہے جس میں‌ سے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایک لحاظ سے اینڈوکرنالوجی کی فیلڈ میں‌ مریض‌ ایک معمے کی طرح‌ ہوتے ہیں‌ جن کو سلجھانا پڑے۔

میرے نانا کے ایک دوست کہتے تھے کہ تشخیص مرض‌ کی موت ہے۔ یہ بات کچھ بیماریوں‌ پر لاگو ہوتی ہے اور کچھ پر نہیں۔ کچھ بیماریوں‌ کو کیور کرسکتے ہیں جیسے کھانسی، نزلہ، بخار وغیرہ لیکن کچھ بیماریاں‌ ہیں‌ جن کو تمام زندگی مینیج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کو مکمل طور پر کیور نہیں‌ کیا جاسکتا۔ نانا کے یہ دوست ہومیوپیتھی سے علاج کرتے تھے اور کہتے تھے کہ سیدھے ہاتھ کی چھوٹی انگلی کی تکلیف کا علاج بائیں‌ ہاتھ کی چھوٹی انگلی کے علاج سے مختلف ہوتا ہے۔ اس بات کو میٹافور کی طرح‌ جدید معلومات پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔ میرے سوتیلے ابو نے بھی ہومیوپیتھی کی کتابیں پڑھ کر ہومیوپیتھی سیکھ لی تھی۔ ان کی ایجوکیشن اردو اور اسلامیات میں تھی اور وہ بہت عمدہ شاعری کرتے تھے۔ یہ لوگ سنجیدہ مشاعرے کرتے تھے جس میں کافی اچھے سکھر کے شاعر جمع ہوتے تھے۔ وہ لوگ ایک ایک شعر پر زور زور سے واہ واہ کرتے تھے۔ انتہائی افسوس کی بات کہ وہ شاعری کبھی چھاپی نہیں۔ ایک مرتبہ میرے پیٹ میں‌ سخت درد ہوگیا تو انہوں‌ نے دو تین سفید گول میٹھی گولیاں‌ دیں‌ اور دو منٹ بعد پیٹ کا درد ٹھیک ہوگیا۔ وہ شائد پلاسیبو افیکٹ تھا اور اس کو خود ہی ٹھیک ہوجانا تھا۔ امید ہے کہ وہ یہ مضمون نہیں پڑھیں گے اور اس دن کو کوسیں گے جب وہ چار گھنٹے کا سفر کرکے میرے لئیے میڈیکل کالج کے داخلے کا فارم لے کر آئے۔ شائد کسی کا یہ سن کر دل ٹوٹ جائے کہ ہومیوپیتھی سوائے دل بہلانے کے کچھ نہیں کرتی۔ اس لئیے آپ اپنے پیسے اور وقت برباد مت کریں۔ اتنی ساری موٹی کتابیں‌ لکھنے اور اتنی ساری ننھی منھی میٹھی سفید گولیوں‌ والی دوا کی شیشیاں‌ بنانے پر یقیناً محنت تو بہت لگی ہوگی لیکن اب میڈیسن آگے بڑھ گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی آگے بڑھنا ہوگا ورنہ مریضوں‌ کے ساتھ انصاف نہیں‌ ہوگا۔ ہمیں‌ یہاں‌ سے شروع کرنا ہوگا کہ دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں‌ کیا مسئلہ ہے اور بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں کون سا مسئلہ ہے۔ اگر ایک میں‌ گاؤٹ اور دوسرے میں‌ سیپٹک آرتھرائٹس ہو تو ظاہر ہے کہ ان کا علاج مختلف ہے۔ لیکن اگر دونوں‌ میں‌ رہیوماٹوئڈ آرتھرائٹس ہے تو یہ ایک سسٹمک بیماری کی طرح‌ ٹریٹ کی جائے گی۔

تھائرائڈ گلینڈ کی عام بیماریوں‌ میں‌ تھائرائڈ کی کمی یا زیادگی شامل ہیں۔ انٹرنیٹ سے عام پوچھے گئے سوال جمع کرکے یہاں‌ ان کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

تھائرائڈ گلینڈ کیا ہے اور کہاں‌ پایا جاتا ہے؟

تھائرائڈ گلینڈ اینڈوکرائن سسٹم کا ایک اہم حصہ ہے۔ تھائرائڈ گلینڈ تتلی کی طرح‌ کی شیپ کا ہوتا ہے اور وہ گردن میں ہوتا ہے۔

تھائرائڈ گلینڈ کیسے کام کرتا ہے؟

تھائرائڈ گلینڈ کو کام کرنے کے لئیے ہارمون آرڈر کی ضرورت ہوتی ہے جو پچوٹری گلینڈ سے آتا ہے۔ پچوٹری گلینڈ آنکھوں‌ کے پیچھے دماغ کے نیچے موجود ہوتا ہے، جس کو ماسٹر گلینڈ بھی کہتے ہیں۔ اس کے دو حصے ہیں۔ ایک آگے والا اور ایک پیچھے والا۔ اینٹیریر پچوٹری یعنی آگے والے میں‌ سے پانچ مختلف ہارمون نکلتے ہیں‌ جن میں‌ ایک تھائرائڈ اسٹی میولیٹینگ ہارمون یعنی کہ ٹی ایس ایچ ہے۔ ٹی ایس ایچ کا کام ہے کہ تھائرائڈ گلینڈ پر موجود رسیپٹرز کے ساتھ جڑ کر تھائرائڈ ہارمون بنانے کا پروسس شروع کرے۔ ٹی ایس ایچ کو تھائرائڈ کی بیماری کے لئیے چیک کرتے ہیں۔ اس کے زیادہ یا کم ہونے سے تھائرائڈ میں‌ مسئلے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ٹی ایس ایچ کا نارمل لیول انفرادی حالات پر مبنی ہے لیکن جنرل پاپولیشن کے لئیے اعشاریہ چار سے چار تک ہے۔

تھائرائڈ کی لیب کو کیسے سمجھیں؟

ابھی تک کافی ساری پرانی تھائرائڈ لیبارٹری ٹیسٹ سرکیولیٹ کررہے ہیں اور کبھی کبھار نظر سے گذرتے ہیں۔ تیسری نسل کے عمدہ اور حساس ٹی ایس ایچ ٹیسٹ ایجاد ہونے کے بعد اور پھر فری ٹی فور اور فری ٹی تھری کو چیک کرنے کی صلاحیت حاصل ہوجانے کے بعد اب ان پرانے ٹیسٹوں کی ضرورت باقی نہیں‌ رہی ہے۔ جیسے کہ ٹی تھری انڈیکس یا ٹوٹل ٹی فور وغیرہ۔ ان کی کوئی کلینکل وجہ باقی نہیں‌ رہ گئی ہے۔

تھائرائڈ گلینڈ کے لئیے یہ تین ٹیسٹ کافی انفامیشن فراہم کرسکتے ہیں۔ ٹی ایس ایچ، فری ٹی فور اور فری ٹی تھری۔ ان کے مختلف کامبینیشن مختلف بیماریوں‌ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جیسے پزل کے ٹکڑے مل کر ایک تصویر بناتے ہیں۔ اگر ٹی ایس ایچ زیادہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ تھائرائڈ ہارمون کی کمی ہے اور اگر ٹی ایس ایچ کم ہو تو اس کا مطلب ہے کہ تھائرائڈ ہارمون زیادہ ہے۔ ایک ترازو کے پلڑوں‌ کی طرح۔ اسٹوڈنٹ لائف میں‌ ٹلسا اوکلاہوما کے میک ڈانلڈ میں‌ کیشیر کی جاب کی تھی۔ اس لئے مریضوں‌ کو سمجھانے کے لئیے آسان بنانے کے لئیے یہ مثال دیتی ہوں‌ کہ اگر آپ کے سامنے کسٹمرز کی لائن ہے جو بگ میک کے آرڈر دے رہے ہیں اور پیچھے کک آہستہ آہستہ سینڈوچ بنا رہے ہیں تو آرڈرز سے اسکرین بھر جائے گی اور اگر سینڈوچ زیادہ بنائے جائیں‌ تو سینڈوچز کا ڈھیر لگ جائے گا اور آرڈرز کم ہوجائیں‌ گے۔ بالکل اسی طرح‌ اگر تھائرائڈ گلینڈ ٹھیک سے کام نہیں‌ کررہا تو پچوٹری ٹی ایس ایچ بنا بنا کر بھیجتا رہے گا جس کا لیول خون میں‌ زیادہ ہوجائے گا اور اگر تھائرائڈ زیادہ ہارمون بنائے تو ٹی ایس ایچ کم ہو گا۔

تھائرائڈ گلینڈ کا کیا کام ہے؟

تھائرائڈ گلینڈ تھائرائڈ ہارمون بناتا ہے۔ تھائرائڈ ہارمون انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے بغیر دل، سرکیولیشن، معدہ، آنتیں، مسلز یا نروس سسٹم کچھ بھی ٹھیک سے کام نہیں‌ کرسکتے۔ تھائرائڈ ہارمون جسم کے درجہ حرارت کو نارمل رکھتا ہے۔ تھائرائڈ کے کم یا زیادہ ہونے سے تمام جسم متاثر ہوتا ہے۔ تھائرائڈ ہارمون کو نارمل دائرے میں‌ رکھنا سب کے لئیے اہم ہے۔ خاص طور پر حاملہ خواتین میں تھائرائڈ ہارمون نارمل لیول میں‌ رکھنے سے ان کے ہونے والے بچوں‌ میں‌ دماغی کمزوری کا رسک کم ہوجاتا ہے۔ حمل کے 11 ہفتے تک بچے کا اپنا تھائرائڈ گلینڈ نہیں‌ بنا ہوتا اور وہ اپنی ماں‌ پر انحصار کرتے ہیں۔

ہائپوتھائرائڈزم کیا ہے اور اس کی کیا علامات ہیں؟

ہائپوتھائرائڈزم کا مطلب ہے تھائرائڈ ہارمون کی کمی۔ اس کا سب سے عام سبب آٹو امیونٹی ہے یعنی کہ جسم کے مدافعتی نظام میں‌ خرابی سے ہوتی ہے۔ ہمارے مدافعتی نظام کو بیکٹیریا اور وائرس سے لڑنا چاہئیے لیکن کچھ لوگوں‌ میں‌ یہ جینیاتی مسئلہ ہوتا ہے کہ ان کا مدافعتی نظام اپنے جسم کے حصوں‌ پر حملہ کردیتا ہے۔ 85 فیصد افراد میں‌ ہائپوتھائرائڈزم آٹو امیونٹی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بقایا 15 فیصد میں‌ وہ لوگ شامل ہیں جن کا تھائرائڈ سرجری سے نکال دیا گیا ہو یا پھر ان کو ریڈیوایکٹو آیوڈائن دی گئی ہو یا پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا تھائرائڈ پیدائش سے ہی غائب ہوتا ہے جس کو تھائرائڈ اے جینیسس کہتے ہیں۔ یہ ایک رئر یعنی کہ انوکھی بیماری ہے۔ سر زبیری کہتے تھے کہ اگر آپ ایک انوکھی بیماری تشخیص کریں‌ تو یہ انوکھی بات ہو گی کہ آپ درست نکلیں۔

تھائرائڈ کی کمی سے جو علامات پیدا ہوتی ہیں ان میں‌ مٹاپا، تھکن، یاداشت بگڑنا، قبض، جلد کا خشک ہونا، بال جھڑنا، سردی لگنا شامل ہیں۔

تھائرائڈ کی کمی کا کیا علاج ہے؟

تھائرائڈ کی کمی کا علاج سادہ ہے۔ جو ہارمون مسنگ ہے وہ دے دیں۔ لیووتھائراگزین ایک سستی دوا ہے جو دنیا میں‌ ہر جگہ باآسانی دستیاب ہے۔ تھائرائڈ کی دوا کو ہمیشہ باقاعدگی سے لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو صبح کھانے سے پہلے خالی پیٹ ایک گلاس پانی کے ساتھ لینا چاہئیے۔ تھائرائڈ کے ساتھ کیلشیم یا فولاد لینے سے وہ درست طریقے سے جذب نہیں‌ ہوتی۔ اس لئیے ان کو کم از کم چار گھنٹے بعد لینا چاہئیے۔ تھائرائڈ کی دوا لینے کے بعد ناشتہ کرنے کے لئیے 30 منٹ سے 45 منٹ تک انتظار ضروری ہے تاکہ وہ اچھی طرح‌ سے آنتوں‌ میں‌ سے خون میں‌ جذب ہوجائے۔

آپ کے ڈاکٹر ٹی ایس ایچ لیول چیک کرکے یہ دیکھیں‌ گے کہ دوا بڑھانے یا گھٹانے کی ضرورت ہے یا نہیں۔

امید ہے کہ اس مضمون سے قارعین کی معلومات میں‌ اضافہ ہوا ہوگا۔ اس کو لکھنے سے میں‌ نے ائر پورٹ پر اپنا وقت مکمل طور پر ضائع ہونے سے بچالیا۔ حکیم محد سعید کہتے تھے کہ “وقت روئی کے گالوں‌ کی طرح‌ ہے علم و حکمت کے چرخے میں‌ کات کر اس کا قیمتی لباس بنا لو ورنہ جہالت کی آندھیاں‌ اسے اٹھا کر کہیں‌ کا کہیں پھینک دیں‌ گی۔”

اس سے پہلے تو کبھی فرانس نہیں گئے لیکن وہاں گم ہوجانے کی فکر نہیں کیونکہ مجھے نہیں‌ تو کیا میری بیٹی کو فرینچ آتی ہے۔ جب پیرو گئے تھے تو نوید کی وجہ سے بہت آسانی ہوئی کیونکہ وہ ہسپانوی جانتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیورز سے ، ہوٹل والوں سے، دکانداروں سے بات کرنے میں کچھ مشکل نہیں ہوئی۔ اردو بیک گراؤنڈ کی وجہ سے اس کا ہسپانوی لہجہ بھی ٹھیک ہے جو کہ ایک عام امریکی بچے کے لئیے مشکل ہوتا ہے۔ پوائنٹ یہ ہے ہر اگلی نسل کو ہمیں‌ خود سے بہتر بنانے پر کام کرنا ہے۔ اس کے لئیے پیچھے دیکھ کر سبق حاصل کرکے آگے کا سوچنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).